اسلام انسان کے پورےنظامِ حیات کا احاطہ کرتا ہے۔اور زندگی کے ہر معاملے میں اُس کی ہدایت و رہنمائی فرماتا ہے۔حیاتِ انسانی کا کوئی شعبہ بھی اُسکی رہنمائی سے خالی نہیں۔ اسلام دینِ فطرت (islamic history) ہے۔ جس طرح اسلام انسان کی شخصیت اور کردار کی تعمیر کرتا ہے تا کہ ایک پُر امن معاشرہ وجود میں آئے ۔اسی طرح علم نفسیات (psychological solution) کا مقصد بھی فرد کی شخصیت و کردار کی بہترین تعمیر ہے تا کہ ایک اچّھا معاشرہ تشکیل پا سکے ۔
علم نفسیات (psychological solution) ایک منطّم سائنسی علم ہے جو انسانی سوچ‘ فطرت ، تخیّل‘ ذہنی اعمال ، عادات و اطوار ،پسند نا پسند اور کردار سے متعلق ہےاور نفسیات کا علم ،انسانی شخصیت کا مطا لعہ منطّم طریقے سے کرتا ہے اور انسانی شخصیت کے چند ایسے پہلوؤں عادتوں،یا اعمال کو بیان کرتا اور ان کا علاج کرتاہے جو انسانی شخصیت میں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتےہیں اور اُسے ذہنی دباؤ اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کرسکتےہیں ۔مثلا غیر ذمّہ داری کا احساس ، مایوسی ، ڈپریشن ، غصہ‘خوف ، الزام تراشی ، خود غرضی ، لالچ ،حسد جلن ‘ کینہ،‘غیبت‘بغض‘ احساسِ برتری یا احساسِ کمتری ،اور انتہاء پسندی وغیرہ۔
اور اسلام (islamic history) ایسی تمام برائیوں سے بچنے کی ہدایت اور تربیت فرماتا ہے جو انسان کو جسمانی، ذہنی معاشرتی ، اخلاقی ، روحانی یا نفسیاتی بیماریوں میں مبتلاءکر سکتی ہیں ۔یہاں ہم چند کا ذکر کریں گے ۔
خوف:
خوف بھی ایک نفسیاتی بیماری ہے ۔آج کا انسان طرح طرح کے خوف میں مبتلاء ہے ۔ جو اُس کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر ڈا ل رہے ہیں۔جبکہ اسلام میں اس نفسیاتی بیماری سے بچاؤ اور علاج کا کتنا بہترین اور پُر اثر طریقہ بیان ہوا ہے کہ اللہ کے احکامات کی اطاعت کرو اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو۔
یعنی دل میں اللہ (islamic history) کے خوف کے سوا کسی کا خوف نہ ہو ۔ اور جس کے دل میں اللہ کے خوف کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا وہ بہت بہادر ہوتا ہے ، حقوق کا ادا کرنے والا اور بہت مطمئن زندگی گزارتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
احساس ذمہ داری:
لوگوں میں احساسِ ذمّہ داری پیدا کرنے کے لئے حدیث شریف میں ارشاد ہوتا ہے۔
“اور تم سب راعی (حاکم ) ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں سوال کئے جاؤگے ۔”
احساس ذمہ داری کی تربیت (islamic history) حضور اکرم ﷺکی اس حد یث میں بیان کی جا رہی ہے کہ ہر شخص رائی (حاکم ) ہے۔ اس کے لئے کسی ریاست یا علاقے کا حاکم ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں راعی یعنی حاکم ہے لیکن یہ راعی ہونا کسی پر حکم چلانے یا اپنی بات منوانے کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اپنی رعیّت کا خیال رکھنے کے زمرے میں آتا ہے مثلا جیسے ایک حاکم پر اپنی رعیت کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنا فرض ہے اسی طرح ہر انسان ایک راعی (حاکم) کی حیثیت رکھتا ہے اور اُسے اپنی رعیّت یعنی ایسے لوگ جنکے حقوق اُس پر فرض ہیں تو اُسے اپنے اُن فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتا ہی نہیں برتتنی اور اُ ُس کو اپنے ان فرائض کو پورا کرنا ہے کیونکہ قیامت کے دن اُس سے ان فرائض کے بارے میں باز پُرس ہوگی اوراُسے اُن کا جواب دینا ہوگا ۔مثلاً مرد اپنے گھر والوں کا ، عورت اپنے گھر والوں اور بچوں کی، استاد اپنے شاگردوں کا، افسر اپنے ما تحتوں کا ، بہن یا بھا ئی اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے وغیرہ وغیرہ ۔ اور یہ ہی جواب دہی کا خوف اُس میں فرائض کو اداکرنے اور احساسِ ذمّہ داری کو پورا کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ نفسیات لوگوں میں احساس ذمّہ داری کا شعور پیدا کر نے کے لئے جدید طریقے اور علاج تلاش کرتی ہے اور پھر بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ۔
انسانی مزاج میں تلخیاں اور انتشار:
ترش رو یّے نفسیاتی ہیجان ، مزاج میں تلخیاں و انتشار ، طبیعت میں بے چینی،اور طرح طرح کے نفسیاتی امراض اسلام کی تعلیمات سے دوری اور عمل کے فقدان کا ہی نتیجہ ہیں ۔اور اسلام نے ان بیماریوں کے علاج کے لیے حسن سلوک اور حسنِ اخلاق کی تعلیم دی ہے ۔ نرم روش اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔اسلام انسان کو بہت سی نفسیاتی بیماریوں سے بچانے کے لیے اخلاق کا درس دیتا ہے ۔ در گزر ، انصاف ، احسان اور ایثار کی تعلیم دیتا ہے۔ اور نفسیات (psychological solution) نت نئے جدید طریقو ں سے انسان کو ان بیماریوں سے بچانےکے طریقے اپناتی ہے۔
لو گوں کے بارے میں منفی خیالات اور منفی رویّے:
لو گوں کے بارے میں منفی خیالات اور منفی رویّوں سے بچاؤ کے لیئے اسلام (islamic history) کا کیا ہی مؤثر اور خوبصورت اندازِ تر بیت ہے سورۃالحجرات کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے
“اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔”
یعنی لوگوں کے بارے میں منفی خیالات سے بچواور حسنِ ظن رکھو۔لوگوں کے بارے میں برے گمان یعنی بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی بہت سی نفسیاتی ، جسمانی ، اخلاقی اور معاشرتی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ بد گمانی سے انسان کے اندر غصّہ اور نفرت جیسے منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اور یہ منفی جذبات ڈیپریشن اور فرسٹریشن جیسی نفسیاتی (psychological solution) اور ذہنی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ فساد پھیلتا ہے لڑائی جھگڑے اور انتقام جیسی برائیاں کئی جسمانی بیماریاں ہائی بلڈ پریشر ، امراضَ قلب اور ہیجان وغیرہ اور کئی معا شرتی بیماریاں پیدا کرتی ہیں ۔
مایوسی ڈیپریشن اور فرسٹریشن:
اسلام (islamic history) میں ما یوسی ,ڈیپریشن اور فرسٹریشن کا کتنا ٹھوس اور مؤثر علاج کیا گیا ہے قرانّ کریم میں ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے “اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔ ” اس آیتِ مبارکہ سے ہی ما یوسی ، ڈیپریشن اور فرسٹ ٹریشن کی بیماریوں کا قلع قمع کیا جا رہا ہے ۔ جو مزید دوسری نفسیاتی (psychological solution) ، جسمانی اور معاشرتی بیماریوں کو بڑھنے سے روکتا ہے اسی طرح اسلام نے ما یوسی ، ڈیپریشن اور فرسٹ ٹریشن سے نکلنے کے متعدد طریقے بتائے۔ اسلام میں مایوسی کفر ہے جیسی تعلیمات انسان کو ان نفسیاتی بیماریوں میں مبتلاء ہونے سے بچاتی ہیں۔
انتہا پسندی:
انتہا پسندی سے روکنے کے لئےجہا ں علم نفسیات (psychological solution) فرد کا انداز فکر تبدیل کرنے کی کوششوں میں سر گرداں نظر آتا ہے وہا ں اسلام اس نفسیاتی بیماری سے بچاؤ کا سدّباب درمیانی روش پر چلنے کو قرار دیتا ہے ۔ سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد پاک ہے ” ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو”
یعنی زندگی کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ہر کام میں میانہ روی ضروری ہے۔
غرض جس طرح اسلام (islamic history) انسان کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے اسی طرح اس کی نفسیاتی نشوونما اور تربیت بھی کرتا اور اُسے نفسیاتی بیماریوں سے بچاتا ہے۔