بھینس کا دودھ :بھینس کا دودھ گائے کے دودھ کی بہ نسبت زیادہ میٹھا، زیادہ چکنا ، مقوی اور مبہی ہوتا ہے اور مولد بلغم بھی ہے ۔ اس لیے بلغمی مزاج والوں کے لیے مضر ہے اگر جوش دیتے وقت سونٹھ یا مگھاں یا چھوہارہ اس میں ڈال لیا جائے تو ایک حد تک اس کی اصلاح ہو جاتی ہے –
بھینس کا دودھ گائے کے دودھ کی بہ نسبت کثیف اور دیر ہضم ہے اس لیے دودھ پیتے بچوں کو یہ دودھ موافق نہیں آسکتا انہیں گائے کا دودھ ہی موافق ہے
گائے کا دودھ : گائے کا دودھ بھینس کے دودھ کی بہ نسبت خصوصیت کے ساتھ خوش ذائقہ معتدل اور زودہضم ہوتا ہے اس کا متواتر استعمال بیماری اور بڑھاپے سے بہت حد تک محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ مادہ حیات پیدا کرتا ہے ۔ دل ودماغ اور جسم کے لیے تقویت بخش ہے ۔ بھینس ، بھیڑ وغیرہ کئی حیوانات کے دودھ کی بہ نسبت کم گاڑھا ہوتا ہے اسی لیے زود ہضم اور مزاج کے مطابق ہوتا ہے
بکری کا دودھ:بکری عموماً خاردار ، کڑوی کسیلی جڑی بوٹیاں کھاتی ہے ، پانی کم پیتی ہے اور خوب بھاگتی اور دوڑتی ہے اس لیے اس کا دودھ لطیف ، زودہضم ، مصفیٰ خون اور ٹھنڈا ہوتا ہے ۔ ہلکا اور زود ہضم ہونے کی وجہ سے ہی خلطوں کو نہیں بگاڑتا ، جسمانی طاقت کو بحال رکھتا ہے ۔ تالو ، حلق اور منہ کے اندر بلغمی اور بادی عوارض میں املتاس کو بکری کے دودھ میں ابال کر غرارے کرنا مفید ہوتا ہے ۔ ناک اور کان میں ٹپکانے سے گرمی ، خشکی اور دماغ کی بے چینی کو رفع کر کے نیند لاتا ہے ۔
بکری کے دودھ میں صاف روئی بھگو کر آنکھوں پر بطور پھایہ رکھنے سے آنکھوں کی گر می اور جلن دور ہو جاتی ہے۔ہاتھ، پاؤں کے تلوؤں پر مالش کرنے سے جلن دور ہو جاتی ہے ۔ بخار کی شدت میں اگر بکری کے دودھ کی سر پر پٹی کی جائے توحرارت میں کمی آجاتی ہے ۔
برطانیہ میں گائے اور بھینس کے دودھ کی نسبت بکری کا دودھ زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ محکمہ حفظان صحت کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے بیس بائیس سال پیشتر انگلستان میں 20 لاکھ گیلن سالانہ بکری کا دودھ خرچ ہوتا تھا مگر آٹھ برس ہوئے یہ مقدار بڑھتے بڑھتے 2 کروڑ گیلن سالانہ سے بھی متجاوز ہو گئی ۔ بکری کے دودھ کی ہر دلعزیزی کے اسباب حسب ِذیل بیان کیے جاتے ہیں : ( دررج بالا اعدادو شمار اپ ٹو ڈیٹ نہیں ہیں )
1 ۔ بہ نسبت دیگر جانوروں کے بکری رکھنے میں سہولت ہے ، یہ کم خرچ اور بالا نشین کے مصداق ہے ۔
2۔ بکری کا دودھ دیگر جانوروں کے دودھ کی بہ نسبت زیادہ لطیف اور زود ہضم ہوتا ہے
3۔ تپ دق کے جراثیم سے پاک ہوتا ہے ۔
4 ۔ سب سے اہم اور بڑا سبب اس کی دلعزیزی کایہ ہے کہ کسی نے برطانیہ کی ناز نینوں کو یقین دلا دیا ہے کہ بکری کے دودھ سے ان کے چہرے کی جلد زیادہ صاف ، سفید اور ملائم رہے گی اور اس سے دن میں کئی بار چہرہ ، گردن اور بازو دھوتی ہیں ۔ سچ ہے انسان کا “نصف بہتر” حصہ جس شئے کو شرف قبولیت بخشے ، اس کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی میں کسے شک ہو گا۔
بچوں کو سوء ہضم کی شکایت ، تپ دق کے مریضوں خراب غذا استعمال کرنے والے لوگوں کے لیے بطور غذا بکری کے دودھ کی عمدگی پورے طور پر تسلیم کی جاچکی ہے ۔ ان تمام امور سے قطع نظر نہایت اہم بات یہ ہے کہ بکری کے دودھ میں ٹی بی کے جراثیم نہیں ہوتے جو گائے کے دودھ میں پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ بکری اس مہلک مرض سے تقریباً محفوظ رہتی ہے ۔ علاوہ ازیں تباہ شدہ جھلیوں کو دوبارہ اپنی حالت پر لانے اور کسی حد تک تپ دق سے حفا ظت کے لیے بھی بکری کا دودھ مفید ثابت ہو چکا ہے۔
علاقہ ممبئی کے زمانہ قیام میں ایک دفعہ میری ملاقات ایک بوڑھے سے ہوئی جو اپنی عمر ڈیڑھ سو سال بتاتا تھالیکن اس کے بال سیاہ اور دانت بالکل سالم تھے ۔ اس کی ناک کی گھوڑی پر عینک بھی سوار نہ تھی ۔ اس نے بتایا کے جب سے اس نے ہوش سنبھالہ ہے ۔ شہداور بکری کے دودھ کے سوا کچھ نہیں کھایا اور یہ کے اس مقصد کے لیے اس نے اپنے ڈیرے پر شہد کی مکھیاں پال رکھی تھیں ۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ شہد حسب ضرورت مٹی کے برتن میں ڈال کر اُوپر سے بکری کا دودھ لیتا اور اسی طرح گرم گرم پی لیتا تھا ۔ اس کا کہنا تھا اس قدرتی غذا کے علاوہ اس نے آج تک کوئی اناج ، سبزی یا مصالحہ وغیرہ استعمال کیا ۔ اس کا چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ تھا۔
گدھی کا دودھ : گدھی کے دودھ کی تاثیر گائے بکری اور عورت کے دودھ سے ملتی ہے۔تپ دق کے لیے تو یہ بالخاصہ مفید ہے۔ اگر گدھی کو سبز یا خشک جو، کلفہ،دھنیا،سونف کا چارہ دیا جائے تو اس کے دودھ میں ایسے فوائد مشاہدہ میں آتےہیں جو کسی دوسرے دودھ سے حاصل نہیں ہو سکتے۔
زمانہ قدیم میں اکثر امیرعورتیں اپنے حسن و شباب کو قائم رکھنے کے لیے گدھی کے دودھ سے غسل کیا کرتی تھی۔ان کا خیال تھا کہ اس عمل سے حسن و جمال قائم رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بعض عورتیں چہرے کی جھایئاں اورداغ دور کرنے کے لیے دودھ اور بیسن سے منہ دھوتی ہیں ۔ تجربہ شاہد کہ اس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے ۔ اب یورپ میں بھی دودھ کے غسل کا رواج ہورہا ہے ۔چنانچہ وہاں امیر طبقہ کی عورتیں اور سینما کی ایکٹرسیس وقتاًفوقتاًدودھ کا غسل کرنے لگی ہیں ۔اس غرض کے لیے بکری اور گدھی کا دودھ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ گائے اور بھینس کی بہ نسبت زیادہ رقیق اور مسکن اعصاب ہوتا ہے ۔
اُونٹنی کا دودھ:اُونٹنی کا دودھ ہاضم اور نمکین ہوتا ہے قبض کشا ہے ۔ پیٹ کے کیڑوں ، ہاتھ پاؤں کی سوجن ، ورم جگر ، بواسیر اور پرانے بخاروں میں خصوصیت سے مفید ہے ۔
اُونٹنی کے دودھ سے تپ دق و کینسر کا علاج:جے پور ترجمان نے بتایا ہے کہ اُونٹوں کے بارے قومی ریسرچ سینٹر بیکانیر میں اُونٹنی کے دودھ سے علاج کے بارے میں سائنٹفک مطالعہ کئے جا رہے ہیں ۔ دیہاتی لوگوں کی غیر مصدقہ رپورٹوں اور بزرگوں سے پتہ چلتا ہے کہ اُونٹنی کے دودھ میں ایسے اوصاف ہیں جو، تپ دق ، کینسر ، شوگر اور اس سے متعلقہ بیماریوں میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔ ان وجو ہات پر انسٹیٹیوٹ نے مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ممکن ہے کہ دودھ میں ایسے اجزاء ہوتے ہوں جو مریضوں کو بیماریوں سے نجات دلاتے ہیں ۔
عورت کا دودھ :عورت کا دودھ طاقت بخش ، ہلکا اور خشگوار ہوتا ہے ۔ سرسامی بخاروں میں بطور نسوار اور آنکھوں کے درد میں بطور قطور استعمال کیا جاتا ہے ۔ جس عورت کی گود میں لڑکا ہو ، اس کا دودھ گرم تر اور جس کے لڑکی ہواس کا دودھ سرد تر تاثیر رکھتا ہے ۔
عورت کا دودھ تپ دق ، سل ، گرم خشک کھانسی پھیپھڑے ، سینہ اور آنکھوں کے امراض اور دوسرے اندرونی اعضاء کے زخموں کے لیے مفید ہے ۔ گرم بخاروں اور سر سام میں سر پر بھی لگایا جاتا ہے ۔ گرمی کا سر درد ، پاگل پن ، مراق مالیخولیادور ہوتا ہے مقوی دماغ ہے۔ آنکھوں کی روشنی بڑھاتا ہے ۔
مندرجہ بالا امراض میں اگر عورت کا دودھ میسر نہ ہو سکے تو گدھی کا دودھ استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔
بچوں کے لیے ماں کا دودھ ایک مکمل غذا ہے جو اخلاط کو اعتدال پر رکھتا ہے، تکمیل صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی ڈھانچہ کو مکمل کرنے کے لیے خون ، گوشت، چربی اور استخواں کی پیدائش اور افزائش کا موجب ہوتا ہے ۔ بچوں کا تندرست اور طویل العمر ہونا ابتدائی خوراک پر منحصر ہے۔ جن بچوں کو ابتدا میں کمی یا بے قاعدگی کا سامنا ہوتا ہے ان کے جسم کی نشوونما اکثر ناقص پائی جاتی ہے۔ انسانی عقل شیر خوار بچوں کے لیےماں کے دودھ کے برابر مفید چیز آج تک پیدا نہیں کر سکی ۔
ڈاکٹر سکالپی کے تجر بات :ڈاکٹر سکالپی نے حال ہی میں عملی تجربات کے ذریعہ معلوم کیا ہےکہ عورت کا دودھ نہایت زبردست جراثیم کش اثرات کا حامل ہے۔ اس کی یہ خصوصیت پستانوں سے خارج ہونے کے ایک گھنٹہ یا اس کے کچھ زیادہ عرصہ تک باقی رہتی ہے۔ بشرطیکہ اس کو مناسب درجہ حرارت پر رکھا جائے ۔ ابالنے سے اس کی خصوصیت بہت جلد ضائع ہو جاتی ہے ۔
اس سے نتیجہ نکالا گیا ہے کہ شیر خوار بچوں کے لیے ان کی ماؤں کا دودھ نہ صرف بہترین غذا ہی کا کام دیتا ہے بلکہ اپنے قاتل جراثیم اور عفونت کو روکنے والے خواص کی وجہ سے بعض قسم کے جراثیمی امراض سے حفظ ماتقدم کے لئے بھی بہت حد تک مفید ہے۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ مکمل غذائیت کے لیے دودھ میں جہاں اور ہر قسم کے غذائی اجزاء کی کافی مقدار ہوتی ہے وہاں فولادی اجزاء کی اس میں نسبت کم ہوتی ہے ۔ اس کی قدرتی وجہ یہ خیال کی جاتی ہے کہ دودھ پلانے والے حیوانات میں پیدائش سے قبل فطرت ان کے جگر میں فولاد کی کافی مقدار ذخیرہ کر دیتی ہےجو بعدہ اس وقت تک کام آتا رہتاہے جب تک مذکورہ شیر خوار دودھ پیتے رہتے ہیں اور فولاد کی آمیزش والی خوراک اور دوسری غذا کھانے کے قابل نہیں ہو جاتے ۔ عورت کا دودھ بہ نسبت اپنے اندر فولاد کی زیادہ مقدار رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی بچہ کم از کم نو دس ماہ تک دودھ پر بسر کرتا ہے اور گائے کا بچھڑا تین چار ہفتے کے بعد ہی گھاس پات اور ایسی ہی دوسری چیزیں کھانے لگ جاتا ہے جس میں فولاد کی کافی مقدار ہوتی ہے ۔
محقق وال کرن نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ گائے کے دودھ میں فولاد کی مقدار بکری اور عورت کے دودھ سے کم ہوتی ہےاور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ماں کو فولاد کے مرکبات کھلانے سے دودھ میں فولادی اجزاء کا اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ان انکشافات سے ثابت ہوتا ہے کہ ماں کا دودھ بچے کے لیے نہایت ضروری ہے۔آج کل کی پڑھی لکھی نوجوان مائیں جو اپنی تندرستی کے تحفظ یافیشن ایبل زندگی کی خاطرمغربی تہذیب کی تقلید میں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں۔وہ نہ صرف بچوں کو ان کے فطری حق سے محروم رکھتی ہیں بلکہ ان میں مختلف امراض کے بآ سانی شکار ہو جانے کی استعداد پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ خاندانی روایات جو نسلاً بعد نسلاً ماں باپ سے اولاد کو ملتی ہیں۔مفقود ہو جاتی ہیں۔
ماں کا دودھ سب سے بہتر:ماہرین طب لمبے عرصے سے ماں کے دودھ پلانے پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ ماں کا دودھ بچے کے لیے سب سے بہتر مان لیا گیا ہے۔ماں کے دودھ میں پروٹین کم ہوتا ہے اور کاربو ہائڈریٹ زیادہ۔اس لیے بچہ ماں کے دودھ کو آسانی سے ہضم کر سکتا ہے۔ماں کے دودھ سے بچے کی ذہنی قابلیت اچھی ہوتی ہے۔ بچے کی ماں کی خوراک میں وٹامن سی،تھیامین وغیرہ کی مقدار بڑھانے سے بچہ کی بڑھوتری میں مدد ملتی ہے۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ بچہ کو دودھ پلانے والی ماؤں کے ذریعے اگر کوئی دوائی استعمال کی جاتی ہے تو اس دوا کا حصہ بچے کے جسم میں دودھ کے ذریعے پہنچ جاتا ہے۔
ماں کے دودھ کے اوصاف: ماں کا دودھ پینے والا بچہ زیادہ تندرست ہوتا ہے۔
2۔ ماں کا دودھ پینے والا بچہ متعدی امراض قبول کرنے کی اتنی صلاحیت نہیں رکھتا جتنا کے اوپر کا دودھ پینے والا بچہ۔
3۔ماں کا دودھ پینے والے بچے بہت کم تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔
4۔ماں کا دودھ ہمیشہ تیار رہتا ہے،جراثیم اور گردوغبار سے پاک رہتا ہے۔
5۔ماں کا دودھ بچوں کی آئندہ عادات و خصائل کا بہت حد تک ذمہ دار ہوتا ہے ۔
6 ۔ ماں تندرست اور رنج و آلام سے بری ہو تو اس کا دودھ تندرستی بخشتا ہے ۔ ماں اگر بیمار ہو، ہر وقت رنج و غم میں رہنے والی ہو تو اس کا بچہ بھی بیمار اور روتا پیٹتا رہے گا۔
7۔ اگر بچہ ماں کا دودھ پینے کے بعد بے تاب ہو کر رونے لگے تو سمجھنا چاہیے کہ ماں کی خوراک میں کوئی ایسا نقص تھا ۔ جس سے دودھ کی تاثیر تبدیل ہو نے پر بچہ کے پیٹ میں تکلیف ہو رہی ہے اس لیے ہر ماں کو دودھ پلانے کے زمانہ میں اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا چا ہیے ۔ ناقص دیر ہضم اور باسی غذا سے ہمیشہ پر ہیز رکھنا چاہیے ۔
8 ۔ اگر بادی سے ماں کا دودھ خراب ہو جائے تو اس کا ذائقہ کسیلا ہو جاتا ہے پانی میں ڈالنے سے وہ اس میں حل نہیں ہوتاہے بلکہ اوپر ہی الگ نیلا ہٹ لئے تیرتا رہتا ہے ۔
9 ۔ اگر صفرا کے غلبہ سے دودھ خراب ہو جائے تو اس کا ذائقہ کڑوا سا ہو جاتا ہے ۔ پانی میں ملانے سے پانی کے اُوپر زردھار پاس لئے دکھائی دیتی ہے
۔ اگربلغم کی وجہ سے دودھ خراب ہو جائے تو وہ گاڑھا اور لیس دار ہو جاتا ہے ۔ 10
11 ۔ بےنقص دودھ کی پہچان یہ ہے کہ اس کا ذائقہ خوشگوار ، فرحت بخش اور رنگ سفید ہوتا ہے ۔ نیز پانی ملانے سے یکجان ہو جاتا ہے ناخن پر ایک قطرہ ڈالنے سے ٹھہرا رہتا ہے ۔
12 ۔ اگر ماں کا دودھ زیادہ ہو اور بچہ سارا دودھ نہ پی سکتا ہو تو ماں کو چاہیے کہ وہ سارا دودھ بچے کو پلانے کی کوشش نہ کرے بلکہ زائد دودھ نکال دیا جائے ورنہ فالتو دودھ نہ صرف خراب ہو کر بچہ کی صحت پر برا اثر ڈالے گا بلکہ ماں کو کئی قسم کے امراض میں مبتلا کر دے گا ۔ زائد دودھ نکالتے وقت پستان کو نیم گرم پانی سے دھو کر آہستہ آہستہ دودھ نکالنا چاہیے یابریسٹ پمپ سے نکالیں اور یہ نکلا ہوا دودھ بچے کو نہ پلایا جائے ۔ البتہ آنکھوں اور کانوں کے امراض میں استعمال کریں ۔ صاف کیا ہوا سرمہ اس دودھ میں کھرل کرنے سے آنکھوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا ہے ۔ریم گوش کے لئے عورت کا دودھ نہایت مفید ہے
13 ۔اگر ماں کا کم ہو اور بچہ کی بخوبی پرورش نہ کر سکتی ہو تو ایسی حالت میں دودھ زیادہ کرنے والی دوائیں ماں کو استعمال کروائیں ۔ مثلاً زیرہ سفید ، مغزخیارین ، مغز بادام وغیرہ کی کھیر یادوسری مناسب دواؤں اور غذاؤں کا استعمال کرایا جائے۔ دودھ چاول بھی اچھی غذا ہے
بچوںکو مقررہ وقت پر دودھ پلانا نہایت ضروری ہے ، بے وقت اور باربار دودھ پلانا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح یاتو ضرورت سے زیادہ خوراک اس کے پیٹ میں چلی جائے گی یا ضرورت سے کم اور ظاہر ہے کہ دونوں صورتیں بچہ کی نازک طبع کے مخالف ہوں گی۔
بازاری یعنی اوپر کا دودھ :بعض اوقات ماں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ بچہ اس کے دودھ پر پرورش پا سکے اور باوجود کوشش کرنے کے ایسا کرنے کے نا قابل ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اوپر کا دودھ پلایا جائے ۔ ماں کے دودھ کے بعد دوسری بہترین غذا بکری یا گائے کا دودھ ہے ۔ ننھا بچہ خالص دودھ پینے کے قابل نہیں ہوتا اس لئے اس کے دودھ میں بہت تھوڑا سا چونے کا پانی ملا لینا چاہیے۔
دودھ میں وہ تمام اجزاء موجود ہیں جو انسان کی پرورش اور صحت کے لیے ضروری ہیں ۔ یہ جسم کے پٹھوں اور دوسرے اعضاءکی پرورش کے لئے پروٹین فراہم کرتے ہیں ۔دانتوں اور ہڈیوں کی تکمیل کے لیے چونا بھی مہیا کرتا ہے ۔ اس میں 15 فیصدی پروٹین، 48 فیصدی چونا، 32 فیصدی فاسفورس اور 6 فیصدی فولاد ہوتا ہے ۔ اگر بچوں کو مناسب مقدار میں نہ دیا جائے تو وہ کمزور ہو جاتے ہیں اور اُن کی آنکھوں میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
دودھ (Milk)
دودھ کو عربی میں لبن‘ فارسی میں شیر‘ سندھی اور سرائیکی میں کھیر جبکہ انگریزی ملک کہتے ہیں۔
دودھ لطیف ‘ زود ہضم ‘ ایک مکملاور متوازن غذا ہے کیونکہ اس میں وہ تمام اجزاء موجود ہوتے ہیں ۔ جوہماری پرورش کے لئے ضروری ہیں۔ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ بچے کے پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے جو غذادی جاتی ہے وہماں کا دودھہوتی ہے ۔ بچے کو چار ماہ صرف دودھ ہی پلانا چاہئے۔ ایک بالغ آدمی روزانہ چار کلو دودھ پی کر پوری غذائیت حاصل کرسکتا ہے ۔ دودھ خاص طور پر مریضوں کے لئے تو بہت ہی عمدہ اور مفید غذا ہے۔ ماں کے دودھ میں پروٹین ‘ چکنائی اور نمکیات کم ہوتے ہیں جبکہ کیلشیم ‘ شکر اور حیاتین دوسرے حیوانوں کے دودھ کی پروٹین ثقیل ہوتی ہے۔ جو دیرہضمبھی ہے۔ یہ بھاری پنبکریکے دودھ میں اگر کم (سب سے کم) اور بھینس کے دودھ میں سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ بھینس کے تازہ دودھ کا رنگ سفید اور گائے کا زردی مائل ہوتا ہے۔ جس کی رنگت بھوری ہو وہ کریم (مکھن) نکلا ہوا دودھ ہوتا ہے۔ دودھ کے تمام اجزاء پانی میں تقریباً حل ہوجاتے ہیں البتہ چکنائی کے ذرات اس میں تیرتے رہتے ہیں اگر کسی برتن میں کچھ دیر کے لئے دودھ کو رہنے دیا جائے تو اس پر کریم کی ایک تہہ جم جاتی ہے جسے آسانی سے الگ کیا جاسکتا ہے کریم نکالے ہوئے دودھ کے اجزاء تو وہی ہیں جو عام دودھ کے ہوتے ہیں لیکن اس میں چکنائی کم ہوتی ہے ۔ جن لوگوں کوخالصدودھ نہ مل سکے وہ اپنی غذا میں اس دودھ کو استعمال کرسکتے ہیں جبکہ چکنائی کی کمی کو کسی اور طریقہ سے پورا کیا جاسکتا ہے ۔ دودھ کیونکہ ایک اعلیٰ درجہ کی مقوی غذاہے۔ اس لئے اس میں مختلف قسم کے جراثیم بہت جلد اور بکثرت پرورش پاتے ہیں مثلاً ہیضه‘ تب محرقه‘ پیچشوغیرہ۔
تازہ دودھکو اگر گرم نہ کیا جائے تو چند گھنٹوں میں خراب ہوجاتا ہے یا جمجاتا ہے۔ دودھ کو اگر دو منٹ تک ابال لیا جائے اور اسے ڈھک کر ٹھنڈی جگہ رکھ دیا جائے تو یہ کافی دیر تک خراب نہیں ہوتا۔
یونانی اطباءمالیخولیا کے مریضوں کو ماء الجبن استعمال کراتے وقت ایسی جوان بکری کا دودھ استعمال کرتے تھے جس کا رنگ سرخ یا سیاہ ہو اور دو بچوں سے زائد نہ جنے ہو ں نیز تین چار مہینے سے زائد اور چالیس روز سے کم کا بچہ نہ رکھتی ہو ۔ اس دوران بکری کو صرف کانسی ‘ خرفہ ‘ برگ کثیز وغیرہ سرد سبزیاں کھلاتے تھے۔
نوٹ :ایک اونس دودھ سے بیس کلو ریز یاصل ہوتی ہے۔
دودھ اونٹنی
دیگر نام : عربی میں اللقاح ‘ فارسی میں شیر مادہ شتر‘ سندھی میں ڈاچی جو کھیر کہتے ہیں۔
ماہیت : مشہور عام جانور کا دودھ ہے اس میں چکنائی کم اور نمکیات زیادہ ہوتے ہیں رنگ سفید ذائقهقدرے شور۔
مزاج :گرم خشک درجہ دوم
افعال واستعمال :لطیف ‘ جالی اور مدربول ہے۔ اس میں چکنائی کم ہوتی ہے۔ مادہ کو معتدل القوام کرتا ہے۔ اورام باطنیکو تحلیل کرتا ہے۔صلابت طحال ‘ ورم مثانہ و جگرمیں شربت بزوری کے ہمراہ پلانا مفید ہے ۔ اونٹنی کا دودھ استسقاءکے لئے مشہور ہے۔ ایسی حالت میں اونٹنی کا دودھ بڑھا کھٹا کر شربت بزوری یا گلقندکے ہمراہ دیا جاتا ہے ۔’’ ورم معدہاور خصوصاً وجع الفودا (فم معدہ کا درد) میں مناسب ادویہ کے ساتھ مجرب المجرب ہے ( حکیم نصیر احمد طارق) ‘‘
مقدار خوراک: 250 ملی لیٹر ایک پاؤ۔
دودھ بکری (Goat,s Milk)
دیگر نام : عربی میں لبن الماغرہ ‘فارسی میں شیریز‘ سندھی میں بکری جو کھیر کہتے ہیں۔
مزاج :سرد ایک تر درجہ دوم
افعال واستعمال :اس میں پروٹین اور شکر کم ہوتی ہے لٰہذا یہ پتلا ہوتا ہے۔ اس میں موجود پکر ک ایسڈ کی وجہ سے ایک خاص قسم کی بو آتی ہے ۔ کمزوربچوں اور سل دقکے مریضوں کے لئے مفید ہے۔ ملین‘ مدربولاور جالیہے ۔ اپنی مائیت اور کمی چکنائی کی وجہ سے گائے اور بھینس کے دودھ کی نسبت لطیف ہے۔ کھانسی‘ سل ‘ پھیپڑے کے زخم اور حلقکی خراش کو مفید ہے۔ خراش مثانه‘ زخم مثانه اور خناقکے لئےنافع ہے۔ گرممزاجوں کو قوت دیتاہے ۔ بکری کے دودھ سے ماءالجبنبنایا جاتا ہے۔ جو امراض سودا ویہ مثلاً مالیخولیا‘ جنوناور منهآنے کو مفید ہے۔
مقدار خوراک : آدھ پاؤ سے ایک پاؤ تک۔
دودھ بھیڑ
دیگر نام:لبن انصان‘ فارسی میں شیر میش ‘ سندھی میں رڈھوکھیر
ماہیت :یہ بکری کے دودھ کی نسبت غلیظ ہوتا ہے اور اس میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے۔ جس کا رنگ سفید ذائقہ بدبودار ہوتا ہے
استعمال : دیر ہضماور ثقیلہے۔ دماغکے جوہر ‘ حرام مغزاور قوت باہکو گوند ببول کے ہمرہ کھانسی‘ آنتوں کے زخم اور پیچشکو مفید ہے
مقدار خوراک:30 سے 50 ملی لیٹر یا 3 تولہ
دودھ بھینس (Buffalo Milk)
دیگر نام :عربی میں لبن الجالوش ‘ فارسی میں شیر گاؤمیش ‘ سندھی میں میھ جو کھیر کہتے ہیں۔
استعمال : مولد خون ‘ مبہی اور ثقیل ہے کیونکہ اس میں چکنائی اور پروٹین زیادہ ہوتی ہے لٰہذا دیر ہضم ہے۔ اس کا مسلسل استعمال موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔ مقوی اعضاء ہے۔ خونزیادہ پیدا کرتا ہے بواسیرکو نافع ہے۔ بشر طیکہ اس میں چکڑی کی لکڑی جوش دے کر دہی جماکر ہمراہ مصری کھلائیں ۔ گاڑھا اور نفاخہونے کے سبب ضعف معدہ کے مریضوں کو مضر پڑتا ہے۔ بھینس کے دودھ کی لسی سیندھا نمک ‘ کالی مرچ اور زیرہ ڈال کر پینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
نوٹ: بچوں کو بھینس کا دودھ پلانے کے لئے اس میں پانی کی تھوڑی مقدار شامل کرلیں۔
مقدار خوراک:نصف کلو
دودھ عورت یا ماں کا دودھ
اس کو عربی میں لبن النساء اور فارسی میں شیرزن کہتے ہیں۔
ماہیت:جوان معتدل الزاج عورت کا دودھ عمدہ ہوتا ہے ۔ اس رنگ سفید اور ذائقہ قدرے شیریں ہوتا ہے۔
مزاج :سرد تر بدرجہ دوم
افعال و استعمال :اس سے اعلیٰ قسم کا دودھ عورت کا ہوتا ہے لیکن اس ہر بچے پرورش کا انحصار ہوتا ہے۔ اس لئے مریضوںکے لئے دستیاب نہیں ہوتا۔ دماغ اور باہکو قوت دیتا ہے مدربول ہے ۔ ملطفہے۔ کھانسیخشک کو مفید ہے۔ اکثر امراض دماغی جیسے جنون و سروسام ‘ مالیخولیااور خصوصاً سلودقکے لئے مفید ہے۔ آشوب چشم کے ازالہ لئے آنکھوں میں قطورکرتے ہیں ۔ اس کو کان میں ڈالنے سے کان کی پیپ بندہوجاتی ہے۔
احتیاط : لمبے عرصہ تک صرف ماں کا دودھ پینے والے بچوں کو پرٹین کی کمی کی بیماری کا ٹرکور ہو جاتی ہے۔
بدل :اکثربا ہیجین کی کتب اور حکیم مظفر اعوان صاحب نے انسانی دودھ کا بدل گدھیکا دودھلکھا ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ دودھ کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کے دودھ کا بدل صرف اور صرف گائےکا دودھ ہے۔
دودھ گائے (Cow, s Milk)
دیگر نام :عربی میں لبن البقری ‘ فارسی میں شیرگاؤ سندھی میں گئو جو کھیر
ماہیت:اس میں عورت کے دودھ کی نسبت پانی ‘ شکر اور نمکیات کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن چکنائی کم اور پروٹین زیادہ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دودھ ‘ شیر خوار بچوں کے لئے مناسب نہیں ’’ َلیکن یہ ذاتی تجربہ ہے جس بچوں کو بھینس دوسرے جانوروں کا دودھ ہضم نہیں ہوتا ۔ پیٹ میں ریاح‘ درد اور اسہال پیدا کرتا ہے۔ ان کے لئے گائے کا دودھ مفید ترین پایا گیا ہے۔‘‘
جو انوں اور بوڑھوں کے لئے یہ ایک زود ہضم غذا ہے۔ اس سے ریاح بھی کم ہوتی ہے۔ گائے کے دودھ کا رنگ سفیدی مائل زرد اور ذائقہ شیریں ہوتا ہے۔
گائے کا دودھہمیشہ ابال کر پینا چاہئے ورنہ اس تپ دقکا خطرہ رہتا ہے۔
افعال واستعمال :کثیالتعدا اور زود ہضم ‘ مولد منی ‘ مقوی دل اور دماغ ہے۔ بدن کو موٹا کرتا ہے طبعت کو نرم کرتا ہے ۔ خفقان‘ سل و دق( پھیپھڑے کے زخم) کو مفید ہے بشرطیکہ گائے تندرست ہو۔
جدید تحقیقات :سے معلوم ہوا ہے کہ گائے کے دودھ میں امینو ایسڈ اور ٹرپٹومنین موجود ہوتے ہیں اور یہ دونوں مل کر نکوٹینک ایسڈ کی خاصیت پیدا کردیتے ہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق دودھ میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو نیند لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ رات کو دودھ پینے کے عادی ہوتے ہیں اگر ان کو دودھ رات کو نہ ملے تو دیر تک نیند نہیں آتی۔
مقدار خوراک:نصف کلو
دودھ گدھی (Ass Milk)
دیگر نام :عربی میں لبن الا تان ‘ فارسی میں شیر مادہ خر‘ سندھی میں گڈھ جوکھیر
افعال واستعمال:رطوبتاور سردی پیدا کرتا ہے مفرح اور جالیہے۔ مسام اور سدہ کھولتا ہے‘ گرم مزاجوں کو زیادہ مفید ہے۔ منهسے خون آنے کو اور پھیپھڑےکے زخموں کو مفید ہے۔ لا غری دور کرتا ہے اس میں ماہیت بکری کے دود سے بھی زیادہ ہو تی ہے۔ اس لئے سل و دقکے مریض میں عورت کے بعد دوسرے درجہ پر گدھیکا دودھ خیال کیا جاتا ہے۔ مریض سل کو تازہ دودھ سات تولہ سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ بڑھا کر آدھ کلو تک پہنچائیں ۔ روٹینہ کھلائیں اگر بھوک لگے تو پھلوں کا پانی پلائیں ۔ گدھی کب چارہمیں مکو ‘ چولائی اور کھلانا مناسب ہے۔
مقدار خوراک: بقدر برداشت
دودھ گھوڑی
دیگرنام:عربی میں لبن الرماک‘ فارسی میں شیرا سپ
افعال واستعمال:مفرح‘ حابی اور مفتح ہے۔ مقوی باہاور بھوکبڑھاتا ہے ۔ مدربولہے مدرحیض ہے اس کا لته معینحمل ہے۔ ضعیفوں کے لئے موافق غذا ہے۔ گھوڑی کے دودھ سے کومس تیار کی جاتی ہے۔ جو مرض سلکے لئے مفید غذا بیان کی جاتی ہے یہ بند ذبوں میں روس اور ترکستان سے آتی ہے۔
دودھ کے اجزاء خاص کی ترکیب
نام دودھ | پانی | چکنائی | شکر | لحمیات | |
1. | عورت کا دودھ | 88.6 | 3.4 | 6.4 | 1.7 فیصد |
2. | اونٹنی کا دودھ | 88.5 | 3.1 | 5.6 | 4 فیصد |
3. | بکری کا دودھ | 86.0 | 4.6 | 4.2 | 4.4 فیصد |
4. | گائے کا دودھ | 87.35 | 3.75 | 4.75 | 3.4 فیصد |
5. | بھینں کا دودھ | 80.9 | 7.9 | 4.5 | 5.9 فیصد |
6. | گھوڑی کا دودھ | 79.1 | 1.6 | 6.1 | 2.7 فیصد |
7. | گدھی کا دودھ | 90.0 | 1.3 | 6.5 | 1.7 فیصد |
8. | کتیا کا دودھ | 75.4 | 9.6 | 5.1 | 1.2 فیصد |
نوٹ :
دودھ میں کچھ معدنیات اور نکیات بھی پائے جاتے ہیں۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق