مختلف نام: اردو سرسوںـ ہندی سرسوںـ بنگالی سسارچھ، شویت سرچھاـپنجابی سروںـ مرہٹی کالی موہری، شرسیـگجراتی سرسو، کچھی سرہ ـتیلگو آوالوتا،کڈوپو،کڈوگا ـفارسی سرشف ـسندھی سیاں چٹی ـلاطینی براسیکا کمپےسٹرس لاین اور انگریزی میں سویڈش ٹرنپ ، ریپ کہتے ہیں۔
شناخت: مشہور چیز ہے۔ موسم سرما میں پنجاب، ہریانہ، یوپی اور دہلی کے لوگ اس کا ساگ کثرت سے پکا کر کھاتے ہیں۔عام طور پر اکتوبر کے مہینے میں گندم کے ساتھ یا علیحدہ بویا جاتا ہے۔ اس کا پودا دو تین فٹ کے لگ بھگ اونچا ہوتا ہے۔فروری کے مہینے میں اس کے زرد پھول خوب بہار دکھاتے ہیں۔
جب موسم بہار کاآغاز ہوتا ہے ، تب اِس کا موسم شباب پر ہوتا ہے۔ لگ بھگ سارے ہندوستان و پڑوسی ممالک میں عام مل جاتا ہے۔
مزاج:اس کا مزاج پہلے درجہ گرم اور دوسرےمیں تر ہے۔
فوائد:سرسوں رس و ذائقہ میں چر پری ، کچھ کڑوی تیز گرم ہے۔کھجلی اور کوڑھ کو مفید ہے۔ جو لال سرسوں کے فائدے ہیں وہی سفید سرسوں کے ہیں، مگر ان میں سفید سرسوں زیادہ بہتر ہے۔سرسوں کا ساگ زیادہ بہتر ہے۔سرسوں کاساگ کف ، دات دور کرتا ہے۔درد اور سو جن کے لئے مفید ہے۔ سرسوں کا تیل تری اور گرمی پہنچاتا ہے اور جسم کو موٹا کرتا ہے۔اس کی جسم پر مالش کرنے سے جِلدی امراض کو فائدہ ہوتا ہے۔ سرسوں کو اکیلے اُبٹن میں ڈال کر چہرے کا رنگ نکھارنے کے لیے اور داغ و چھائیاں دور کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بیج مقوی اور پیشاب لانے کے لئے مفیدہیں۔
سرسوں کے ساگ میں کیلشیم (چونا، سوڈیم(نمک)، کلورین، فاسفورس، فولاد، پروٹین اور حیاتین’الف،ب،ج اور ر) پائے جاتے ہیں۔ سرسوں کےتیل میں بنائے گئے اچار لمبے عرصہ تک اچھے رہتے ہیں۔یہ تیل جلد کی خشکی دور کرنے کے لئے مالش کے کام آتا ہے۔ٹھنڈے وبرسات کے موسم
میں اس کا استعمال اور مالش بہت ہی لابھ دائیک ہے۔ یہ جلد کو نرم اور جسم کی جِلدی کو طاقتور بناتا ہے۔
سرسوں کا استعمال آیور وید میں پرانے وقتوں سے ہو رہا ہےاور کوڑھ میں اِسے بہت ہی مفید مانا گیا ہے۔ دانتوں کے امراض میں سیندھا نمک کے کپڑ چھان چورن کے ساتھ سرسوں کا تیل مِلا کر منجن کرنے کو مفید بتایا گیا ہے۔
سرسوں کے آسان مجربات
گنٹھیا :سرسوں کے تیل 100 گرام میں 5 گرام کافور ملا کر مالش کرنے سے گنٹھیا کو آرام ملتا ہے۔
کان درد:سرسوں کا تیل پانچ چھ بوند کو معمولی گرم کر کے کان میں ڈالنے سے کان درد کو آرام آ جاتا ہے۔
ہاسور: آک کے دودھ میں روئی بھگو کر سایہ میں خشک کرلیں ، سوکھنے پر اُس کی بتی بنا کر اُسے سرسوں کے تیل میں ڈبو کر اُس کو جلا دیں اور اُس کا کاجل بنا لیں۔اس کاجل کو ناسور میں بھرنے سےناسور مِٹ جاتا ہے۔
اُبٹن:سرسوں کو دودھ میں ڈال کر پکائیں۔جب سب دودھ خشک ہو جائے تو سرسوں کو سکھا کراُس کو پیس لیں اور جسم پر ابٹن کریں۔اس سے جسم کا رنگ نکھر جاتا ہے۔(حکیم ڈاکٹر ہری چند ملتانی، پانی پت)
سرسوں کا تیل اور میرے تجربات
سرسوں کا تیل عام گھریلو استعمال کی چیز ہے جس کو سر کے بالوں میں لگاتے ہیں، بدن پر مالش کرتے ہیں، دانتوں پر بطورِ منجن استعمال کرتے ہیں ، کان میں خشکی ہونے پر ڈالتے ہیں۔سبزی خصوصاً کریلا ، مولی وغیرہ اس میں پکاتے ہیں۔خصوصاً پھوڑے وغیرہ میں سرسوں کا تیل بطور ایک معالج کافی استعمال کرتا ہوں۔ آپ بھی مندرجہ ذیل نسخہ جات بنائیں۔ مریضوں پر استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ملتانی صاحب کو دعائیں دیں جن کی بدولت خاکسار اپنے تجربات آپ کے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہا ہے۔ فائدہ ہونے کی صورت میں اپنے تجربات تحریر کرنے کی مہربانی کریں۔
سر کا ایگزیما: سرسوں کا تیل 250 گرام ، کاربالک ایسڈ ½ ڈرام، کافور ایک ڈرامـ تینوں چیزوں کو ملا لیں۔ دن میں دو تین بار لگائیں۔ صابن استعمال نہ کریں ۔سر صرف دہی سے دھوئیں ۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیں اور ہفتہ عشرہ میں سر کا ایگزیما، پھوڑے، پھنسی، سر کی خشکی وغیرہ رفع ہو جائے گی۔
یہ اکیلا نسخہ ہی اس کتاب کی قیمت ادا کر دے گا۔
نوٹ:بعض دفعہ اس میں آئل کلر (لال رنگ یا سبز رنگ) ملا لیتا ہوں تاکہ عام آدمی دوا پہچان نہ لے۔
آنکھ سے پانی بہنا:آنکھ دکھنا، آنکھ کے ککرے،آنکھ کا زخم، سرسوں کا تیل 50 گرام، کافور 3 گرام۔دونوں کوآگ پر گرم کریں اور شیشی میں ڈال لیں ۔ سُرمچو یا سلائی سے آنکھوں میں لگائیں ۔ نہایت اعلٰی قسم کا آئی لوشن تیار ہے۔
پائیوریا: سرسوں کا تیل 50 گرام ، کافور 6 گرام، منتھول 6 گرام، اور ست اجوائن 6 گرام۔
اول کافور ، پیپر منٹ، (منتھول)اور ست اجوائن کو اکٹھا کر کے دھوپ میں رکھ دیں۔ پگھل کر پانی ہو جائے گا۔ بعد میں سب کو ملا لیں۔ اس میں ٹینک ایسڈ ، یوکلپٹس آئل ہر ایک دو ڈرام ، ٹنکچر آئیوڈین ایک ڈرام ملا کر رکھیں۔ صبح و شام دانتوں پر انگلی سے مَلیں۔ آپ آٹھ روز استعمال کر کے اس دوا کے
کافی معتقد ہو جائیں گے۔اور جس مریض کو یہ دوا دیں گے وہ ہمیشہ آپ کا مستقل گاہک ہو جائے گا۔
دانت میں کیڑا لگنےمیں ایک پھایہ روئی سے لگائیں ۔درد فورا ً غائب ہو جائے گا۔
کان کا درد:پہلے سوڈا بائیکارب ( میٹھا سوڈا) ایک چٹکی کان میں ڈال کرلیموں کا رس تین چار قطرے ڈالیں۔ جھاگ پیدا ہو جائے گی۔ اول تو اس سے ہی
کان درد بند ہو جائے گا(کیونکہ یہ ہایئڈروجن کا بدل ہے) اور مندرجہ ذیل ہراتیل کان میں ڈالیں ۔
سرسوں کا تیل 50 گرام، کاربالک ایسڈ 5 بوند، مولی کا عرق 50 گرام،ہرا رنگ 5 گرین۔
اول سرسوں کے تیل و مولی کے عرق کو جلا لیں جب صرف تیل باقی رہ جائے تو کاربالک ڈال دیں اور سبز رنگ (آئل کلر)ڈالیں۔ نہایت خوش رنگ کان کا تیل تیا رہو گا۔میرے مطب کا قیمتی راز جس کو کافی لوگوں نےمعلوم کرنے کی کوشش کی لیکن آج یہ راز آپ کے سامنے ہے۔بنائیں اور بندہ کو دعائے خیر سے یاد فرمائیں۔
پیٹ کی گیس:آج یہ پردہ بھی آپ کے سامنے فاش کرتا ہوں۔ آجکل جگہ جگہ پیٹ گیس کا علاج معالج صاحبان کرتے ہیں اور ہندوستان کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ آپ اپنے مریضوں کومندرجہ ذیل تیل بنا کر دیں اور ہدایت کریں کہ مقعد میں انگلی کے ذریعے سےروزانہ رفع حاجت سے فارغ ہو کر لگائیں۔ آپ اس معمولی دوا کا تجربہ کر کے حیران ہو جائیں گے۔ یہ تیل گیس کے علاوہ بچوں کے چرنے، بواسیر،ناسور، بھگندر کو بھی کافی فائدہ کرتا ہے۔
نسخہ: سرسوں کا تیل 50گرام،نیم کا تیل 25 گرام ،ایکسڑیکٹ بیلا ڈونا 3 گرام ، کافور6 گرام ۔اوّل سرسوں کے تیل و نیم کے تیل کو گرم کریں اور اس میں کافور ڈال دیں۔پھر بیلا ڈونا ڈال کر خوب گھوٹیں مریض کو شیشی میں کر دیں اور مقعد میں لگانے کی سفارش کریں۔اس تیل کے لگانے سے نہ قبض
ہو گی اور پیٹ کی ہوا اورریاح خارج ہوتی رہے گی۔ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ میں عرصہ 20 سال سے متواتر اس کا استعمال کرا رہا ہوں۔
برائے سوکھا مسان:بعض بچے سوکھ کر کانٹا ہو جاتے ہیں۔ جن کو لوگ سوکھا مسان وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ ادویات کے ساتھ مندرجہ ذیل تیل بنا کر بچہ کو مالش کے لیے دیں اور قدرت کا کرشمہ دیکھیں۔ پندرہ بیس روز میں بچہ موٹا تازہ ہو جاتا ہے۔
سرسوں کا تیل 50 گرام، آلیو آئل 50 گرام، شارک لور آئل 50 گرام، چنبیلی کا تیل 50 گرام، خوشبو روز 2 گرام۔ سب کو گرم کریں اور شیشی میں محفوظ کریں۔
صرف مندرجہ بالا تیل کی مالش سے بچے کا سوکھا مسان کا روگ دور ہو کر بچہ تندرست ہو جاتا ہے۔(حکیم ڈاکٹر ہنسراج سیڈھا،دہلی)
سرسوں کا ساگ
سرسوں کا ساگ دودھ کا قائم مقام ہو سکتا ہے۔ جہاں دودھ کی کمی ہو وہاں اس کے استعمال سے اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ بچے جب دودھ چھوڑ کر دوسری غذا کھانا شروع کر دیتے ہیں تو اس وقت انہیں نرم ساگ اچھی طرح پکا کر اور حل کر کے کھلایا جائے تو زیادہ مفید ہے۔
پروٹین کے ہضم اور جزو بدن کے سلسلے میں حیاتین الف، ب کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے جن کی بہم رسانی کا کام ساگوں سے بہت اچھی طرح لیا جاسکتا ہے۔
اس کے فوائد درج ذیل ہیں:
1۔سرسوں کا ساگ مقوی بدن اور مسمن بھی ہے۔ گرمی اور تری پہنچاتا ہے۔ قبض کشا ہے۔
2۔ ساگ میں غذائی اشیا ءکی بہ نسبت معدنی غذائی اجزا ء زیادہ ہوتے ہیں اور ان چیزوں سے بدن کو مرض اور مادہ مرض کی مدافعت کی قوت حاصل ہوتی ہے اور صحت محفوظ رہتی ہے۔
3۔ساگ کی کونپلیں بھوک بڑھاتی ہیں اور بدن کو نہایت قیمتی اجزا ءبہم پہنچاتی ہیں۔
4۔ اس کے استعمال سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ چونکہ اس کا ساگ ثقیل اور ریاح پیدا کرتا ہے اس لئے اس میں نمک مرچ خوب ملا لینا چاہیے۔
ساگ پکانے کا غلط طریقہ:ہمارےملک میں ساگ پکانے کے ناقص اورنکمّے طریقےرائج ہیں جس سے انکی افادیت کم ہو جاتی ہے۔
ساگ کو گھی یا تیل میں تلنے سےانکی غذائی طاقت کافی حد تک ضائع ہو جاتی ہے۔.1
ساگ کو دیر تک پانی میں بھگو رکھنے سے بھی ان کے قیمتی اجزاء پانی میں حل ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ .2
ساگ میں پانی زیادہ ڈال کر اُبال کر پانی پھینک دینا بھی ساگ کی افادیت کو کمزور کر دیتا ہے۔.3
اگر ساگ میں میں پانی زیادہ ڈالا گیا ہو تو اُسے خشک کرنے میں بھی قیمتی حیاتین ضائع ہو جاتی ہیں۔.4
5 ساگ کی بعض حیاتین پکانے کی حرارت بھی برداشت نہیں کر سکتیں ، جنہیں پکانے میں اس کے بعض دوسرے اجزاء بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔
ساگ پکانے کا صحیح طریقہ:ساگ پکانے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے دو تین بار صاف پانی سے دھو کر جو پانی اس ساگ میں رہ جائے اس میں ہی ابال کر استعمال میں لایا جاتا ہے۔
نوٹ:ہمارے یہاں سرسوں کے ساگ کے ساتھ مکئی یا باجرہ کی روٹی زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ ساگ مکئی کی روٹی کا مصلح ہو جاتا ہے۔
اس کے بیج مقوی باہ اور مدربول بیان کیے جاتے ہیں اور بطورِ ابٹن چہرے کا رنگ نکھارنے کے لیے ملتے ہیں۔اس کا نیل و جع مفاصل، درد کمر اور دوسرے دردوں کو تسکین دینے کے لیےمالش کرتے ہیں۔ غریب لوگ گھی کی بجائےاس کا تیل استعمال کرتے ہیں۔ (حکیم سیّد بشیر احمد زیدی)
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
سرسوں’’سرسوں کا ساگ‘‘ تخم سرسوں
لاطینی میں: (Brassica Campestris)خاندان:(Crucife Rae)
دیگر نام: فارسی میں سرشف‘ عربی میں حرف ابیض یا خرول ابیض‘ سندھی میں سرانہیہ‘ بنگالی میں سرشا‘ سنسکرت سرشبہ اور انگریزی میں انڈین مسٹردریپ کہتےہیں۔
ماہیت: اس کا پودا عموما 4سے 6فٹ اونچا ہوتا ہے۔ جس کا تنا سیدھا اور جس میں بہت سی شاخیں ہوتی ہیں۔ پتے مولی کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ سیاہی مائل سبز جس کو کالی سرسوں کہا جاتا ہے اور دوسری کا رنگ زردی مائل سبز ہوتا ہے۔ جسکو سفید سرسوں کہا جاتا ہے۔ اسکے نرم پتوں کا ساگپکا کر کھایا جاتا ہے۔ سرسوں کےپھول بہت خوبصورت گچھوں میں زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ عموما موسم بہار میں لگتے ہیں۔ پھلی دیڑھ سے 3 انچلمبی ہوتی ہے۔ جو ابتدا میں نرم اور سبز جبکہ پکنے پر زردی مائل ہو جاتی ہے۔ جس میں تخم بھرے ہوتے ہیں۔ جن کا رنگ سیاہ و سرخ ہوتا ہے۔ یہ تخم گول چکنے اور چھوٹے ہوتے ہیں۔
مقام پیدائش: پاکستان میں سرسوں صوبہ سندھ‘ صوبہ پنجاب میں بکثرت ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ہریانہ‘ دہلی‘ یوپی‘ ہماچل پردیش میں زیادہ بوئی جاتی ہے۔ اس کا چارہ مویشیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
مزاج:(ساگ کا) سرد تر درجہ دوم( ذاتی رائے)
استعمال: اسکے نرم پتوں کا ساگ بہت عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے۔ قبض کو دور کرتا ہے۔بعض خواتین ساگ کوخشک کر کے رکھ لیتی ہیں اور گرمیوں میں پکا کراستعمال کرتی ہیں۔ یہ ثقیل ہونے کی وجہ سے ریاح پیدا کرتا ہے۔ تخم سرسوں کو مقوی باہاور مدربول بھی بیان کیا جاتا ہے۔
استعمال( بیرونی): تخم سرسوں کو کوٹ کردودھ میں ڈال کرخوب ابالیں۔ جب گاڑھا ہو جائے تو اتار کر منہ پر(چہرے)ملیں۔ 40 دن کرنے سے چہرہ نکھر کر چمکنے لگتا ہے۔سر کی بھوسی میں سفید سرسوں سے سرکودھویا جائے۔صابنبالکل نہ لگایاجائےتوکچھ دنوں کے بعد بھوسی جھڑنابند ہوجاتی ہے۔
روغن سرسوں: میں کافور ملا کر مالش کرنے سے پھوڑے پھنسیاں دور ہوجاتی ہیں۔ کان م یںسنسناہٹ کی آوازیں آتی ہو تو اس کے تیل کو نیم گرم کان میں ڈالنے سے درد اور آوازیں دور ہو جاتی ہیں۔ باقی افعال و استعمال روغن سرسوں میں دیکھیں۔
نفع خاص:مقوی باہ و اشتہا تخم۔ مضر: گردے کےلئے (ساگ)
مصلح:شکر وشہد ومصری۔ بدل: تخم ترہ تیزک
کیمیاوی اجزاء: تخم سرسوں میں فکسڈ آئیل‘(Sinalbin) اور ایک سن پیسن‘سلفوسانائیڈ‘لمیےتھن‘ لعاب‘ مائیروسین ہاضم ہے۔ راکھ‘ پوٹاشیم اف فاسفیٹ‘ میگنیشیم‘ کیلشیم ہوتا ہے۔
مقدار خوراک: تخم 3سے5 گرام تک
ساگ۔۔۔ بقدرہضم’’اس کی اصلاح کے لئے بتھوا‘ میتھی اور ادرک وغیرہ ضرور شامل کریں۔‘‘
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق