مختلف نام: سنگترہ-سنترہ-نارنگی- مکرا-مکر وی(Citrus,Auraqt,Aurantium)فیملیAutaceae۔
سنترہ ہند اور پاکستان کا مشہور پھل ہے ۔اس کو سنگترہ بھی کہتے ہیں۔ خاندان مغلیہ کے مشہور بادشاہ اکبر نے اس کا نام رنگترہ رکھا تھا۔ آئین اکبری میں اسکا ذکر’’ سونترہ‘‘کے نام سے کیا گیا ہے۔ جو سورن ترہ(سونے جیسی رنگت رکھنے والا پھل) سے مختصر کرکے بنایا گیا ہے اور پھر یہی نام کثرت استعمال سے آہستہ آہستہ سنترہ ہو گیا۔
نا رنگی اور سنگترہ کا پیڑ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔فوائد لگ بھگ یکساں ہیں۔ نارنگی کا ذائقہ قدرے ترش ہوتا ہے۔
اس کا اصل وطن برصغیر ہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مختلف صوبوں پنجاب ،سندھ، ممبئی، یوپی، سی پی اور بنگال میں اس کے باغات لگائے جاتے ہیں اور ان صوبوں میں اس کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔
سلہٹ( بنگلہ دیش) کا سنترہ سب سے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس میں بیج کم اور چھلکا پتلا ہوتا ہے۔قاشیں نہایت رسیلی اور شیریں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ناگپور کا سنترہ بہت شہرت رکھتا ہے ۔شمالی بھارت کے شہروں میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔
سنترہ کا درخت متو سط قدوقامت کا ہوتا ہے۔ فروری اور مارچ کے مہینوں میں اس درخت میں بہار آتی ہے۔ اس کے بعد پھل لگتے ہیں جو پہلے پہل چھوٹے چھوٹے سبز رنگ کے ہوتے ہیں لیکن جوں جوں ان پر مدت گزر تی جاتی ہے ۔وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ موسم سرما کے مہینوں نومبر، دسمبر اور جنوری میں خوب نشوونما پا کر نہایت خوشنما زردی مائل رنگت اختیار کر لیتے ہیں اور اس کے رنگ و روپ کے ساتھ درخت کے سبزز مردیں پتوں کے جھرمٹ میں ان کا لٹکتا ایک خوشنما منظر پیش کرتا ہے۔
کچا سنترہ بالکل کھٹا ہوتا ہے لیکن جوں جوں پکتا جاتا ہے اس میں ترشی کم اور شرینی زیادہ ہوتی ہے۔حتی کہ اچھی طرح پک جانے پر ترشی برائے نام رہ جاتی ہے جو اس کی شرینی کے ساتھ مل کر اس کے مزے کو دوبالا کر دیتی ہے۔ بعض سنترے بالکل میٹھے بھی ہوتے ہیں لیکن عام طور پر ہلکے چاشنی دار سنترے پسند کئے جاتے ہیں۔
بہتر سنترے وہی سمجھے جاتے ہیں جو درخت پر ہی اچھی طرح پکنے کے بعد ہی توڑے گئے ہوں لیکن دور دراز کی منڈیوں میں بھیجنے کے لئے پورے طور پر پکنے سے انہیں ایک دو روز پہلے توڑ لیا جاتا ہے تاکہ وہ منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی خراب نہ ہوجائیں۔
سنترہ اپنی ظاہری و باطنی خوبیوں کے اعتبار سے بہترین پھلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ شکل دیکھئےکس قدر دیدہ زیب ہے۔ مزہ ایسا دل پسند اور خوشگوار ہے کہ اس کا تصور کرتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ ذرا سونگھئے تو اس کی خاص قسم کی بھینی بھینی خوشبو سے دماغ معطر ہو جاتا ہے ۔اس کے باطنی اوصاف کو دیکھئے یہ اپنی غذائی اور دوائی اثرات کے لحاظ سے بیش بہا فوائد کا حامل ہے۔
سنترے کا مزاج سرد تر ہے۔ یعنی یہ ٹھنڈک پیدا کرتا ہے اور تری بھی اس لئے یہ گرم مزاج والوں کے لئے قدرت کا بہترین عطیہ ہے۔ بدن میں بڑھی ہوئی گرمی اور صفرا خون کے غلبہ کو تسکین دینے کے لئے غیر معمولی اثر رکھتا ہے ۔اس کی خفیف لطیف خوشبو سے دل و دماغ کو جو تفریح حاصل ہوتی ہے اس کے فوائد کو بڑھا دیتی ہے۔ جن اشخاص کے خون میں تیزابیت ہو جاتی ہے وہ سنتروں کے کھانے سے رفع ہوجاتی ہے۔ اگر غلبہ صفرا سے بھوک نہ لگتی ہو تو اس کے کھانے سے یا اس کا رس نچوڑ کر پینے سے بھوک لگنے لگتی ہے اور کھانا کھانے کے بعد کھانے سے ہضم غذا میں مدد ملتی ہے۔ جو صفراوی مزاج اشخاص قبض میں مبتلا ہوں اور اگر وہ صبح نہار منہ دو سنترے کی قاشیں یا اس کا رس پیئں تو اس سے آنتوں میں فضلات کو خارج کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے اورقبض رفع ہو جاتا ہے۔
بخار کے مریضوں کے لئے جس طرح انار مفید ہے اسی طرح سنترہ بھی فائدہ دیتا ہے۔ بلکہ سنترہ بعض اعتبار سے اس سے بھی زیادہ مفید ہے۔اگر بخار کے مریضوں کے لئے سنترہ کو ایک نعمت عظمیٰ کہا جائے تو اس میں چنداں مبالغہ نہیں ہے ۔اگرچہ یہ پھل مرد و عورت، بوڑھے اور جوانوں سب کا دل پسند ہے اور سب کو یکساں فائدہ پہنچاتا ہے لیکن چھوٹے چھوٹے شیرخوار بچوں کے لئے بھی اس کی فائدہ رسانی ثابت ہوچکی ہے۔ ایسے بچے جو ماؤں کے دودھ سے محروم ہوں ان کی پرورش بازار کے ناقص دودھ سے کی جاتی ہو یا معدہ یا جگر کی شکایتوں میں مبتلا ہوں وہ مرض کساح (رکٹس) اور دق الا طفال( سوکھا) میں مبتلا ہوں، ان کے لئے سنترے کا رس آب حیات کا کام دیتا ہے۔
زمانہ حمل میں مستورات کو عموما متلی آتی ہے اور قئیں ہوا کرتی ہیں ان کو روکنے کے لئے سنترے نہایت مفید چیز ہیں بلکہ ایسی حالت میں یہ ان کے لئے نہایت لطیف غذا کا کام دیتا ہے۔
مرض سکروی(گوشت خورہ ) میں، جس میں منہ سے بدبو آتی ہے اور مسوڑھے متورم ہوتے ہیں، سنترے کے استعمال سے فائدہ پہنچتا ہے۔
طاعون ،معو یہ( ٹا ئیفائیڈ) ، ہیضہ اور اسہال صفراوی میں سنترے کا استعمال خصوصیت سے مفید ثابت ہوتا ہے۔ لیکن دائمی نزلہ اور بلغمی کھانسی کے مریضوں کے لئے سنترہ مناسب نہیں۔ خصوصاً ان کو کھٹا سنترہ کھانے سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے۔
سنترے کی غذائی افا د یت
مذکورہ بالا سطروں میں سنترے کی دوائی افادیت بیان کی گئی ہے ۔اب اس کی غذائی افادیت کے متعلق بھی سن لیجئے۔ سنترے کے رس کا کیمیائی تجزیہ کرنے پر اس میں شکر کافی مقدار میں پائئ گئ ہے ۔معدنی نمکیات خصوصاً کیلشیم( چونا )اور دوسرے قلوی(الکلائن) جوہر بھی ملتے ہیں ۔تھوڑی مقدار میں اجزائے ملحمہ( پروٹینز) بھی موجود ہیں۔
حیا تین ( وٹامن) الف ، ب،ج بھی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ غرضیکہ ان اجزاء کی موجودگی میں سنترہ کا رس غذائیت کے اعتبار سے ایسا بہترین مشروب ہے جو معدے پر کسی قسم کا بار ڈالے بغیر دوسری غذا سے بے نیاز کردیتا ہے۔ بخار کے مریضوں میں جب کہ بدن کا درجہ حرارت بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے معدے کی ہاضم رطوبت کا رسناموقوف ہو جاتا ہے اور اس لئے معدہ میں کسی ٹھوس غذا کے ہضم کرنے کی استعداد باقی نہیں رہتی۔سنترے کا رس بدن کو لطیف غذا بہم پہنچاتا ہے اور بدن کے تحلیل شدہ اجزا ءکا بدل بنتا ہے۔
معیادی بخار( ٹائیفائیڈ) کے مریضوں میں جب کہ مریض کی قوت کو برقرار رکھنے کے لئے معالج کو کسی ایسی چیز کی تلاش ہوتی ہے جس کو مریض شوق سے استعمال کرے اور معدہ بھی اس کا خیر مقدم کرے۔ وہ سنترے کا رس ہے ۔اس کو تنہا بھی دیا جاسکتا ہے اور آش جو (بارلے واٹر) میں ملا کر بھی پلایا جاسکتا ہے۔
عام حالات میں خصوصا کمزور آدمیوں کے لئے سنترے کا رس بہترین لطیف غذا ہے حتی کہ دودھ جیسی لطیف غذا کے مقابلہ میں بیت ہی لطافت رکھتا ہے۔ دودھ کو ہضم کرنے میں معدہ کو کچھ کام کرنا پڑتا ہے لیکن سنترے کا رس معدہ کے لئے مطلق بار نہیں ہوتا۔ وہ نہایت آسانی سے جذب ہوکر بدن کے تغذیہ میں صرف ہوتا ہے۔
سنترےکی مقدار خوراک اور طریقہ استعمال
سنترے کا رس نہایت آسانی سے ہضم اور جذب ہوجاتا ہے اس لئے پانچ سات بڑے سنتروں کا رس نکال کر پینا معمولی بات ہے ۔عام طور پر سنترے کا چھلکا اتار کر اس کی قاشوں کو منہ میں چبا چبا کر رس چوس لیا جاتا ہے یا قاشوں سے رس نچوڑ کر پیا جاتا ہے۔ بعض لوگ قاشیں نکال کر ان کی بالائی جھلی اتار کر اور بیج نکال کر نمک اور مرچ سیاہ پیسی ہوئی لگا کر کھاتے ہیں۔
راحت جان
محمد شاہ مرحوم سنترے کو ایک خاص طریقہ سے استعمال کرتے تھے ۔اس طریقہ سے جو مشروب بنایا جاتا ہے اس کو راحت جان کہا کرتے تھے۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ سنترے کی قاشوں کو اوپر سے سفید جھلی اتار کر اور اس کے بیج نکال کر صرف گودے اور قند اور گلاب کے شربت میں تقریباً ایک گھنٹہ بھگوکر رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ شربت کا اثر سنترے کے گودے میں آجاتا تھا اور سنترے کے اثرات شربت میں داخل ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد محمد شا ہ مرحوم اسکو برف سے سرد کر کے چمچہ سے تنہا بھی کھاتے تھے اور گاہے کھانے کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ یہ طریقہ استعمال رغب طبع اور تقویت اور تفریح قلب کے لئے سنترے کے استعمال کے مقابلے میں زیادہ مفید اور قوی الا ثر تھا۔
شربت سنترہ
سنتروں کا شربت بھی بنایا جاتا ہے جو تفریح و تقویت قلب نیز صفراء کو تسکین دینے اور پیاس بجھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ترکیب یہ ہے کہ سنترےکی کاشیں نکال کر ان کو کسی بڑے پتھر یا لکڑی کی کونڈی میں ڈال کر کچلیں اور صاف کپڑے میں لے کر ان کا رس نچوڑیں ۔اگر یہ رس آدھا کلو ہو تو اس میں ایک کلوچینی شامل کر کے ہلکی آنچ پر پکائیں۔ یہاں تک کہ شربت کا قوام بن جائے۔ آگ سے اتار کر ٹھنڈا کر کے کام میں لائیں۔
50گرام یہ شربت پانی یا کسی مناسب عرق میں ملا کر برف سے سرد کر کے پئیں۔ نہایت خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ یہ شربت پیاس کو تسکین اور قلب کو طاقت دیتا ہے۔ علاوہ ازیں معدہ اور آنتوں کی اصلاح کے خون پیدا کرتا ہے۔دو تین سنتروں کا استعمال موزوں ہے۔رس پچاس گرام مفید رہتا ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
سنگترہ “نارنگی” سنترہ (Orange)
دیگر نام: فارسی میں رنگترہ، ہندی میں نیرنگی، بنگالی میں کملانیبو اور انگریزی میں اورنج کہتے ہیں۔
ماہیت: مشہور پھل ہے جو کہ سیب کے برابر رنگ میں سرخ زردی مائل ہوتاہے۔ اس کا پوست چکنا اور ہموار ہوتا ہے۔ جس کے اندر کئی قاشیں(ملفوف) ہوتی ہیں۔جن کا مزہ لطیف شیریں چاشنی دار ہوتا ہے۔
نوٹ: نارنگی اور سنگترے کا پیڑ ایک جیسا ہوتا ہے۔ پھل کے افعال و خواص تقریباً یکساں ہوتے ہیں اور نارنگی کا ذائقہ قدرے کھٹا یا کھٹ میٹھا ہوتا ہےلیکن سنگترہ پکا ہوا عموماً میٹھا ہوتا ہے۔
مقام پیدائش: پاکستان اور ہندوستان کے باغوں میں عموماً لگایا جاتا ہے۔
مزاج: سرد تر درجہ اول
افعال: مفرح، قاطع صفراء، دافع تعفن اور پوست جالی ہوتا ہے۔
استعمال: چونکہ سنگترہ مفرح ہے۔ اس لےَ ضعف قلب اور خفقان کو دور کرتا ہے اور قلب کو تقویت دیتا ہے۔قاطع صفراء ہونے کی وجہ سے پیاس اور حرارت کو تسکین دیتا ہے۔ وبائی دنوں میں اس کا کھلانایا جوس و شربت پینا مفید ہے۔
اس کا چھلکا جالی ہونے کے باعث اْبٹنوں میں شامل کرتے ہیں۔ یہ چہرے کے داغ و سیاہی کو دور کرتا ہے اور رنگ کو نکھارتا ہے۔ صفراوی مریضوں کے موافق ہے۔
نفع خاص: مفرح و مسکن۔
مضر: سرد مزاجوں کے۔
مصلح: شہد خالص۔
بدل: رنگتر شیریں
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق