خریدنے کیلئے اس لنک پہ کلک کریں: کستوری-مُشک
مختلف نام: ہندی کستوری- فارسی مشک -عربی مسک- سندھی مشک- سنسکرت، بنگالی مرگ نابھی- مرہٹی، گجراتی کستوری- لاطینی میں موسکس(Moscus) اور انگریزی میں مُسک (Musk)کہتے ہیں۔
یہ خوشبودار خشک رطوبت ہے جو نر ہرن مشکی سے حاصل کی جاتی ہے، جس کی مفصل تفصیل درج ذیل ہے۔
ہرن مشک کی جو ہندوستان ،کشمیر ،تبت اور نیپال وغیرہ کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جانور ہرن سے کسی قدر چھوٹا ہوتا ہے۔ سینگ کسی قدر لمبے ہوتے ہیں۔ جن میں سے چھوٹی چھوٹی شاخیں بھی پھوٹتی ہیں۔ اس کی دم نہیں ہوتی۔ اس کی کھال بارہ سنگھے کی طرح ہوتی ہے۔ دو لمبے لمبے دانت اس کے منہ سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں جو اس کی ٹھوڑی تک پہنچ جاتے ہیں۔ بالوں کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ یہ جانور دور سے کھڑا ہوا ہرن معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کا مزاج بہت گرم ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بالکل برفانی علاقوں میں رہتا ہے۔ برف کے نیچے جو گھاس اگتی ہے اسے ہی کھا بسر اوقات کرتا ہے۔ کشمیر کی دشوار گزار گھاٹیوں اور وادیوں میں جہاں انسان کا بہت کم گزر ہوتا ہے اور برف اکثر جمی رہتی ہے ،یہ جانور پایا جاتا ہے۔ کشمیر کے لوگ بڑی مشکل سے اس کا شکار کرتے ہیں۔ چونکہ ان کو اس کی اہمیت کا پتہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اس کے نافے کو سستی قیمت میں سوداگروں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں۔
نافہ: مشک ایک بیضوی شکل کی جھلی دار تھیلی میں ہوتا ہے جو ناف کی جلد کے نیچے اور اعضائے تناسل کے درمیان ہوتی ہے۔ چونکہ یہ ناف کے قریب ہوتی ہے اس لئے اسے نافہ کہتے ہیں۔ اس تھیلی کے اندر بہت سے خانے ہوتے ہیں جن میں مشک کے دانے جمع رہتے ہیں۔ نافہ صرف نر اور جوان ہرن میں پایا جاتا ہے۔ مادہ میں نافہ نہیں ہوتا۔ جوں جوں نر بڑا ہوتا جاتا ہے نافہ بھی بڑا ہوتا جاتا ہے۔ مشک کے دانے بے ڈول سے ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہوتا ہے کیونکہ وہ حقیقت میں منجمد خون ہوتا ہے۔ ذائقہ تلخ اور خوشبو ایک خاص قسم کی ہوتی ہے۔
تبت کا مشک بہترین ہوتا ہے۔ اس کےبعد کانگڑہ (ہماچل) کا اور اس کے بعد نیپال کا۔ کشمیر کا مشک نیپال کے مشک سے کم طاقت کا ہوتا ہے۔ تبت کا مشک سیاہ ہوتا ہے اور چینی مشک کا رنگ زرد سرخی مائل۔ اس ضمن میں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ہر قسم کے مشک کو گلاب میں گھس اور رگڑ سکتے ہیں لیکن تبت کے مشک کو پہلے چاقو سے کاٹ کر گھسنا اور رگڑنا پڑتا ہے۔
شناخت: مشک ایک جانور کی ناف سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ کستوری ہرن سے کسی قدر بڑا ہوتا ہے۔ اس کے دو بہت لمبے لمبے دانت ہوتے ہیں۔ یہ تبت اور دوسرے مشرقی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ سردی کے موسم میں یہ ہندوستان اور دوسرے گرم ممالک میں چلا جاتا ہے اور جب یورپ کے ملکوں میں موسم بہار اور گرمی کا موسم ہوتا ہے تو وہاں آ جاتا ہے۔ جب اس کا شکار کرتے ہیں تو اس کے خصیوں کو ملتے ہیں۔ اس سے اس کی ناف میں خون جمع ہو جاتا ہے۔ اس خون میں ایک سال کے بعد بہت خوشبو پیدا ہو جاتی ہے۔ بہتر نافہ وہ ہوتا ہے جو خون کے ذریعہ خودبخود ناف میں جمع ہونے سے بنتا ہے۔ سب سے اچھا مشک تبت کا ہوتا ہے اور کشمیر کا مشک اس کے بعد ہے۔ بعض مشک سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں اور بعض سرخ رنگ کے۔ تبت کا مشک بہتر ہوتا ہے، چین کا نافہ 8گرام کا ہوتا ہے۔ ہندوستان و کشمیر کا نفہ وزن میں 12گرام تک ہوتا ہے۔ سب سے بہتر نافہ خطائی اور تبّتی ہوتا ہے۔
اصلی کستوری (مشک) کی پہچان: شیشے کے ایک برتن کو آگ پر رکھ دیا جائے اور اس پر تھوڑا سا مشک ڈال دیا جائے۔ پھر اس کو سونگھا جائے اگر اس میں سے خالص بو آئے تو اچھا ہے اور اگر اس میں سے خون کی بو آئے تو مصنوعی ہے۔ اگر سفید رنگ کا دھواں نکلے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کو نم دی ہوئی ہے۔
مصنوعی مشک بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے کنکر ،چینی ،سنبل، زعفران ،سیاہ دانہ، بلوط اور لونگ۔ ان سب چیزوں کو اکٹھا کر کے کوٹ لیتے ہیں اور اس کو عود اور عنبر کی خوشبو دے دیتے ہیں اور اس کا قوام درست کر لیتے ہیں۔
تبت کی کستوری (مشک): تبت میں سب سے عمدہ اور بیش قیمت مشک پایا جاتا ہے جس جانور سے یہ حاصل کیا جاتا ہے وہ بکری سے بڑا نہیں ہوتا لیکن شکل میں ہرن سے ملتا جلتا ہے ۔تاتاری زبان میں اس کو گودیری کہتے ہیں ۔اس کی کھال بڑے ہرن کی کھال کی مانند ہوتی ہے۔ اس کی دُم اور پاؤں ہرن کی دُم اور پاؤں سے مشابہہ ہوتے ہیں لیکن اس کے سینگ نہیں ہوتے۔اس کے چار بڑے بڑے دانت ہوتے ہیں جو تین تین انچ لمبے اور منہ سے باہر نکلے ہوئے ہوتے ہیں ۔ان میں سے دو دانت اوپر کے جبڑے میں اور دو نیچے کے جبڑے میں ہوتے ہیں ۔اوپر کے دانت نیچے کی طرف اور نیچے کے اوپر کی طرف اٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ لمبے مگر پتلے ہوتے ہیں ۔ان کا رنگ ہاتھی دانت کی طرح سفید ہوتا ہے ۔دکھنے میں یہ جانور بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ اس سے مشک حاصل کرنے کا طریقہ حسب ذیل ہے:
جب چاند اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے اس کی ناف کے قریب ایک کیسے میں تھوڑا سا خون منجمد ہو جاتا ہے جو لوگ اس کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔وہ چاندنی رات میں پکڑ کر اس کی تھیلی (نافے )کو کاٹ لیتے ہیں اور مشک کو دھوپ میں سکھا لیتے ہیں ۔یہ نہایت اعلٰی قسم کا مشک ہوتا ہے ۔اس طرح یہ لوگ بہت سے آہوئے مشک پکڑ لیتے ہیں ۔
تبت کے نافے کی پہچان :نافہ ہرن کے فالتو خون سے بنتا ہے ،یہ ایک چھوٹے سے بٹوے میں بند ہوتا ہے ہرن کی ناف کے قریب لٹکا ہوا ہوتا ہے۔ نافہ محض نر ہرن میں ہی پایا جاتا ہے، مادہ میں نہیں ہوتا ۔شکاری اسے وزن کے حساب بیچتے ہیں اور بیچنے سے پہلے مختلف طریقوں سے اس میں کچھ آمیزش بھی کر دیتے ہیں لیکن یہ آمیزش نافہ کی ساخت کا اچھی طرح سے معائنہ کرنے سے معلوم ہو جاتی ہے۔ اگر یہ بھوسلے رنگ کا ہو اور اس کے دانے دانے ہوں ،تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس میں ملاوٹ ہے لیکن اگر اس کا رنگ سیاہ ہو ،وہ دانہ دار نہ ہو بلکہ اکٹھا ملفوف سا بنا ہوا ہو اور اس کی تھیلی میں باریک پردوں کے چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوں تو یقین رکھنا چاہئے کی وہ خالص اور بہتر ہے ۔
تبت کے لوگ ایک اور طریقے سے بھی فورا ًمعلوم کر لیتے ہیں ۔آیا نافہ خالص ہے یا اس میں کسی چیز کی آمیزش ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ نافے میں سے سوئی گزار کے دیکھ لی جائے ۔اس طریقے کی تفصیل یہ ہے کہ سوئی میں دھاگا ڈال کر لہسن کی یا ہینگ کی ڈلی میں سے گزارتے ہیں ۔اس کے بعد اس دھاگے کو نافہ میں سے گزارتے ہیں ۔اگر نافہ کی خوشبو لہسن یا ہینگ کی بدبو پر غالب آ جائے تو نافہ خالص ہے ۔اگر لہسن یا ہینگ کی خوشبو زائل نہ ہو تو نافہ غیر خالص ہے۔ نافہ کو جانچنے کا یہ آسان اور بہترین طریقہ ہے اور پنجاب، ہریانہ و دہلی میں عام طور پر یہی طریقہ مروج ہے ۔
نیپال کا مُشک (کستُوری): یہاں کے لوگ مشک کو زیادہ تر نبات ،دھائی بون اور اس قسم کے اور دو ایک مقامات سے لاتے ہیں۔ یہ جانور پھندے کے ذریعے پکڑا جاتا ہے جو ایک خاص قسم کے پہاڑی بانس سے بنایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ بانس دفعتاً بالکل تباہ ہو جاتے ہیں اور ان میں سے ایک بھی باقی نہیں رہتا لیکن ان پر یہ آفت اس وقت آتی ہے۔ جب اس کے بیج زمین پر گر چکے ہوتے ہیں اس لئے کچھ عرصے کے بعد اس کے پودے پھر اُگ کھڑے ہوتے ہیں ۔کھٹمنڈو میں خالص مشک نہیں ملتا اور نہ ہی اس کی کچھ زیادہ مقدار وہاں سے برآمد کی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں کہ نافہ جو آہو (ہرن )کے جسم کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے ،اس میں سے خالص مشک دستیاب نہیں ہوتا ۔مشک اسی حالت میں خالص ہوتا ہے اگر کوئی شخص جس نے خود اپنے کھیتوں میں سے کستورے کو پکڑا ہو ۔
ڈاکٹر چوپڑا لکھتے ہیں کہ چین کے تاجروں کا بیان ہے کہ وہ نافہ بھی بہترین قسم کا نہیں ہوتا جو ہرن کو پکڑ کر اس کی ناف سے کاٹ لیا جائے ۔بلکہ بہترین قسم وہ ہے جو ان مقامات سے جمع کیا جائے جہاں یہ جانور اکثر رہتا ہے ۔وہ لکھتا ہے کہ مستی کے ایام میں یہ جانور اپنے پاؤں سے نافے کو پھوڑ دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نافے کے ذرات زمین پر گر پڑتے ہیں ۔یہ ذرات لوگ اٹھا لیتے ہیں۔ یہ نافہ بہترین قسم کا ہوتا ہے لیکن اس قسم کا نافہ عام طور پر میسر نہیں آتا ۔شاذونادر دستیاب ہوتا ہے ۔
نیپال کے نافے کی پہچان: اصلی مشک کا ذائقہ بہت تلخ اور تیز ہوتا ہے اور اس کا رنگ سرخی مائل یا زرد ہونا چاہئے ۔جو مشک بھوری اور سیاہ رنگ کا ہو اس میں خوشبو کم اور ذائقہ کسیلا سا ہو وہ بناوٹی ہوتا ہے ۔کشمیر کے لوگ زعفران کی طرح مصنوعی مشک بھی کثرت سے بناتے ہیں اور ناواقف لوگوں کے پاس جس قیمت پر بھی سودا ہو جائے ،فروخت کر دیتے ہیں ۔
آہُوئے تبت کی شکل و صورت :ٹرنر لکھتا ہے :آہوئے نافہ قد میں ایک اوسط درجے کے ہرن سے کچھ ملتی جلتی ہے لیکن وہ بنگال کے اس ہرن سے زیادہ مشابہہ ہوتا ہے ۔جس کا سر چھوٹا ہوتا ہے اور پچھلا حصہ بھاری اور گول لیکن اس کے اعضاء بہت نازک ہوتے ہیں ۔اس جانور کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے جسم پر بہت گھنے بال ہوتے ہیں جو دو تین انچ لمبے ہوتے ہیں اور اس کے تمام جسم پر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس کے سر ،کانوں اور ٹانگوں کے بال چھوٹے اور نرم ہوتے ہیں اور وہ دوسرے بالوں کی طرح کھڑے نہیں ہوتے ۔
اگر آہُوئے نافہ کا اچھی طرح سے معائنہ کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بال نہیں بلکہ پر ہیں ۔
ہندوستان میں کستورا ہرن فارم :کستورا ہرن کی ہندوستان میں تعداد بڑھانے کے لئے “کیندریہ آیور وید وسدھ انوشندھان پریشد” نے الموڑہ مہروڈی میں فارم قائم کیا ہوا ہے۔ یہ فارم الموڑہ ضلع میں 2300میٹر کی اونچائی پر قائم ہے ۔فارم کے سامنے ہی نندہ دیوی ،پنڈاری گلیشیر کی لمبی قطاروں میں ہمالیہ کی بڑی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیں ۔یہ مقام ضلع الموڑہ و ضلع پتھورا گڑھ (اُتر پردیش) کی سرحد میں ہے ۔یہاں ہی جڑی بوٹیوں کا ایک بھاری جنگل ہے ۔پریشد کے ماہرین نے ابھی حال ہی میں کستورا ہِرن کو بنا مارے کستوری نکالنے کی کامیاب نئی تکنیک بھی نکال لی ہے، کستورا ہرن کن کن بوٹیوں کو چارے کی صورت میں کھاتا ہے ۔وہ بھی اوپر لکھے جنگل میں دستیاب ہیں ۔اس سے امید کی جاتی ہے کہ ہندوستان میں کستوری خالص و حسب ضرورت خوب دستیاب ہونے لگے گی ۔
تازہ مشک کا رنگ سفیدی مائل ہوتا ہے لیکن جیسا کہ ہم اس سے قبل بیان کر چکے ہیں ،خشک ہونے پر یہ بھوسلا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ اس کا ذائقہ کڑوا سا ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو بہت دیر تک قائم رہتی ہے اور بہت تیز ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ اردگرد کی چیزیں بھی اس سے معطر ہو جاتی ہیں۔ اس لئے لوگ بالخصوص بعض اقسام کی عطروں میں اس کی آمیزش کرتے ہیں ۔اس سے عطر کی خوشبو دیرپا ہو جاتی ہے ۔بعض لوگ اعلٰی درجے کے صابن اور چہرے پر لگانے کے پوڈر میں بھی اس کی خفیف سی مقدار ڈالی جاتی ہے لیکن اگر اسے مشک کافور تلخ بادام اور بعض اوقات لہسن کے قریب رکھیں تو اس کی خوشبو ضائع ہو جاتی ہے ۔
مشک کی قسمیں :تبت کا مشک ،مشک کی تمام اقسام سے بہتر ہوتا ہے ،اس سے کسی قسم کی ناگوار بو نہیں آتی۔
تبت سے مشک کی مانگ نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی زیادہ ہے ۔قدیم اطباء کی نسبت دورِ جدید کے اطباء اسے زیادہ کثرت کے ساتھ نسخوں میں استعمال کرتے ہیں ۔یورپی ممالک میں بھی اس کی بہت کھپت ہے ۔فرانس کے لوگ اسے نہ صرف عطر کی خوشبو کو زیادہ تیز کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ اعلٰی اقسام کے صابن اور اس قسم کی دوسری اشیاء میں بھی ڈالتے ہیں ۔تبت کے علاوہ مشک ہندوستان میں کانگڑہ ،الموڑہ و کشمیر سے بھی دستیاب ہوتا ہے ۔
کستوری (مشک )کی پہچان :مشک چونکہ بہت قیمتی چیز ہے اور اس کی مانگ بھی کافی ہے۔ اس لئے لوگ مصنوعی مشک بھی بہت بناتے ہیں۔ وہ اس میں عام طور پر خشک خون وغیرہ ڈالتے ہیں ۔بعض اوقات وہ گیہوں اور جو کوٹ کر اس میں شامل کر دیتے ہیں ۔کیونکہ ہر اس چیز سے جو مشک کے ساتھ رکھی جائے، مشک کی سی خوشبو آنے لگتی ہے۔ اس لئے اصلی اور مصنوعی مشک میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم اس سے قبل مشک کی پہچان کے بہت سے طریقے بیان کر چکے ہیں ۔یہاں ہم چند اور طریقے بیان کرتے ہیں جو تبت اور کشمیر کے لوگ اس کی پرکھنے کے لئے عام طور پر بیان کرتے ہیں :
1-اگر مشک کے اصلی اور نقلی ہونے پر شبہ ہو تو نافے میں سے چند دانے نکال کر پانی میں ڈال دیں ۔اگر یہ دانے جوں کے توں پڑے رہیں تو مشک خالص ہے اور اگر گھل جائیں تو مشک ناقص یا نقلی ہے ۔
2- اچھے اور برے مشک کو پرکھنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ مشک کے چند دانے دہکتے ہوئے کوئلوں پر رکھ دیں ۔اگر وہ پگھل جائیں اور ان میں سے بلبلے نکلنے لگیں تو مشک خالص ہے ۔اگر وہ سخت ہو کر کوِئلہ ہو جائے تو مشک نقلی ہے ۔
3-اصلی مشک کو اگر زمین میں گاڑ دیں اور کچھ عرصے کے بعد نکالیں تو بھی اس کی خوشبو زائل نہیں ہوتی لیکن اگر مشک نقلی ہو یا ناقص ہو تو اس کی خوشبو بالکل بدل جاتی ہے ۔
4-چھونے سے بھی اصلی اور نقلی مشک میں تمیز ہو سکتی ہے ۔اگر اصلی مشک کو ہاتھ سے چھوئیں تو نرم معلوم ہوتی ہے لیکن اگر اس میں ملاوٹ ہو تو چھونے سے سخت معلوم ہوتی ہے ۔
کستوری (مشک )کا رنگ سیاہ ، خوشبودار اور ذائقہ کڑوا ہوتا ہے ،جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ کستوری ہرن کوہ ہمالیہ کے لگ بھگ 8ہزار فٹ کی بلندی پر رہتا ہے ۔(1)کستوری تبّتی (2)کشمیری ہندوستانی (3)نیپالی (4)روسی۔ یہ چار قسم کی مشہور ہیں :
مزاج :گرم و خشک ۔
مقدار خوراک :2/1رتی سے ایک رتی تک ۔
فوائد :مشک دل و دماغ اور تمام اعضائے رئیسہ کو طاقت دیتا ہے اور طبیعت میں فرحت پیدا کرتا ہے ۔حرارت غریزی کو بڑھاتا ہے۔ فالج ،لقوہ، رعشہ، نسیان ،خفقان کے لئے مفید ہے ۔مردانہ طاقت و کمزوری دل، غشی ،عام کمزوری کے لئے بھی لاجواب ہے ۔ایام کے بعد اس کا فرزجہ رحم کو طاقت دیتا ہے اور معاون حمل ہے۔ اس سلسلہ میں مشک (کستوری) اصلی 2رتی ،کیسر اصلی ایک گرام ،ثعلب مصری2 گرام ۔
باریک کوٹ چھان کر 3گرام شہد میں ملا کر صاف کپڑا لت پت کر کے اعضائے مخصوصہ زنانہ میں رکھنا اور اس کے کچھ ٹائم کے بعد اسے نکال کر ملاپ کرنا معاون حمل ہے ،مرد کے اگر منی کے کیڑے درست تعداد میں ہوں تو حمل قائم ہو جاتا ہے ۔اگر منی کے کیڑے کم ہوں تو پہلے مرد کا علاج ضروری ہے ۔
کستُوری (مُشک) سے تیار ہونے والے آسان و آزمودہ مجربات
حب حمل :کستوری2 رتی ،افیون ،کیسر ہر ایک ایک گرام ،جائفل ایک عدد ،بھنگ(4/3) 1گرام ،سپاری 3عدد ،لونگ 4عدد ،پرانا گڑ (2/1)5گرام ۔
سب دواؤں کو کوٹ چھان کر گڑ ملا کر بڑے نخود کے برابر گولیاں بنا لیں۔ خوراک ایک گولی صبح و ایک شام ہمراہ دودھ نیم گرم دیں۔ ایام آنے کے بعد کھلائیں ۔رحم کی جملہ خرابیوں کو درست کر کے عورت کو اولاد پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے ۔بشرطیکہ کوئی پیدائشی نقص نہ ہو اور ایام باقاعدہ آنے کے علاوہ مرد کی منی کے کیڑے درست مقدار میں ہوں ۔
حب خاص (مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب): کستوری خالص ،کیسر کشمیری ،کشتہ فولاد ،کشتہ سونا ،کچلہ شدھ ،جدوار، جندبیر ستر ،بہمن سفید ،عنبر اشہب ۔تمام ادویات ہموزن لے کر پان کے رس میں کھرل کر کے مونگ کے دانہ کے برابر گولیاں بنائیں ۔
ایک سے دو گولی بعداز غذا ہمراہ پانی دیں ۔اس نسخہ کی کامیابی کا راز اصلی ادویات و اصلی کشتہ جات میں ہے۔ جنرل ٹانک ہے ۔مردانہ کمزوری کے علاوہ ہر مرض کی کمزوری میں استعمال کرانا مفید ہے ۔
حب مقوی: کستوری خالص ،افیون ہر ایک2 گرام ،جاوتری ،لونگ، کیسر ،جائفل ،طباشیر، دارچینی ،ثعلب، مصری ،کشتہ قلعی ہر ایک 6گرام، کچلہ شدھ 3گرام ۔
سب کو کوٹ چھان کر کیکر کی گوند کے پانی سے گوندھ کر چھوٹے چنے کے برابر گولیاں بنائیں ۔خوراک ایک گولی ہمراہ دودھ نیم گرم کھانا کھانے کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد دیں اور ہر سات دن بعد دو دن دوائی بند رکھیں ۔مردانہ کمزوری و سرعت کے لئے مفید ہے ۔یہ دوائی احتلام اور جریان کے مریضوں کو نہ دیں ۔
طلاء کستوری والا :کستوری خالص 6رتی ،فرفیون (2/1)1گرام ،عقرقرحا 3گرام ،روغن چنبیلی خالص100 گرام میں جوش دے کر چھان لیں۔ چند قطرے عضو مخصوص کا منہ اور جڑ چھوڑ کر مالش کر کے پان کا پتہ نیم گرم کر کے باندھیں ۔رات کو مالش کر کے صبح نہانے کے بعد پتہ پھینک دیں ۔رات کو پھر اسی طرح کم از کم 10-12دن مالش کریں ۔
دیگر :کستوری خالص7 رتی ،مرچ سیاہ ،جند بیر ستر ،ہیرا ہینگ ،بیر بہوٹی ،ہر ایک 5-5گرام ۔سب کو کھرل کر کے 100گرام روغن چنبیلی میں ملا لیں۔ اس تیل کی مالش عضو مخصوص کا منہ اور جڑ چھوڑ کر کے اوپر پان کا پتہ لپیٹ دیں تاکہ باہر کی سرد ہوا نہ لگے ۔متواتر استعمال سے مُردہ رگوں میں بھی خون دوڑنے لگتا ہے ۔عضو کی کمزوری ،جھکاؤ،سستی اور پتلا پن کے لئے مفید ہے ۔
اولاد کی آرزو :کستوری خالص ایک گرام ،بیج شولنگی (چاندنی پکش )،افیون ،بھنگ ،جائفل ،جاوتری ،برادہ ہاتھی دانت اصلی ،لونگ ،سپاری ہر ایک 3گرام ،پرانا گڑ 12گرام ۔
سب دوائیں تازہ و اصلی لے کر کوٹ چھان کر چھوٹے چنے کے برابر گولیاں بنائیں ۔اوّل پہلے، ورنہ دوسرے، حد تیسرے ماہ ضرور کامیابی ہو گی۔ خوراک ایک گولی صبح کھانا کھانے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد اور ایک گولی ہمراہ دودھ نیم گرم دیں ۔(شِیولنگی کا بیان اِسی کتاب میں شہتوت سے پہلے ملاحظہ فرمائیں) معجون سرعت :کستوری خالص ،افیون ہر ایک 6-6گرام ،مغز پستہ 30گرام ،کیسر ،جاوتری ،جائفل ،مرچ سیاہ ،بہمن سفید ،بہمن سرخ، ثعلب مصری ہر ایک 12گرام ،خولنجان 15گرام ۔سوائے کستوری و افیون کے باقی دواؤں کا سفوف بنا لیں اور کستوری و افیون کو عرق بید مشک 35گرام میں حل کر کے باقی سب دوائیں یکجا کر کے شہد خالص تین گنا کے قوام میں ملا کر معجون بنا لیں ۔
خوراک3 گرام صبح و شام نیم گرم دودھ سے دیں ۔نوعمر و کمزور مریضوں کو کم مقدار میں استعمال کرائیں ۔سرعت کے لئے مفید ہے ۔
کستوری گٹکا :کستوری خالص 10گرام، کشتہ سونا 5گرام ،کشتہ چاندی 15گرام ،کیسر خالص 20گرام ،الائچی خورد 25گرام ،جائفل طباشیر 30-30گرام ،جاوتری 40گرام۔
کیسر و کستوری کے سوا باقی سب ادویات کا علیحدہ علیحدہ سفوف بنا لیں ۔پھر کیسر کو کھرل میں پیس کر دودھ بکری میں اس قدر کھرل کریں کہ مکھن کی طرح ہو جائے ۔اس کے بعد کستوری ملا کر کھرل کر کے دیگر ادویات ملا دیں اور تین روز تک دودھ بکری اور رس پان سے کھرل کر کے دو دو رتی کی گولیاں بنا لیں۔ ایک گولی صبح و ایک گولی شام کو بالائی میں رکھ کر دیں ۔اوپر سے شہد ملا دودھ پلائیں ۔مردانہ کمزوری کی زور اثر دوا ہے۔ ویرج (منی )کی کمی سے پیدا ہونے والے عوارض دور کر کے ویرج بکثرت پیدا کرتی ہے ۔پٹھوں کی کمزوری ،دل و دماغ اور جگر و معدہ کی کمزوری کو دور کر کے جسم میں بجلی کی لہر دوڑا دیتی ہے ۔مثانہ کو طاقت دیتی ہے ۔سردیوں میں اس کا استعمال بہت مفید ہے۔
معجون چاندی: کستوری خالص 5گرام، ورق چاندی خالص 50گرام ،عنبر خالص 10گرام ،مصری 280گرام، شہد خالص 280گرام ۔
پہلے تینوں ادویات کو کھرل میں ملا کر مصری و شہد کا قوام کر کے ادویات کو ملائیں ،معجون تیار ہے۔ خوراک ایک گرام سے دو گرام تک ہمراہ عرق گاؤ زبان 100گرام کھانا کھانے کے (2/1)1گھنٹہ بعد صبح و شام دیں۔ مردانہ طاقت و دل کی طاقت کے لئے بے حد مفید و لذیذ ہے ۔
حبّ سُرعت: کستوری خالص ایک گرام ،افیون دو گرام ،کیسر خالص 5گرام ،جائفل 1گرام ۔سب کو باریک پیس کر شہد کے ساتھ کالی مرچ کے برابر گولیاں بنائیں ۔ایک گولی ۔۔۔دو گھنٹہ پہلے نیم گرم دودھ سے دیں ۔
مردانہ کمزوری (حکیم کرتار سنگھ بیدی اودھن وال ):کچلہ 100گرام کو 15دن تک دودھ میں بھگو دیں مگر دودھ روزانہ بدلتے رہیں ۔اس کے بعد ان کا چھلکا اور پتہ دور کر کے کھرل کریں اور مندرجہ ذیل ادویات بھی کھرل کر کے ملا لیں ۔
کستوری خالص 4رتی ،کیسر 10گرام ،تج 3گرام ،موصلی سفید 10گرام ،بیج بند 3گرام ،سنبل کی جڑ 10گرام ،موچرس 10گرام ،تخم ریحان 10گرام، تال مکھانہ 10گرام ،ثعلب مصری 10گرام ۔باریک کر کے دوبارہ کھرل کر کے پھر شہد کے ساتھ چھوٹے چنے کے برابر گولیاں بنا لیں ۔ملائی یا مکھن 2/1سے ایک گولی روزانہ صبح و شام کھانا کھانے کے(2/1)1 گھنٹہ بعد دیں۔ دو ہفتہ کا استعمال کافی ہے ۔اس کا استعمال موسم سرما میں بہت ہی مفید ہے۔ شادی سے پہلے و شادی کے بعد کی کمزوری کے لئے مفید ہے ۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
نافہ’’مشک ‘‘کستوری مسک (Musk)
لاطینی میں :Moschus Moschiferus
دیگرنام:عربی میں مسک‘ فارسی میں مشک ،ہندی میں کستوری ،سندھی میں مشک ،بنگالی میں مرگ بابھ ،برمی میں کیڈو انگریزی میں مسک اور لاطینی میں ماسکس کہتے ہیں ۔
ماہیت: یہ خوشبو دار خشک شدہ رطوبت ہے ۔جونرآہوئےمشکی سے حاصل کی جاتی ہے مشک ناف کے قریب ایک جھلی دار تھیلی میں ہوتاہے۔اس تھیلی کوناف کی نسبت سے نافہ کہتے ہیں ۔مشک محض نر ہرن میں پایاجاتاہے مادہ میں نہیں ہوتاہے۔جب یہ نافہ پختہ ہوجاتاہے۔توکئی میل تک کی ہوا معطر کردیتاہے۔نافہ کے اندردانے سیاہ سرخی مائل بو بہت تیز اور مزہ تلخ ہوتاہے۔
نوٹ:یہ جانور ہرن کی قسم کاہوتاہے۔اور بعض اطباء کے نزدیک ہرن یا جنگلی بلاؤکے درمیان کا جانور ہے۔
مقام پیدائش:تبت،نیپال ،کشمیر ،روس چین ،اور سری لنکا میں پایاجاتاہے ۔بہترین مشک نیپال اور تبت کاہے۔
اصلی مشک کی پہچان :اصلی نافہ کی ساخت کے اندر بہت سے خانے ہوتے ہیں لیکن مصنوعی نافہ کے اندرخانے نہیں ہوتے ۔۔۔سوئی کی نوک کو لہسن میں چبھو کر نافہ میں چبھوئیں اگر بدبو آئے تو مصنوعی ہے۔
میرے محترم دوست حکیم اشفاق احمد (سابقہ پرنسپل اے آرطیبہ کالج) کے محترم بزرگ سید مصطفی ٰامام صاحب کہتے ہیں کہ اصلی مشک جلد میں جذب ہوجاتاہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح مل کر دھولیں بعد میں مشک کوہاتھ میں ہتھیلی پر اچھی طرح ملیں اگر جذب ہو جائے تو اصلی ورنہ میل کی طرح مروڑی سی بن کر اتر جائے گا۔
مزاج:گرم تین ۔۔۔خشک درجہ دو
افعال :مفرح و مقوی اعضائے رئیسہ منعش حرارت غریزی مقوی حواس ظاہری و باطنی ملطف و مفتح سدد مسخن دافع تشنج مقوی باہ ۔
استعمال:قلب و دماغ اور تمام اعضاء کو قوی کرتاہے۔اصلی حرارت غریزی کو ابھارتی ہے حواس خمسہ ظاہری و باطنی کو طاقت دیتی ہے اور مشہور محرک و مقوی باہ دوا ہے ضعیف قلب ‘غشی‘ مالیخولیا،مراق‘ خفقان‘ مرگی‘ اختناق الرحم‘ ام الصبیان‘ فالج ‘ لقوہ‘رعشہ وغیرہ امراض میں معجونات وغیرہ میں شامل کرتے ہیں ۔ضعیف قوی ٰ کے وقت اس کو کھلانے سے قوت عود کرآتی ہے۔
استعمال بیرونی :مشک سے عطر یا پر فیوم تیارکئے جاتے ہیں جوکہ بہت مشہور خوشبوں میں سے ایک ہے۔
مشک کی خوشبو اللہ کے نبی محمدﷺ کو بہت زیادہ پسندتھی ۔
اس کو سونگھنا زکام اور درد سر بارد میں مفیدہے اس کو حمول فرزجہ رحم کو تقویت دیتا اور معین حمل چنانچہ مشک خالص تین رتی زعفران ڈیڈھ گرام الثعلب مصری تین گرام باریک کوٹ چھان کر شہد میں ملاکر کپڑا لت کرکے اندام نہانی میں رکھنا اور اس کے بعد مباشرت کرنا ،استقرار حمل میں بہت مفیدہے۔
تقویت باہ کی غرض سے اس کو طلاؤں میں استعمال کرتے ہیں اور قوت ادویہ کو طبقات چشم میں پہنچانے کے لئے سرموں میں شامل کرتے ہیں۔
نفع خاص: مقوی باہ و دل و دماغ ۔مضر: مصدع
مصلحَ:طباشیر شہد عرق گلاب ۔بدل: جندبیدستر تیزپات۔
مقدارخوراک :ایک رتی سے دورتی تک۔
مشہورمرکب:دواء المسک
میرے محترم دوست حکیم محمد منیر اختر(گجرات)مشک کا بہت ہی بہترین طلاءتیار کرتے ہیں ۔جبکہ حکیممحمد شاہد کلانوری (کوئٹہ )زہر مہرہ جواہر دار تیار کرتے ہیں اس کا خاص جز مشک ہے۔
(Musk Seeds) مشک دانہ
دیگرنام:بنگالی میں کستورا دانہ‘ مہاراشٹری میں کلاکستوری‘ سنسکرت میں لتاکستوری ‘انگریزی میں مسک سیڈزکہتے ہیں ۔
ماہیت:اس کاپودا کانٹے دار ہوتاہے۔جس کی لمبائی پھلی کے چاروں طرف بھی کانٹے ہوتے ہیں پھلی کے اندر سے کئی چھوٹے چھوٹے مسور کے برابر گردوں کی شکل کے سیاہ رنگ کے خوشبو دار دانے نکلتے ہیں یہی بیج مشک دانہ کہلاتے ہیں بیج کے اندر چکنااور پھیکا مغز ہوتاہے۔
مقام پیدائش:یہ پودا زیادہ تر بنگال ،دکن اور لنکا میں پایاجاتاہے۔
مزاج:سرد خشک۔۔۔درجہ دوم۔
افعال:قابض ،مقوی بصر،مسکن کاسرریاح ،دافع ،تشنج مغلظ منی ۔
استعمال:دافع تشنج ہونے کی وجہ سے اس کو سفوف بناکر عصبی کمزوری اختناق الرحم مرگی اورضیق النفس میں استعمال کرتے ہیں ۔اس کے پتوں اور جڑ کو پانی میں پیس کر چینی ملاکر پلانا سوزاک اوررقت منی کے لئے مفیدہے۔بیج کا سفوف جریان منی میں کھلاتےہیں۔ ۔
استعمال بیرونی :مشک دانہ کوکھرل کرکے آنکھوں میں لگانا مقوی بصر ہے۔ مشک دانوں میں چونکہ مشک جیسی خوشبو ہوتی ہے۔اس لئے ان کو خوشبو دار اشیاء میں شامل کرتے ہیں افریقہ میں ان کے ساتھ لونگ اور دیگر خوشبودار اشیاء میں ملاکر ابٹن کے طورپر استعمال کیاجاتاہے۔عرب ان کو کافی میں خوشبو کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ہندوستان میں بجائے مشک کے بھی استعمال کرتے ہیں مشک دانہ کا سفوف اونی ملبوسات پر چھڑکنے سے کیڑا نہیں لگتا۔مشک دانہ سے تیل بھی کشید کیاجاتاہے۔جو اکثر بالوں میں لگانے والے تیلوں میں شامل کرتے ہیں جس سے تیل خوشبودارہوجاتاہے۔
مقدارخوراک:دو سے تین گرام (ماشے)
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق