مقام پیدائش: پنجاب، دہلی، یوپی، بنگال میں کافی ملتی ہے۔
مختلف نام: ہندی کندوری،کندور۔ سنسکرت بمبی،بمبا پھل۔تیلگو بمبیکا۔ بنگالی کندرکی۔ گجراتی ٹنڈوراں۔ مرہٹی تونڈلی۔ لاطینی میں کوسنیا انڈیکا (Coccinia Indica) کوسنیا کارڈی فولیا (Coccinia Cordifolia) اور انگریزی میں سفیا لینڈ راانڈیکا (Cephalandra Indica) کہتے ہیں۔
شناخت: یہ ایک بیل ہے جو نزدیک کے درختوں پر پھیلتی ہے۔ پتے گلو کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ یہ ہر سال موسم برسات میں سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے اور خوب پھلتی و پھیلتی ہے۔ اگر اسے درخت یا تار کا سہارا نہ ملے تو زمین پر ہی پھیلتی رہتی ہے۔ ڈنٹھل تین چوتھائی انچ سے ڈیڑھ انچ تک ہوتا ہے۔ اسے پانچ پنکھڑیوں والے سفید رنگ کے پھول چاندنی کی طرح اور پھل پرول کی طرح آتے ہیں۔ یہ پھل 3 انچ کے لگ بھگ لمبے اور ایک چوتھائی انچ کے قریب گولائی میں بیلن کی طرح ہوتے ہیں۔ پھل کے اندر کا غذی لیموں کے بیجوں کی طرح بیج ہوتے ہیں۔ یہ پھل پکنے پر لال رنگ کی نارنجی کی طرح ہو جاتے ہیں۔ اس کی جڑیں کئی سالوں تک قائم رہتی ہیں۔ یہ بیل دو قسم کی پائی جاتی ہے۔ ایک جنگلی )اپنے آپ پیدا ہونے والی(کڑوی اور دوسری کاشت کی ہوئی میٹھی ہوتی ہے، جنگلی بیل کے پانچوں اجزاء)پنچانگ(کڑوے ہوتے ہیں لیکن کاشت کی ہوئی بیل میں کڑواہٹ نہیں پائی جاتی۔اس کی ترکاری بنائی جاتی ہے۔ کڑوی قسم کے پھل بھی جب پک کر لال رنگ کے ہو جاتے ہیں تو ان کا ذائقہ بھی کڑوا نہ رہ کر میٹھا ہو جاتا ہے۔ موسم برسات جولائی اگست میں یہ سرسبز و شاداب ہوتی ہے۔ ستمبر و اکتوبر میں اس پر پھل آتے ہیں ۔ دسمبر و جنوری کے آخر تک پھر یہ بیل خشک ہو جاتی ہے لیکن جڑ جو زمین میں پھیلی ہوتی ہے، موسم برسات آتے ہی پھر بیل پھوٹ کر ہری بھری ہو جاتی ہے۔
اس کی جڑ کو کانٹے یا کنٹ لگانے سے جو لیس دار رس نکلتا ہے وہ خشک ہونے پر لال گوندھ جیسا ہو جاتا ہے ۔ اسے “گوند کندوری”کہتے ہیں۔
ماڈرن تحقیقات: )انڈین میٹر یا میڈیا( اس کی جڑ میں رال ہوتی ہے جو کاسٹک سوڈا اور امائی لک الکوحل میں تحلیل پذیر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک کھاری جوہر و نشاستہ ، شکر ، گوند، شحمی مادے، آرگینک آسڈ اور 16 فیصدی راکھ پائی جاتی ہے جس میں مینگنیز نہیں ہوتے۔
مزاج: پتے سرد و خشک، ، پھل سرد و تر۔
مقدار خوراک: تازہ پتوں کارس 10 گرام سے 25 گرام تک۔
فوائد: اس کا پکا پھل بطور سبز ترکاری کھایا جاتا ہے۔بنگال کے حکیم، وید اس کا تازہ رس صبح کے وقت خالی پیٹ ذیابیطس کے مریضوں کو استعمال کراتے ہیں اور اس کو انسولین کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔ اس علاج کےساتھ ساتھ روزانہ ایک میل کی سیر بھی کرنی چاہئے۔ تب ہی جلد فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے پتوں کو خالص گھی کے ساتھ پیس کر زخموں پر لیپ کرتے ہیں اور آبلوں پر اس کے پتوں کو باندھتے ہیں۔
کڑوی کندوری کڑواہٹ لئے ہوئے زہر کو دور کرتی ہے۔ دست لاتی ہے، میٹھی کندوری میٹھی و ٹھنڈی ہے ۔ دمہ و بلغم کو دور کرتی ہے ۔ فساد خون و کھانسی میں مفید ہے۔ میٹھی کندوری کے پھل عورتوں کا دودھ بڑھاتے ہیں۔ اس کی جڑ کی چھال کا دو گرام کا سفوف دینے سے ہی دست لگ جاتے ہیں کیونکہ اس کی چھال و جڑ زبردست دست لانے والی ہے۔
ایلو پیتھک ڈاکٹروں کی اس کے متعلق مندرجہ ذیل رائے ہیں
ڈاکٹر آر این کھوری کی رائے: یہ معتدل ، ذیابیطس، بڑھی ہوئی گلٹیوں اور چھیپ وغیرہ امراض میں مفید ہے۔
ڈاکٹر کرنل آر این چوپڑہ کی رائے: ذیابیطس شکری کے پیشاب میں خارج ہونے والی شکر کی مقدار کو کم کرنے میں نمایاں سود مند ہونے کے لئے مشہور ہے۔
ڈاکٹر سرت چندر گھوش کی رائے: کندوری ذیابیطس شکری کے لئے مفید ہے۔ میں نے ایسے ذیابیطس کے مریضوں پر جوکہ میرے زیر علاج تھے، آزمایا اور وہ اس کی بدولت شفایاب ہو گئے۔
کندوری کے آسان و کامیاب مجربات
منہ کے چھالے: اس کے پھل کو پانی سے دھو لیں اور چھیل کر چبا لیں اور رس کو کچھ دیر منہ میں رکھیں ۔ اس سے منہ و زبان کے چھالوں و زخموں کو فائدہ ہو گا۔
زخم: اس کے پتوں کا رس 30 گرام، تلی کا تیل 250 گرام تیل میں رس ڈال دیں اور دھیمی دھیمی آگ جلائیں۔ جب رس تیل میں جل جائے تو اتار کر چھان لیں اور زخموں پر یہ تیل لگائیں ۔ زخم درست ہو جائیں گے۔ یہ تیل داد، چنبل و خارش کے لئے بھی مفید ہے۔
نزلہ و زکام: اس کے پتوں کا تازہ رس 10 گرام صبح و شام 10 گرام دیں ۔ نزلہ و زکام کے لئے مفید ہے۔
پیشاب کی نالی کے زخم: کندوری کے پتوں کا رس دس دس گرام صبح و شام دیں ۔ پیشاب کی نالی کے زخم و پیپ کو آرام آ جاتا ہے۔
جلدی امراض: اس کے پتوں کا خالص گھی میں پیس کر چیچک کی طرح نکلنے والے دانوں پر لگانے سے دانوں کو آرام آ جاتا ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
کندر(Oilbanum)
دیگر نام:عربی و فارسی میں کندر‘ مارواڑی میں کندر وگوند‘ ہندی میں سلائی کا گوند‘ بنگالی میں کندرو‘ گجراتی میں دھوپ کگلی‘ انگریزی میں اولی بےنیم لاطینی میں (Baswellia Glabra)کہتے ہیں۔
ماہیت: یہ ایک خاردار درخت کا گوند ہے۔ جس کے پتے حب آلاس کے پتوں کی طرح ٹہنیوں کے سروں پر گچھوں کی شکل میں لگتے ہیں۔ اس کےپتے مارچ‘ اپریل میں جھڑ جاتے ہیں اور پھول سرخ رنگ لئے ہوئے اس وقت نکلتے ہیں۔ جب درخت پر پتے نہیں ہوتے۔ عمود کندر باہر سے سفید اور اندر سے قدرےزرد ہوتا ہے۔
مزاج:گرم خشک۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرجہ دوم۔
افعال:دافع سلسل البول‘ دافع کثرت بول‘جالی‘ مجفف‘ محلل‘ مقوی باہ۔
استعمال: محلل اور مجفف ہونے کی وجہ سے درد شکم میں کبھی کبھی استعمال کرتے ہیں۔ سعال بلغمی اور دمہ بلغمی میں میں کھلاتے ہیں۔ انڈے کے ساتھ کھلانا مقوی باہ و مولد منی ہے۔ مقوی مثانہ ہونے کی وجہ سےسلسل البول میں مفید اور زیادتی پیشاب( کثرت بول) کو بند کرتا ہے اگر اس کا سفوف تین گرام عرصہ تک کھائیں تو موٹاپا دور کر دیتی ہے۔ گوند کیکر کے ہمراہ چوسنے سے منہ کی بدبو زائل کرتی ہے۔آکتحلاً شہدکے ساتھ آنکھ کے زخم‘ ناخنہ‘ دمعہ‘ جالا اور دھند کو مفید ہیں۔ذرود اس کا مندمل جراحات ہے۔ اس کے مرہم زخموں اور مردار ہڈیوں پر لگاتے ہیں۔ روغن ناریل کے ساتھ رگڑ کر لگانے سے خراب زخموں کو درست کرتی ہے۔
نوٹ: کندر کو معجونوں میں کس عرق میں گھول کر اور مرہموں میں سرکہ میں بھگو کر ڈالا جاتا ہے کیونکہ تازہ کندر پیس نہیں سکتا۔
مقدار خوراک: ایک سے دو گرام۔ماشے
مشہور مرکب: معجون کندر‘( سفوف مقوی مثانہ طب نبوی دواخانہ کا)
کندور(Trichosanthes)( فارسی میں) کندروس
ماہیت: ہر دل کی مانند ایک پھل ہے جو بیل پر لگتا ہے اس کا رنگ خام حالت میں سبز‘ پختہ ہونے پر سرخ جبکہ خام کا ذائقہ پھیکا اور پختہ کا ترش ہوتا ہے۔
مزاج: سردتر۔۔۔۔۔۔۔ درجہ اول
افعال و استعمال: مسکن حدت و خون وصفراء‘ بیماروں کے لئے اچھی غذا ہے۔ اخلاط فاسدہ کی اصلاح کرکے جسم کو دبلا کرتا ہے۔ اس پودے کی جڑ ممسک ہے لیکن معدہ کو کمزور کرتی ہے۔
مقدار خوراک: بقدر ہضم یا مناسب مقدار میں۔
کندوری کی بیل(CephalandreIndica)
ماہیت:بنگالی میں ٹیلا کوچہ‘ ہندی میں کبر‘تیلگو میں بمبیکا‘ تامل میں کوائی‘ سندھی میں کنڈھڑی‘ مرہٹی میں کنڈولی کہتے ہیں۔
ایک بیل ہے جو پاس کے درختوں پر پھیلتی ہے اس کےپتے گلو کے پتوں کے برابر لیکن چار‘ پانچ بڑے بڑے کنگرے ہوتے ہیں۔ پھولگل چاندنی کی طرح ہوتا ہے اور بیج کاغذی لیموں کےبیج کی طرح‘ برسات میں اس کو پھل لگتے ہیں اس کا پھل پرول جیسا مخروطی شکل کا خام سبز اور اوپر سفید خطوط ہوتے ہیں۔ پکنے پر نہایت سرخ ہوتا ہے۔ جنگلی کندوری کے پھل کا ذائقہتلخ اور کاشت شدہ کے پھیکے ہوتے ہیں۔ مقامپیدائش: صوبہ دہلی‘ یوپی‘ بنگال۔ مزاج:( پتے) سرد خشک۔۔۔۔( پھل) سردتر۔
افعال و استعمال: اس کا پختہ پھل بطور سبزی ترکاری کھایا جاتا ہے۔ بنگال کے اطباء اس کا تازہ رس صبح کے وقت خالی پیٹ ذیابیطس کے مریضوں کو استعمال کراتے ہیں اور اسے انسولین کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔ بعض وئید کثرت پیشاب کے علاج کی رسائن دواؤں کو اس کی جڑ کے خالص رس میں بھگو تے ہیں اور پھر اسی کے رس میں گولیاں بنا کر کھلاتے ہیں لیکن تازہ تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ اس سے ذیابیطس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اس کے پتوں کو گھی کے ساتھ پیس کر زخموں پر لیپ کرتے ہیں اور آبلوں پر اس کے پتوں کو باندھتے ہیں۔
مقدار خوراک:تازہ رس دھائی سے پانچ تولہ۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق