مقام پیدائش: ہمالیہ کے ساتھ لگتے علاقوں میں خاص طور پر ہماچل پردیش ،اتراکھنڈ ، گڑھوال ،نینی تال وغیرہ پہاڑی جگہوں پر پایا جاتا ہے۔
مختلف نام :مامیراں چینی ، پیلی جڑی -اردو ممیرا – فارسی ممیراں – ہندی ممیرا ، ممیری – سنسکرت مہاتکتا – گجراتی ممیرو ، ممیرا – سندھی مہمیرا آسامی ،مشمی تتیا – لاطینی میں کاپٹی ٹیٹا وال (Coptis Teeta Wall)اور انگریزی میں کوپٹی سگیلڈ تھریڈ (Coptisaglid Thread)کہتے ہیں ۔
شناخت :طب یونانی و آیوروید کے معالجین میں “میرا ” نامی دوا کی خاص مشہوری ہے اور کئی کہانیاں اس کے متعلق سنی جا رہی ہیں۔ یونانی و آیوروید کتب میں ممیرا کے متعلق مختلف بیان ملتے ہیں۔ علاقہ کماؤں کی پہاڑیوں میں بھی یہ بوٹی عام ملتی ہے ،وہاں کے باشندے اس کا نام “پیلی جڑی “بتاتے ہیں۔
ممیرا کا پودا ایک فٹ سے ڈیڑھ فٹ تک اونچا و مضبوط ہوتا ہے ۔اس کے پتے سوہانجنا کے پتوں کی طرح چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں ۔اس کے پودے کو کھینچ کر اتارنا آسان نہیں ہے ۔اس کی ٹہنی پتلی ہونے کے باوجود بھی بہت مضبوط ہوتی ہے ۔ممیرا کی جڑ ہی ادویات کے کام میں آتی ہے ۔اس کی جڑ ہی ایک کے بعد ایک بڑھتی جاتی ہے۔ اگر آٹھ نو سال کے پرانے پودوں کی جڑ کو کھودا جائے تو دیگر پودوں کی طرح اس کی جڑ نئے پودوں کے پیدا ہونے یا یا سڑ کر ضائع نہیں ہوتی ۔پرانی میں چستی پوری طرح نہیں رہتی ہے ۔ہر سال ایک گرنتھی بڑھ جاتی ہے۔ سب سے پرانی گرنتھی میں خاص اثر ہوتا ہے۔
جہاں اس کا پودا ملتا ہے اس کے نزدیک کئی پودے اور حاصل ہو جاتے ہیں ۔جو پرانا اور بڑا پودا ہوا سے ہی احتیاط کھود کر اکھٹا کرنا چاہئے ۔
اس بوٹی کی جڑ لمبی اور سیدھی ہوتی ہے ۔لمبائی کے رخ جھریاں پڑی ہوتی ہیں ۔رنگ زردی مائل بھورا ہوتا ہے۔ اس کے پھول ڈنڈی دار سفید یا ہلکے سبز اُودے رنگ کے ہوتے ہیں۔ ہر پھول کی پتیاں 4-5 ہوتی ہیں ۔
ممیرا حاصل کرنے کا موسم :برسات کے دنوں میں ممیرا بوٹی ہری بھری رہتی ہے ۔موسم بسنت کے شروع ہوتے ہی ممیرا کی جڑیں گرنتھیوں اور اس میں لگی پیلی پیلی جڑوں کا سٹاک کرنا مفید ہے ۔اس کی جڑ خود ہی خشک ہو جاتی ہے ۔اس کی پرانی بوٹی کی جڑ ہی حاصل کرنی چاہئے ۔اس میں خاص فائدے دیکھے گئے ہیں ۔
ماڈرن تحقیقات :ممیرا میں ایک پیلے رنگ کا قلمی جوہر بربرین نام کا پایا جاتا ہے ۔
مزاج :گرم و خشک ۔
مقدار خوراک :ایک گرام سے دو گرام تک ۔
فوائد: ممیرا نظر بڑھانے والا ہے۔ اندرونی استعمال سے پیٹ کی گیس کو دور کر کے پیشاب لاتا ہے ۔اسے عام طور پر سرمہ سیاہ میں ملا کر امراض چشم، جالا ، پھولا ، ناخونہ وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شہد اور سرکہ میں پیس کر سفید داغوں و چھیپ ،جھائیں اور جلد کے داغوں پر لگانے سے آرام ملتا ہے ۔
اصلی ممیرے کی پہچان :اصلی ممیرے کی جڑیں پنسل سے کچھ باریک کٹکی کی طرح ہوتی ہیں ۔ لمبی لمبی اوپر سے بھوری یا سیاہ اندر سے بالکل ہلدی جیسے رنگ کی ہوتی ہیں ۔منہ میں چبانے سے بہت کڑوی معلوم دیتی ہے۔ یہی اصلی ممیرا کی پہچان ہے۔
امراض چشم پر ممیرا کا استعمال (وید رنویر سنگھ شاستری ):ممیرا کی جڑ کو پانی میں گھس کر لگائیں ۔تھوڑے دنوں میں نظر کی کمزوری ، کم دکھائی دینا ، پانی گرنا ، آنکھوں کی خارش کا عارضہ دور ہو جائے گا ۔ ممیرا کو ہمیشہ سورج نکلنے سے پہلے یا رات کو استعمال کرائیں ۔
دیگر :ممیرا کی جڑوں کا کپڑ چھان سفوف 10گرام ، بڑھیا عرق گلاب 170گرام نیلی شیشی میں ڈال کر کارک لگا کر دھوپ میں تین دن رکھیں۔ چوتھے دن صاف کپڑے سے چھان کر نیلی شیشی میں بھر لیں ۔اس میں سے دو سے تین بوند صبح و رات کو دونوں آنکھوں میں ڈالیں ۔ آنکھ دُکھنے و آنکھ لال ہو جانے میں مفید ہے ۔
دیگر :ممیرا کی جڑوں کو دھو کر سایہ میں سکھا لیں ، خشک ہونے پر پیس لیں اور کپڑے سے چھان لیں ۔اس سفوف کو بقدر مناسب کاجل یا سرمہ سیاہ میں یا اکیلا ہی سلائی سے لگائیں ۔
دیگر :آشوب چشم ، موتیا بند، جالا ، دھند، پھولا ، رتوندھی ، آنکھ کی سوجن ،نظر کی کمزوری وغیرہ امراض میں ممیرا کا استعمال فائدہ مند ہے اور ممیرا آنکھوں کی ہر قسم کی تکالیف کو دور کر دیتا ہے ۔اس کے استعمال سے آنکھوں کی روشنی بڑھتی ہے ۔
دیگر :ممیرا کو باریک پیس کر کپڑ چھان کر لیں اور عرق گلاب میں دن 20کھرل کریں اور شیشی میں محفوظ رکھیں ۔سلائی سے آنکھوں میں لگائیں تو یہ آنکھوں کے مندرجہ ذیل امراض میں مفید ہے ۔
ممیرا کے بیرونی استعمال کے ساتھ مریض کو مقوی دماغ خوراک کا استعمال بھی کرانا چاہئے ۔اس سلسلہ میں روزانہ دو مربہ آملہ ، پانی سے دھو کو آٹھ گری میٹھے بادام کے ساتھ دیں یا گاجر کا مربہ استعمال کریں۔خالص دودھ ، خالص گھی اور ہری سبزیوں کا استعمال بھی مفید ہے ۔
لال مرچ ،گرم مصالحے ، بینگن ،کریلا، میتھی ، رائی وغیرہ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔موسم گرما میں تیز دھوپ و تیز روشنی سے آنکھوں کو بچانا چاہئے۔ گڑھوال میں دیہاتی ممیرا کا استعمال طاقت کی خوراک کی صورت میں گائے ، بھینس ، بکری وغیرہ کو کراتے ہیں اور ان جانوروں کی کمزوری کے لئے 250گرام ممیرا کا پنجانگ پیس کر مریض گائے ، بھینس یا بکری کو سات دن تک دیتے ہیں ۔اس سے اس کی سوجن و تکلیف دور ہو کر دوبارہ صحت مند و چست ہو جاتی ہے ۔
کئی وید ،حکیم اصل ممیرا کی یہ شناخت بتاتے ہیں کہ اس کی جڑ کو نیلے یا کالے کپڑے سے رگڑا جائے تو کپڑے کا رنگ اڑ جاتا ہے اور کپڑ سفید ہو جاتا ہے۔ یہ محض خیال ہے اور ایسا نہیں ہوتا ۔یہ کام تو تیزاب سے ہی ممکن ہے۔ اگر ممیرا میں اس قدر ہی تیزابیت ہوتی تب یہ قطعی ناقابل استعمال ہوتا اور آنکھ کے ڈھیلے کو جلا کراندھا کر دیتا ۔(حکیم ڈاکٹر ہری چند ملتانی)
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
مامیرا‘‘مامیراں’’ممیرا (Coptis Teeta)
دیگرنام: اردو میں ممیرا ، سندھی میں مہمیرو ، آسام میں مثمی ٹیٹا ، انگریزی میں کوپٹس ٹیٹا اور لاطینی میں کوپٹس ٹیٹادال اور عام طور پر ممیری یا پیارانگااورمامیرا چینی کہتے ہیں ۔
ماہیت: ایک بوٹی کی ہلدی کی مانند گرہ دار اور ٹیڑھی جڑ ہے۔ اس کا پتاگہرے شگافوں کے ذریعے تین حصوں میں پھٹاہوا ہوتاہے۔پتے چکنے بغیر رواں کے ہوتے ہیں۔ اگر تین عدد شہتوت کے پتوں کو جوڑ کر رکھ دیاجائے تو ممیرا کا ایک پتابن جاتاہے ۔پتا کا ہر حصہ بیضوی لمبوترا نظرآتاہے۔ہر پتے کا کنارا دندانے دارہوتاہے۔اورپتوں کے ڈنٹھل چھ سے بارہ انچ لمبے ہوتے ہیں ۔
بوٹی سے ایک گندل نکلتی ہے ۔جس پر تین تین سفید رنگ کے ڈنڈے دارپھول لگتے ہیں۔ ہر ایک پھول کی ڈنڈی پر دوننھے ننھے پتے سے نکلتے ہیں ۔کاسہ گل میں پانچ چھ لمبوترے نوک دار آدھی انچ لمبی پتیاں ہوتی ہیں ۔ہر کلی لمبی ، پتلی اور فیتہ نماہوتی ہے۔اس کی جڑ گاجرمولی کی طرح زمین میں سیدھی نہیں ہوتی بلکہ پہلو کے بل ملتی ہے۔یہی اصل ممیراکا پوداہے۔جڑ کا رنگ باہر سے سفیدزرد مائل بہ سیاہی اندرسے ہلدی جیسی زرد اور ذائقہ تلخ ہوتاہے۔یہی بطوردواء استعمال ہوتی ہے۔
ممیرا کے بارے میں جتنی بھی کہانیاں ہیں وہ سب مبالغہ آمیز ہیں ۔
مقام پیدائش: کابل سے آسام تک ہمالیہ کی پانچ ہزار فٹ بلندی خصوصاًمثمی پہاڑ ’’آسام ‘‘میں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ چین میں بکثرت ہوتی ہے۔جبکہ تبت پر کم کم پیدا ہوتی ہے۔چین میں پیداہونے والی مامیراں بہترین قسم ہے۔
مزاج: گرم خشک درجہ سوم ۔۔۔ بقول حکیم مظفر اعوان صاحب گرم خشک۔۔۔۔ درجہ دوم۔
افعال: بیرونی طور پر جالی۔ مقوی بصر ۔ اندرونی طورپر : دافع بخار، کاسرریاح ، مدربول۔
استعمال بیرونی: جالی ہونے کے باعث ممیرا کو تنہا مناسب ادویہ کے ہمراہ کھرل کرکے امراض چشم مثلاًضعف بصر ،جالاپھولا اور ناخونہ وغیرہ میں مستعمل ہے۔جالی ہونے کی وجہ سے ممیرا کو شہد اور سرکہ کے ہمراہ پیس کر برص ،بہق ،جرب اور جلد کے داغ دھبوں کو صاف کرنے کیلئے طلاء کرتے ہیں ۔
استعمال اندرونی: حمیٰ اجامیہ ( ملیریا بخار) میں اس کے پتے مریض کو کھلاتے ہیں جس سے بخار دور ہوجاتاہے۔انیسوں کے ہمراہ پیس کر مدربول ہونے کی وجہ سے یرقان سدی میں پلاتے ہیں اور مناسب ادویہ کے ہمراہ سوزاک میں کھلاتے ہیں یہ کاسرریاح بھی ہے۔
نفع خاص: امراض چشم ۔ مضر: گردوں کے امراض میں ۔
مصلح: شہد خالص۔ بدل: مرمکی ، ہلدی ۔
کیمیاوی اجزاء : جوہر مؤثر میں بر برین ( Berberine ) زرد رنگ کا پایا جاتا ہے۔
مقدارخوراک: ایک سے دو گرام یا ماشہ ۔
مشہور مرکب: سفوف مامیراں ، کحل الجواہر وغیرہ ۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق