مختلف نام :مشہور نام موسا کرنی – عربی اذن الفار- فارسی گوش مُوش اور عام دیہاتی نام چوہے کنی اور کئی جگہ اوندراکنی کہتے ہیں ۔جن سب کے معنی چوہے کے کان کے ہیں جس کے پتے چوہے کے کان سے مشابہہ ہوتے ہیں ۔
شناخت :یہ سال میں دو مرتبہ برسات میں اور بہار میں پیدا ہوتی ہے اور تقریبا ًآٹھ ماہ تک کہیں نہ کہیں ڈھونڈنے پر دستیاب ہو جاتی ہے ۔صرف سخت گرمی اور سخت سردی میں خشک ہو کر معدوم ہو جاتی ہے ،اس کی پیداوار بستانی اور جنگلی دونوں جگہوں میں قدرتی طور پر ہوتی ہے ۔ندی نالوں، نہروں کے کناروں کے نزدیک ،نمناک درختوں کے درمیان اور جھاڑیوں کے آس پاس ریتلی یا کچھ ملی جلی مٹی والی زمینوں میں عام پائی جاتی ہے۔ خشک سخت جگہ یا پتھریلی کنکریلی زمینوں میں یہ کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔ قد کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں ۔ایک مفروش اور دوسری زمین سے ایستادہ قریبا ًایک فٹ تک اونچی ۔اس کی جڑ اندازاًایک بالشت تک زمین کے اندر ہوتی ہے ۔اس کے پتے بالکل چوہے کے کان کی طرح ایک دوسرے کے آمنے سامنے ڈنڈے اور شاخوں پر ہوتے ہیں ۔اس کی شاخیں گانٹھ دار نرم نرم پتلی تکونی ہوتی ہیں جس کی رنگت سیاہی مائل سرخ ہوتی ہے ۔ان پر نازک نازک رواں ہوتا ہے ۔اس کے پتوں کی پشت اوپر کی طرف اٹھی ہوئی ہوتی ہے اور گانٹھوں پر ریشہ ہوتا ہے۔ پھولوں کی رنگت کے لحاظ سے یہ تین اقسام کی ہوتی ہے ۔ایک ہلکے گلابی پھول والی، دوسری سفید پھول والی اور تیسری نیلگوں پھول والی اس کے پھول ہرن کھری کے پھولوں کے مشابہہ ہوتے ہیں ۔اس کے پھل جوار کے دانہ کی طرح ہوتے ہیں جن کے اندر دھنیا کے برابر دو بیج ہوتے ہیں ۔اس کے پھل کو ابابیل پرندہ بڑے شوق اور خوشی سے کھاتا ہے ۔قدرتی حالت میں دیکھنے سے بہت خوبصورت اور دلکش معلوم ہوتی ہے ۔اس کے پتوں کو مسل کر نچوڑنے سے لعاب دار رطوبت نکلتی ہے جو ذائقہ میں پھیکی ہوتی ہے ۔اس کے پتوں کو نازک جگہوں یعنی رخساروں پر رگڑنے ملنے سے ان کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے ۔اس کا سب پنجانگ اپنی اپنی خاصیت کے لئے بڑا مفید اور قابل استعمال ہے۔ اس کی ایک اور قسم ہے جو مفروش بیل کی شکل میں پائی جاتی ہے اور گز ڈیڑھ گز تک آر پار پھیلی ہوتی ہے ۔اس کے پتے کھردرے اور تیز رواں دار ہوتے ہیں اور پھول سفید رنگ کا ہوتا ہے ۔ جو حقہ کی ٹوپی نما ہوتا ہے ۔یہ قسم بڑی زہریلی ہے اور کھانے میں ہرگز استعمال نہیں کی جاتی۔ بلکہ زہروں ،پھوڑوں ، پھنسیوں، ورموں اور بواسیر کے مسّوں پر باندھنے کے کام آتی ہے ۔سانپ کا ڈنک، ترکنڈا ،کیل ، کانٹا چبھ جانے پر بھی یہ باندھنے کے کام آتی ہے۔ کیوں کہ اپنی قوت جازبہ سے زہر یا کانٹا کو کھینچ کر باہر نکال دیتی ہے ۔
فوائد: اس کا مزاج گرم خشک ہے لیکن کئی بزرگ معتدل اور کئی سرد خشک لکھتے ہیں ۔یہ مدربول ،مفتح ، محلل اورام ، جازب ، پتھری توڑ اور کمزوری دور کرنے والی ہے ۔مفصل نتائج درج ذیل ہیں :
مِرگی :اس کے تازہ پتوں کا رس ناک میں ٹپکانے یا چڑھانے سے مرگی کے مریض کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ نیز اس سے سر درد بھی دور ہو جاتا ہے۔
جریان :اس کو تازہ دس گرام لے کر روزانہ خالی پیٹ کوٹ کر پینا احتلام ،جریان کو بے حد فائدہ پہنچاتا ہے ۔یہ مولد منی ہے اور اس کی اصلاح کرتی ہے اور کمزوری مثانہ کو دور کرتی ہے ۔
کمزوری نظر :اس کے تازہ رس میں کم از کم دو ہفتہ سرمہ کھرل کر کے استعمال کرنے سے ضعف بصر کو فائدہ پہنچاتی ہے نیز اس کی جڑ کا لیپ ناسور چشم کو بڑا مفید ہے اور ورم کو بھی دور کرتا ہے ۔
فالج :لونگ، نک ، چھکنی ، مرچ سیاہ ، عقر قرحا سب چار چار رتی، موسا کرنی خشک دس گرام ۔سب کو کوٹ کر سفوف بنا کر دن میں دو تین بار آدھا آدھا گرام ہمراہ جوشاندہ شہد استعمال کرنے سے فالج کو خاطر خواہ فائدہ پہنچاتا ہے ۔
زخم ،سوئی یا کیل لگنا :جسم کے کسی حصے میں سوئی ،کانٹا یا کیل چبھ گیا ہو یا تیر یا گولی یا شیشی کا ٹکڑا چبھ کر اندر رہ گیا ہو تو اس کے پتوں کا گرم لیپ دو چار دن میں اس کو باہر نکال دیتا ہے اور زخم ٹھیک ہو کر مریض کو درد اور پریشانی سے نجات مل جاتی ہے ۔
سانپ کا ڈنک: جسم کے کسی حصے پر اگر سانپ یا چوہے نے ڈنک مار دیا ہو یا ترکنڈا کا زہر ہو تو اس کا دن میں دو بار ایک ہفتہ تک لیپ کرنے سے سب زہر کو چوس لیتا ہے اور مریض صحت یاب ہو جاتا ہے ۔
پیچش: موسا کرنی تازہ چھ گرام ،مغز کدو چھ گرام ، سونف تین گرام ،اگر صبح و شام رگڑ کر استعمال کئے جائیں تو انتڑیوں کے سدوں کو خارج کر کے زحیر کاذب اور صادق ہر دو کو فائدہ پہنچاتی ہے ۔
ورم اور زخم: اس کے تازہ پتوں کا پانی نچوڑ کر کان میں ڈالنا دردکان اور ورم کو جلد ٹھیک کر دیتا ہے ۔نیز بواسیر ،بھگندر پر باندھنا بہت بڑا فائدہ دیتا ہے
پیٹ کے کیڑے :جس شخص کی بھوک کم ہو گئی ہو تو اس کے خشک پتوں کا سفوف روزانہ تین گرام ہمراہ نیم گرم پانی استعمال کرنا بھوک کی تیزی کو بےحد بڑھاتا ہے کہ تاب نہیں رہتی ،نیز اس کے خشک پتوں اور پودینہ خشک کا سفوف برابر ملا کر تین گرام کی مقدار میں خالی پیٹ استعمال کرنا ہر قسم کے پیٹ کےکیڑوں کا نکالتا ہے اور مقوی معدہ ہے ۔
فساد خون :فساد خون و زہریلے زخموں تک کی بیماریوں میں اس کا باطریقہ استعمال بڑا فائدہ پہنچاتا ہے اور مفید ہے ۔
تیل خاص :رس موسا کرنی 125گرام ،تیل تلی 250گرام ۔اس کے رس کو تیل تلی میں ڈال کر درمیانی آگ پر اتنا پکائیں کہ رس جل کر صرف تیل باقی رہ جائے ،اس کو شیشی میں بند کر کے بحفاظت رکھ لیں اور بوقت ضرورت اس کی کمر ،کنج ران ،پیڑو وغیرہ پر مالش کرنے سے کمزوری دور ہو جاتی ہے۔بے حد مفید چیز ہے ۔
اولاد کی آرزو :ایام سے پاک و صاف ہونے پر صبح نہار منہ قریبا ًایک ہفتہ سفوف موسا کرنی تین گرام ہمراہ گائے کے گرم دودھ استعمال کرنے سے نقائص دور ہو کر اللّٰہ تعالٰی کی مہربانی سے اولاد کی آرزو پوری ہو جاتی ہے ۔ایسا سلسلہ کوئی تین ماہ متواتر کرنا چاہئے ۔
کشتہ جات میں موسا کرنی کا استعمال
کشتہ چاندی :چاندی شدھ کے باریک چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دس گرام کو نغدہ موسا کرنی 250گرام میں تہہ بہ تہہ رکھ کر سمپٹ کر کے15 کلو اپلوں کی آگ دیں ۔کشتہ تیار ہو گا جو حکیموں کے استعمال کے علاوہ مہوسوں کے کام میں بھی آنے والا ہے ۔
کشتہ تانبہ: تانبہ شدھ کا نرم پترہ دس گرام ،نغدہ موسا کرنی 375گرام میں رکھ کر کم از کم 40کلواپلوں کی آگ دیں۔ کشتہ بن جائے گا جو خاص قسم کا اور خاص تاثیر کا ہے ۔
کشتہ پارہ :پارہ شدھ صاف کیا ہوا دس گرام لے کر رس موسا کرنی میں کم از کم دو ہفتہ کھرل کریں ۔پھر مضبوط شیشی میں ڈاٹ لگا کر منہ اچھی طرح بند کر کے موٹی گل حکمت کریں ۔ایک ہانڈی میں پندرہ سولہ کلو ریت ڈال کر درمیان میں رکھیں اور دوپہر تک پہلے نرم ،پھر تیز آنچ دیں ۔سرد ہونے پر نکال لیں۔ سمندر جھاگ کی طرح کا کشتہ برآمد ہو گا جو ایک چاول مکھن یا بالائی میں ڈال کر روزانہ استعمال کرنا کمزوری کو دور کرتا ہے ۔نیز بدن کو موٹا کرتا اور اعصاب کو طاقت دیتا ہے ۔(حکیم جگدیش چندر ،جموں )
نوٹ :استعمال کرنے سے پہلے تسلی کر لیں تاکہ کشتہ پارہ خام نہ ہو ۔(حکیم ہری چند ملتانی ،پانی پت)
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
چو ہا کنی
لاطینی میں:Ipomea Renniformis
دیگر نام: عربی میں اذان الفار ،فارسی میں گوش موش ،سندھی میں کواکنی ،ہندی میں موساکنی،گجراتی میں اندر گنی،بنگلہ میں اندر کانی پانا،سنسکرت میں موشا گرنی کہتے ہیں۔
ماہیت: ایک بوٹی ہے جس کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ایک قسم کھڑی رہتی ہے جو بقدر دو انچ یا , (۲گرو) کم و بیش بلند ہوتی ہے اور اس کے دونون طرف دو پتے چوہے کی کان کے ماندد ہوتے ہیں۔دوسری قسم بیل دار اور پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔اس کی شاخیں گرہ دار ہوتی ہیں۔شاخیں سرخی مائل بہ سیاہی اور کس قدر حرف دار ہوتی ہیں اور پتے گولائی لئے ہوئے دودھی کے پتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔پھول نیل گوں اور پھل دانہ جوار کی مانند،لیکن اس سے زیادہ بڑے لگتے ہیں اور اس میں دو تخم ہوتے ہیں۔
مقام پیدائش :وسط ہند، دکن اور دامن کوہ میں یہ بوٹی ساون کے بعد ندیوں کے قریب اگتی ہے۔
مزاج: گرم وخشک درجہ دوم۔بقول حکیم کبیر الدین گرم وخشک
افعال: مدربول ،مصفی خون،قاتل کرم شکم
استعمال: چوہاکنی کو امراض گردہ و مثانہ کی پتھری میں(مففت سنگ)پیس چھان کر پلاتے ہیں اور بھگندر جیسے امراض میں بھی استعمال کراتے ہیں۔شکم کے کیڑوں کو ہلاک کرنے کے لئے دیتے ہیں۔آشوب چشم اور ناسور چشم میں اس کے پتوں کا پانی نکال کر پلاتے ہیں یا آنکھ کے گرد ضماد کرتے ہیں ۔اس کے پتے چبا لینے سے بھوک غلبہ کرتی ہے۔پہاڑی لوگ اس کا ساگ کھاتے ہیں۔
نفع خاص: مدربول اور قتل کرم شکم مضر:مثانہ کے لئے۔
مصلح: مرز نجوش،تخم خرفہ۔بدل:ایک قسم دوسری قسم کا بدل ہے۔
مقدار خوراک: خشک تین سے پانچ گرام یا ماشے۔
سبز: سات ماشے سے ایک تولہ تک۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق