خریدنے کیلئے اس لنک پہ کلک کریں: میتھی دانہ
مختلف نام: ہندی ، اردو ، بنگالی ، گجراتی میں میتھی۔ راجستھانی میتھی دانہ ، دانہ میتھی ، میتھی۔ فارسی تخم شمیلت ۔ عربی بزرل الحلبہ ۔ انگریزی میں فینول گریک (Fenul Greek)اور لاطینی میں ٹریگونیلا فونیم گریکم (TrigonellaFoenumGraecumlinn) کہتے ہیں۔
شناخت: اس کی فصل ہندوستان کے لگ بھگ سب صوبوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ اس کے پودے کی انچائی ایک سے ڈیڑھ فٹ ، پتے لمبے گول دانہ دار آدھے سے ڈیڑھ انچ لمبے ، پھول پیلے ، پھلی دو سے چار انچ لمبی ، 8سے 10 دانے والی، بیج پیلے ہرے ہوتے ہیں جن کو تخم میتھی یا میتھی دانہ کہتے ہیں۔ میتھی کا ساگ ہندوستان میں بہت ہی شوق سی کھایا جاتا ہے اور یہ ایک مشہور کثیر الاستعمال ساگ ہے۔ اس کے پتے، بیج، پھلی سب ہی کام میں آتے ہیں۔
مزاج: دوسرے درجہ میں گرم و خشک
خوراک: بیج 5گرام سے 10گرام تک، پتوں کا رس بارہ گرام تک۔
فوائد: اس کے بیج ریاح و ورم کو تحلیل کرتے ہیں۔ پیشاب و ایام جاری کرتے ہیں ۔ طبیعت کو نرم کرتے ہیں۔ ریاح دفع کرتے ہیں ۔ سرد بیماریوں ، منہ ٹیڑھا ہو جانا ، نچلے دھڑ کا مارا جانا، گنٹھیا کو مفید ہے۔ اس کا لیپ ورم کو تحلیل کرتا ہے اور کان کے درد کو دور کرتا ہے۔
میتھی کا ساگ پیشاب لاتا ہے ۔ سردی کی بیماریوں ، کمر درد، تلی کے ورم کو نافع ہے۔ بیج میتھی ریاحی امراض میں مفید ہے ۔ خاص طور پر بلغمی مزاج والوں کے لیے بہت مفید ہے ۔ پیٹ کے چھوٹے کیڑوں کو مارتی ہے۔ ہاضمہ کی طاقت بڑھتی ہے ، جسم کو تندرست و کمزور کو طاقتور بناتی ہے۔ یہ پھیپھڑوں کے لیس دار بلغم کو صاف کرتی ہے اور بچہ دانی کے درد کے لیے مفید ہے۔ سردی سے محفوظ رکھتی ہے۔ چہرے کے داغ دھبے دور کرنے کے لیے یا دیگر مناسب ادویات کے ہمراہ اس کا لیپ کرنے سے چہرہ صاف ہو جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر بچہ پیدا ہونے کے بعد پرسوتا عورت کو اس کے لڈو بنا کر کھلاتے ہیں ۔ ذیابیطس کے مرض میں اس کا استعمال خاص طور پر مفید ہے۔
میتھی کے آسان و آزمودہ مجربات
چھاتی کے امراض: میتھی کے بیجوں کے جوشاندہ میں شہد ملا کر پینے سے چھاتی کے امراض دور ہو جاتے ہیں۔
سوجن: میتھی کے بیج 10گرام، جو 10گرام ،دونوں کو پیس لیں اور سرکہ انگوری کے ساتھ پتلا لیپ کریں اس سے گالوں کی سوجن اتر جاتی ہے۔
گنٹھیا: میتھی کو پیس کر 9گرام پانی یا سبزی میں لینے سے گنٹھیا میں جلد فائدہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو بلڈ شوگر یا شوگر کی بیماری ہے ان کو بھی اس سےفوراً فائدہ ہوتاہے۔
دائمی قبض: آنتوں کی کمزوری سے دائمی قبض ہو تو میتھی کا سفوف 3-3گرام صبح و شام گڑ ملا کر پانی کے ساتھ کچھ دنوں تک لینے سے نہ صرف قبض دور ہو جائے گی بلکہ جگر کو بھی طاقت ملتی ہے۔
میتھی کے لڈو:ہرڑ، بہیڑہ، آنولہ، سونٹھ، کالی مرچ،پیپل، اجوائن، ناگر موتھا، کلونجی، زیرہ سفید ، زیرہ سیاہ، دھنیا، لونگ، دار چینی، چھوٹی الائچی کے دانے، تیج پت، ناگ کیسر، جائفل، جاوتری، کایا پھل، کا کڑا سنگی، کٹھ ، تالیس پتر، صندل سفید۔ یہ 25ادویات ہر ایک 12-12گرام ، میتھی کے بیج 300گرام ، گوند کیکر 30گرام، ناریل کی گری 60گرام، گیہوں کا آٹا 300گرام، گھی خالص 300گرام ، گڑ 750گرام لے لیں۔
آٹے کو گھی میں بھون لیں ۔ گوند کو پیس کر ، ناریل کی گری کدوکش پر کش کر لیں ۔ پھر سب کو ملا لیں اور 25-25گرام کے لڈو بنا لیں۔ یہ لڈو صبح شام پرسوت والی عورت کو کھلاتے رہنے سے بچہ دانی سکڑ جاتی ہے۔ مرض کے جراثیم ضائع ہو جاتے ہیں ۔ ریاحی امراض نہیں ہوتے۔ کمر میں طاقت آتی ہے۔ ہاضمہ کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ چھاتیوں سے دودھ زیادہ اترتا ہے۔ قبض نہیں رہتا اور جسم طاقتور ہوتا ہے۔
میتھی پاک: میتھی، سونٹھ اور خالص گھی 450-450گرام ، دودھ 4کلو، پیپل ، پپلا مول، اجوائن، دھنیا، زیرہ، کلونجی، سونف، دار چینی، جائفل، تیزپات، شٹھی، کالی مرچ ہر ایک 150-150گرام لیں ، دودھ کو ابالیں ، پتلی ربڑی جیسی بننے پر سو نٹھ اور میتھی کا سفوف ملائیں اور پھر ماوا تیار کر کے گھی میں بھون لیں ۔ اس کے ساتھ اور ادویات کا کپڑ چھان سفوف ملا دیں بعد میں چار کلو چینی کی چاشنی کر کے دھیمی آگ پر رکھ دیں ، گرمی کم ہونے پر ماوا اور ادویات کا سفوف ملائیں اس میں سے 50-50گرام صبح شام ہمراہ دودھ نیم گرم دیں۔
ریاحی امراض ، گنٹھیا، کمر درد وغیرہ کے لئے بہت مفید ہے۔ دماغی امراض و کمزوری میں بھی اس کا استعمال فائدہ مند ہے۔ سیلان و پرسوتا کے امراض میں تیز بہدف ہے۔ جسم کو طاقت دیتا ہے اور منی کو بڑھاتا ہے۔
ذیابیطس (مدھومیہ) کا علاج میتھی
ذیابیطس کو عام لوگ شکر کی بیماری کہتے ہیں ۔ اگر چیونٹیوں کو موقع ملے تو وہ اس جگہ پر جمع ہو جاتی ہیں جہاں اس کا مریض پیشاب کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریض کے پیشاب میں شکر کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ اگر مریض کے پیشاب اور خون کی جانچ کروائی جائے تو شکر کی مقدار کا درست پتہ لگ سکتا ہے۔
ذیابیطس کی بیماری پتاشیہ سے پیدا ہونے والے رس میں انسولین کی کمی سے ہوتی ہے۔ انسولین ہماری خوراک کے مانڈ کو ہضم کرنے ، اس کو شکر کی صورت میں بدلنے اور اس کی خون و پیشاب میں مقدار کو کنٹرول میں رکھنے کا کام کرتی ہے۔ اگر یہ شکر خون اور پیشاب میں زیادہ ہونے لگے تو کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہ اپنے آپ میں کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ پتاشیہ کی کمزوری یا اس پر زیادہ دباو کی نشانی ہے۔ اگر شکر اور مانڈ کے بغیر خوراک استعمال کی جائے تو پتاشیہ پر دباو کم ہو سکتا ہے اور یہ شکایت دور ہو سکتی ہے۔ شکر اور مانڈ کے اثر کو کم کرنے والی ادویات کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ خطرناک حالت میں سیدھے انسولین کے ٹیکے بھی لینے پڑتے ہیں ، اگر شروع میں اس کی روک تھام نہ کی جائے تو اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر، دل کے امراض ، ادھرنگ، نظر کا کم ہونا ، ہاتھ پاوں سن ہو جانا یا ان میں درد ہونا ، پیاس زیادہ لگنا وغیرہ شکایتیں بڑھ سکتی ہیں۔
اس کے علاج کے لئے کریلا ، جامن، نیم کی پتی، تیز پات، بیج میتھی وغیرہ ہندوستان میں پہلے سے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جو سبزیاں زمین کے اندر پیدا ہوتی ہیں جیسے آلو، گاجر، زمین قند وغیرہ۔ اناجوں میں چاول اور میٹھے پھل وغیرہ شکر اور مانڈ بڑھانے والے ہیں۔ جن سبزیوں میں ریشوں کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور جو پھل میٹھے نہیں ہوتے وہ مفید ہیں۔
راشٹر یہ پوٹن انوسندھان حیدرآباد کے وگیانکوں ڈاکٹر آرڈی شرما اور رگھورام کی کمیٹی کافی عرصہ سے ذیابیطس (ڈایا بٹیز)کی وجوہات و علاج پر تحقیق کر رہی تھی۔انہوں نے سینکڑوں مریضوں پر ادویات اور اُن کے بُرے اثرات کا مطالعہ کرکے اب اپنی روپورٹ پیش کی ہے۔
اس انو سندھان نے یہ تحقیق کی ہے کہ میتھی کے بیج ذیابیطس اور دل کےامراض میں بہت مفید ہیں ۔ میتھی کے بیج روزانہ 20گرام بھر بھرے پیس کر کھانے سے دس دن میں ہی پیشاب اور شکر کی کمی ہو جاتی ہے۔ اس کی جانچ کروا کے پتہ لگوایا جاسکتا ہے کہ آگے میتھی کا استعمال کریں کہ نہ۔ علامات مرض میں کمی کا تجربہ تو مریض خود ہی کر سکتا ہے۔ پھر بھی اچھا ہے کہ دس دس دن کے بعد ٹیسٹ کروا لیا جائے ۔ اس کے بعد میتھی کے بیج کی مقدار کم یا 100 گرام تک ہر روز بڑھائی جا سکتی ہے۔ میتھی کو کھانے کے ساتھ یا سبزی میں ڈال کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خوراک کی مقدار 120کیلوریز سے 1400کیلوریز ہر روز رکھنے سے اور شکر کا پرہیز کرنے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ میتھی کے استعمال سے صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا اور نہ کسی دوا کے ساتھ الٹا اثر ہوتا ہے۔ کل مقدار20گرام یا100گرام تک دن میں تین بار تقسیم کر کے لیں۔
ہمارے تجربات کے مطابق صرف میتھی کے بیجوں کا استعمال ذیابیطس کو دور کر دیتا ہے۔ میٹھی چیزیں چاول، آلو، گوبھی، اروی، کیلا وغیرہ کا پرہیز لازمی ہے۔ اور روزانہ ایک میل پیدل سیر کرنا مرض کو دور کر دیتا ہے۔ چینی کی جگہ سکرین کی گولیاں لی جاسکتی ہیں ۔ اگر کریلا ، جامن، میتھی ایک ساتھ لئے جائیں تو بھی فائدہ بہت کم ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک دوسرے کے اثرات کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اس لئے صرف اکیلی میتھی کا استعمال بہت فائدہ دکھاتا ہے۔ (ہری چند ملتانی)
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
(Fenugreek)میتھی ’’حلبہ ‘‘
لاطینی میں :
Trigonella Foenum Graecum_Linn
دیگرنام:عربی میں حلبہ فارسی میں شملیب پشتو میں ملخوزے اور انگریزی میں یں فینوگریک کہتے ہیں ۔
ماہیت:میتھی کا پودا ایک فٹ سے لے کر دو فٹ تک بلند ہوتاہے۔اسکی دو اقسام ہیں : (1)ایک کے پتے نازک اور چھوٹے ہوتے ہیں ۔ان کو اوپر سے کاٹ کر ساگ بنایاجاتاہے۔یا گوشت اور سبزی وغیرہ میں ملاکر پکاتے ہیں ۔
(2) دوسرا قسم کاپتہ موٹا ہوتاہے۔اور درمیان کا تنا بھی موٹا ہوتاہے۔پتے کچھ دندانے اور کچھ بغیر لکیر کے ہوتے ہیں ۔اس کے پھول بھی زرد ہوتے ہیں اس کے ساتھ تین چار انچ لمبی قدرے چپٹی پھلی لگتی ہے۔جس کے اندر زرد رنگ کے دانے یا تخم ہوتے ہیں جن کو تخم میتھی کہاجاتاہے۔عموماًاس کے پتوں کا ساگ بنا کر کھایاجاتاہے۔اس کا مزہ قدرے تلخ ہوتاہے اس کو عام طورپر میتھرے یا میتھے کہتے ہیں ۔
مقام پیدائش:پاکستان میں سندھ‘ پنجاب‘ کشمیر جبکہ انڈیا میں یوپی ،بمبئی‘ مدراس اور پنجاب میں بکثر ت ہوتی ہے۔پاکستان میں ضلع قصور کی میتھی مشہور ہے۔
مزاج:گرم خشک۔۔درجہ دوم۔
افعال:جالی محلل ،منضج اورام ،مقوی اعصاب ،مقوی بدن ،مقوی باہ ،مخرج و منفث بلغم وریہ مقوی معدہ وآمعاء کاسرریاح مدرحیض و محرک رحم مسکن درد۔
استعمال:میتھی کا عام طور سے ساگ بناکر کھاتے ہیں یا دوسری سبزیوں یا گوشت کے ہمراہ میتھی کے پتوں کو پکا کرکھاتے ہیں اور بطور خوشبو سالن میں شامل کرتے ہیں ۔
بیرونی استعمال :میتھی کے پتوں کی پلٹس ظاہری و باطنی ورموں کو تحلیل کرتی ہے۔پتوں کو پانی میں پیس کر پستان پر لیپ لگانا دودھ کی پیدائش کو بالکل منقطع کر دیتاہے۔میتھی کے لعا ب دار بیج پیس کر بطریق پلٹس اورام پر باندھتے ہیں اورداغ دھبوں کو مٹانے کیلئے چہرہ طلاء کرتے ہیں ۔ان کو پانی میں پیس کر ہفتہ میں دو بار سردھونے سے سر کے بال لمبے ہونے کے ساتھ بال گرنابند ہوجاتے ہیں ۔
اس کا لعاب نکال کر امراض چشم خاص طور پر دمعہ طرفہ اور آشوب چشم میں قطور کرتے ہیں ۔ادرار حیض کیلئے اسکے جوشاندے میں ابزن کراتے ہیں ۔
اندورنی استعمال:مدرحیض ہونے کی وجہ سے ادرار حیض کے نسخوں میں یا تنہا بھی استعمال کرتے ہیں ۔منفث بلغم ہونے کی وجہ سے کھانسی‘دمہ میں اس کا جوشاندہ تیار کرکے پلاتے ہیں ۔تقویت باہ اور مقوی بدن ہونے کی وجہ سے اس کو تقویت باہ مرکبات میں استعمال کرتے ہیں ۔اس کے بیجوں کو سفوف کاسرریاح ہے۔سرد بلغمی امراض مثلاًوجع المفاصل ‘درد کمر ،ضعف اعصاب میں بھی اس کے بیجوں کا سفوف مفیدہے۔یہ سفوف عظم طحال ‘نفع‘پیچش‘ اسہال وغیرہ میں استعمال کرنے سے فائدہ ہوتاہے۔
نفع خاص: امراض باردہ ۔ مضر: خصیہ کو۔
مصلح: پالک اور خرفہ کو ساگ۔بدل: کوئی بھی نہیں ۔
کیمیاوی اجزاء:تخم میں Tannin‘زرد رنگ کا مادا ‘رال‘ لعاب‘ ایلبومن‘کولین ومیتھین‘کم مقدار میں آئرن پایا جاتا ہے۔ جدید تحقیق سےثابت ہوا ہے کہ میتھی کے اجزاء کاڈلیور آئل(روغن جگر ماہی) کی طرح ہیں۔ اس لئے جہاں کاڈلیور آئیل استعمال کرنا ہو وہا ں میتھی ان سے بہترین اور محفوظ ترین دوا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں فاسفیٹس ‘لیسی تھین بھی کافی مقدار پائے جاتے ہیں۔
نوٹ:مویشیوں اور گھوڑوں کے مسالوں میں تخم میتھی ایک طاقتور جز کے طور پر ملائی جاتی ہے۔
طب نبوی ﷺاور میتھی:
قاسم عبدالرحمانؓ روایات کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میتھی سے شفا حاصل کرو ‘‘
’’میری امت اگر میتھی کے فوائد کو سمجھ لے تو اسے سونے کے ہموزن خریدنے سے بھی دریغ نہ کرے ۔‘‘(ذہبیؓ)
ذاتی مجرب:تخم میتھی(میتھرے) کو اکثر مدرحیض‘قبض اور تبخیرہ معدہ کے لئے استعمال کیا جو کہ بے حد مفید ہے۔(حکیم نصیر احمد طارق)
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق