مختلف نام:
اردو بچھناک۔ فارسی بیش۔ ہندی بچھناک،بچناک، میٹھا تیلیہ۔ سنسکرت وِش، تیلیا مکھ۔ بنگالی کاٹھ بکھ۔ مرہٹی بچناک۔ گجراتی بچھناک۔ پنجابی میٹھاتیلیہ۔ انگریزی ایکونائٹ(Aconite) اور لاطینی میں ایکونائیٹم نیپلس لینن(Aconitum Naplius Linn) کہتے ہیں۔ نیز اس کے بے شمار فوائد (aconite benefits) ہیں.
شناخت:
یہ ایک زہریلی بوٹی کی جڑ ہے جو عام طور پر سیاہ ہو تی ہے۔ پرانے زمانہ میں اسے بھیڑیے، چیتے وغیرہ جنگلی درندوں کو ہلاک کرنے کے لئے بطور زہر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کی زہریلی حالت کو دور کرنا ماہر حکیموں کا کام ہے۔ اسے دوا کے لئے استعمال کرنے میں بھی خاص قابلیت کی ضرورت ہے۔ پہلے وقتوں میں اس کے پھولوں کی خوبصورتی کے باعث خوبصورتی کے لئے باغوں میں لگایا جاتا تھا لیکن چونکہ اس (aconite) کے پھول توڑنے اور ہاتھوں پر مسلنے سے اس کا زہر یلا اثر ہلاکت کا باعث ہوتا تھا۔ اس لئے اب اس کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ ہندوستان میں کوہ ہمالیہ پر اور پڑوسی ممالک میں ملتا ہے۔
موسم بہار کے شروع یا موسم سرما میں جب اس (aconite) کے پتے نہ آئے ہوں، جڑ حاصل کی جاتی ہے۔ پھول،پتے اور ٹہنیاں اس وقت حاصل کی جاتی ہیں جب پھول ایک تہائی کے قریب کھل چکے ہوتے ہیں۔ اس کا ڈنٹھل بہت لمبا اور اس (aconite) پر گرہی لکیریں ہوتی ہیں، پتے ایک دوسرے کے سامنے اور پھول ارغوانی رنگ جڑدوسے چار انچ تک لمبی، آدھے سے پون انچ تک موٹی اور چھوٹے شلغم کے مطابق ہوتی ہے۔ جڑ کے باہر کے حصّوں پر ٹوٹے ہوئے ریشوں کے نشان ہوتے ہیں۔ یہ (aconite) آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے۔ اس (aconite) میں کسی قسم کی بو نہیں ہوتی۔ ذائقہ کسی قدر میٹھا اور پھر سخت کڑوا، تیز اور چبانے سے چند منٹ میں جھنجناہٹ معلوم ہوتی ہے اور زبان سن ہو جاتی ہے۔آیوروید ماہرین اسے میٹھا، چریرا، کڑواو کسیلا کہتے ہیں۔
ماڈرن تحقیقات:
بچھناک کی جڑ سے ایک نہایت زہریلاجوہر ایکونی ٹین حاصل کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایکونین اور بنزاایکونین دو اور جوہر بھی حاصل کئے گئے ہیں۔ جو پہلے جوہر کی نسبت کچھ کمزور ہوتے ہیں۔
مزاج:
گرم و خشک ہے۔آیوروید کےگرنتھ ان بھت چکتسا ساگر میں بھی اسے گرم و خشک لکھا ہے۔ اسے مدبر(شدھ)کئے بغیر کبھی بھی استعمال میں نہیں لانا چاہئے۔
فوائد:
طب یونانی میں کوڑھ، سفید داغ، کھانسی اور دمہ کے علاوہ پرانے امراض میں مفید (aconite benefits) ہے۔طب آیوروید میں جوانی کی حفاظت کرتا ہے، جوڑوں کے درد اور بخار میں مفید (aconite benefits) ہے۔ اس (aconite) کے لگاتار استعمال سے صحت قائم رہتی ہے۔
طب ہومیو پیتھی میں ایکونائٹ(بچھناک) سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ درد اعضاء پٹھوں کے درد،قے ومتلی میں مفید سمجھا جاتا ہے، ہر قسم کے مرض میں اس کی تیزی کو کم کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔
طب ایلوپیتھی میں جوڑوں کے درد، نقرس، سوزش ہلک اور زہریلے امراض میں بچھناک کا زہر(ایکونائی ٹین) بلغمی جھلی یا زخم پر لگنے سے پہلے تو جھنجھناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ پھر اعصاب کے مفلوج ہونے سے جگہ سن ہو جاتی ہے۔
نوٹ:
اسے میعادی بخار وغیرہ میں جب دل کمزور ہو گیا ہو، ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ نہ ہی بوڑھوں و سانس کے مریضوں کو دینا چاہئے۔ زخمی جلد پر ضماد نہیں کرنا چاہئے۔ کان، آنکھ و کنپٹی کا بچاؤ بھی لازمی ہے۔
اگر بچھناک کو مولی یا جدوار کی بھول میں غلطی سے کھا لیا جائے یا اسکو یا اس (aconite) کے جوہر کو بطور دوا زیادہ مقدار میں کھا لیا جائے یا اسکی (aconite) مرحم یا مالش کو زیادہ استعمال کیا جائے یا زخم وغیرہ پر لگا دیا جائے تو مندرجہ ذیل زہریلی علامات پیدا ہو جاتی ہیں:
منہ میں سوجن، پیٹ میں جلن،قے، ٹھنڈا پسینہ کی زیادتی اور سارے بدن میں سنسناہٹ اور چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوتی ہیں۔ نبض بہت ہی ہلکی اور غیر منتظم ہو جاتی ہے۔ آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ سانس رک رک کر تکلیف سے آتی ہے۔ پٹھے کمزور، ٹانگیں لڑکھڑائی ہوئی اور اعضاء بوجھل معلوم ہوتے ہیں، کبھی کبھی ازحد کمزوری کے باعث مریض کو غش آ جاتا ہے یا تشنج ہوکر دم گھٹ کر یا کبھی غش کے باعث موت ہوجاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ماہرین طب نے جدوار کو پچھنا ک کے زہر کے لئے تریاق بتایا ہے۔
بچھناک (aconite) کے آسان طبی مجربات
درد بادی:
اس (aconite) کے تیل کی مالش سے نہ صرف بادی کے درد دور ہو جاتے ہیں بلکہ لگاتار استعمال سے جوڑوں کے درد کو بھی آرام آجاتا ہے۔
بچھو کا زہر:
اس (aconite) کا لیپ کرنا بچھو اور سانپ کے زہر کو دور کردیتا ہے۔
انگ کا مارا جانا:
بچھناک مدبر(شدھ)، مرچ سیاہ،سونٹھ جاوتری، جائفل، الائچی خورد، ہر ایک برابر وزن لے کر پیس لیں اور لیموں کے رس میں کھرل کرکے کالی مرچ کے برابر گولیاں بنالیں۔ ایک سے دو گولی عرق سونف یاپانی سے دیں۔ ریاحی امراض اور انگ کے مارے جانے اور لقوہ وغیرہ میں مفید (aconite benefits) ہے۔
بچھناک( میٹھا تیلیہ)کے آیورویدک مجربات
آنند بھیروں رس(رسیندرسار):
شدھ گندھک،شدھ سہاگہ،شدھ میٹھا تیلیہ،شدھ شنگرف،ترکٹا، برابر وزن سب کو لیموں کے رس میں کھرل کرکے ایک ایک رتی کی گولیاں بنا ئیں۔ ایک سے دو گولی ہمراہ شہد دیں۔ ہر قسم کے بخاروں میں مفید (aconite benefits) ہے، دستوں کو بند کرتا ہے۔
اگنی تنڈی رس(بھیشج رتنا ولی):
میٹھا تیلیہ شدھ،پارہ شدھ،ترپھلہ،اجوائن دیسی،سجی کھار،جو کھار،جڑچترا،پانچوں نمک، زیرہ کالا،ترکٹا،کچلہ شدھ، سب برابر لے کر کوٹ پیس کر رس لیموں میں کھرل کرکے اور گولیاں بقدر کالی مرچ بنا لیں۔
ایک ایک گولی صبح و شام ہمراہ عرق سونف یا نیم گرم پانی دیں، حرارت ہاضمہ کو تیز کرنے کے علاوہ بھوک (aconite benefits) لگاتا ہے۔ پیٹ کی گیس کو دور کرتا ہے۔غذا میں رغبت پیدا کرتا ہے۔
اجیرن کنٹک رس:
مگھاں، میٹھا تیلیہ شدھ،سہاگہ بریاں، شنگرف شدھ، دس دس گرام، مرچ سیاہ 20 گرام، میٹھا تیلیہ کورس لیموں میں چار گھنٹے تک کھرل کرکے پھر سنگرف ڈال کر دو گھنٹہ تک کھرل کریں۔ بعد میں باقی ادویات اس میں شامل کرکے رس لیموں میں دو دن کھرل کریں اور ایک ایک رتی کی گولیاں بنا لیں۔
ایک سے دو گولی دن میں دو بار کھانا کھانے کے بعد نیم گرم پانی یا عرق سونف سے دیں، بدہضمی، پیٹ درد،اپھارہ،قے،دست، ہیضہ کے لئے مجرب ہے اور آیوروید طب کا مشہور نسخہ ہے۔
تربھون کیرتی رس(یوگ رتنا کر):
شنگرف شدھ،میٹھا تیلیہ شدھ،سہاگہ،پپلا مول، سب برابر برابر لے کر رس تلسی،رس ادرک،رس پتے دھتورا میں تین تین بھاونا ویں۔اب ایک ایک رتی کی گولیاں بنا لیں۔ ایک سے دو گولی ہمراہ شہد دن میں تین بار دیں۔
بادی بلغمی بخار، انفلوئینزا اور نمونیہ کا خاص علاج ہے۔آیوروید گرنتھوں میں اس کی بہت تعریف لکھی گئی ہے۔
شواش کٹھاررس(یوگ رتنا کر):
شدھ پارہ،شدھ گندھک،شدھ میٹھا تیلیہ،منسل شدھ ہر ایک 10گرام، مرچ کالی 80گرام۔
گندھک و پارہ کی کجلی بناکر اس میں میٹھا تیلیہ، سہاگہ، کالی مرچ یکے بعد دیگرے ملائیں۔ بعد میں مرچ ایک ایک ڈال کرکھرل کریں۔ بعد میں سونٹھ، کالی مرچ اور مگھاں دس،دس گرام کا باریک سفوف بنا کر ملا دیں۔ ایک سے دو گولی ہمراہ رس ادرک دن میں دو بار دیں۔
یہ رسائن کھانسی،دمہ، کمزورئ معدہ کے لئے بہت مفید ہے،غشی، بے ہوشی میں صرف سونگھانے سے ہی آرام ہوجاتا ہے، بلغمی کھانسی کے علاوہ آدھے سر درد کے لئے بھی مفید (aconite benefits) ہے۔
مرتنجیہ رس(رسیندرسار):
شدھ میٹھا تیلیہ، کالی مرچ،پپلی، گندھک شدھ، سہاگہ ہر ایک دس گرام، شنگرف شدھ 20 گرام، سب کو پانی کے ساتھ چار روز تک خوب کھرل کرکے مونگ کے برابر گولیاں بنالیں، ایک سے دو گولی ہمراہ شہد یا پانی دیں۔ ہر قسم کے بخار میں مفید (aconite benefits) ہے، چڑھے ہوئے بخار کو کم کرتا ہے، پسینہ لاتا ہے۔ یہ رس بخاروں میں تریاق سے کم نہیں، ملیریا میں سردی لگے تو ایک گولی دینے سے سردی رُک جاتی ہے۔
کشتہ جات میں پچھناک( میٹھا تیلیہ) کا استعمال
کشتہ چاندی:
چاندی کے ورق کو برابر شدھ پارہ کے ہمراہ کھرل کریں، تین گناہ وزن پچھناک کے نغذہ میں رکھ کر 10 کلو اپلوں کی آگ دیں۔ عمدہ کشتہ تیار ہوگا۔
ایک چاول بالائی میں دیں، کمزوری دل و دماغ کے لئے مفید (aconite benefits) ہے۔
دیگر:
بچھناک 20گرام لے کر آک کے دودھ میں تمام رات تر رکھیں،صبح نغذہ بناکر اس کے درمیان چاندی خالص کا روپیہ رکھ کر کپڑے میں لپیٹ کر پانچ کلو کی آگ دیں، کشتہ برنگ سفید برآمد ہوگا۔
ایک چاول بالائی یا مکھن میں دیں، کمزوری کے لئے مفید (aconite benefits) ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
میٹھاتیلیہ/بچھناگ ،بیش(Aconite)
لاطینی میں :
Aconitum (ایکو ناٹم فالکونیری)
خاندان:
Ranuceulaceae
دیگر نام :
عربی میں بیش خالق الذئب،فارسی میں بیش ناگ،پنجابی میں میٹھا تیلیا،مٹھا زہر، ہندی میں سینگھیا، سندھی میں بچھناگ، بنگالی میں تیلیا مکھ، گجراتی میں ہیںو چھناگ ، کاغانی یا موہری، سنسکرت میں وش اور انگریزی میں ایکو نائٹ کہتے ہیں۔
ماہیت:
بیش کا پودا لگ بھگ دو تین فٹ اونچا ہوتا ہے۔ جڑ سے ایک یا دو شاخیں نکلتی ہیں۔ پھول کی ڈنڈی سیدھی ہوتی ہے۔ پھول عموماً نیلا جو کہ اگست میں پیدا ہوتا ہے۔ پھل اکتوبر میں گچھو کی شکل میں لگتا ہے۔ اس کی کاشت بھی کی جاتی ہے۔ نیز یہ جنگلی بھی پیدا ہوتا ہے۔ جڑیں دوہری گانٹھ دار ، جھری دار ہوتی ہیں۔ جن کو انٹھا کر لیا جاتا ہے ۔جڑ اکثر تین یا چات انچ تک لمبی ،آدھا یا پون انچ موٹی ہوتی ہے۔ جڑ کا رنگ باہر سے بھورا، سفید یا سیاہ ہوتا ہے۔ اس میں بو نہیں ہوتی لیکن تھوڑی سے چبا لیں تو منہ میں جھنجھناہٹ معلوم ہوتی ہے ، زبان سن ہو جاتی ہے۔
رنگت:
باہر سے بھورا سیاہ ، اند ر سے سفیدی زردی مائل ۔
ذائقہ :
ہلکا تلخ
نوٹ:
اس کو بہت تھوڑی مقدار میں چبائیں کیونکہ یہ سخت زہر ہے۔ یہی جڑ بطور دوا مستعمل ہے۔ جو شکل میں جدوار کی مانند گاؤ دم یعنی اوپر سے موٹی اور نیچے سے پتلی قریباً دو سے تین انچ لمبی باہر سے شکن دار ہوتی ہے۔بیش کی بہت سی اقسام ہیں لیکن کالی اور سفید رنگت والی زیادہ مفید (aconite benefits) ہے۔
مقام پیدائش:
پاکستان میں کوہ مری ، ایبٹ آباد اور کشمیر میں پہاڑوں پر سطح سمندر سے آٹھ ہزار سے بارہ ہزار فٹ بلندی پر خودرو بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ عموماً برفانی علاقوں کوہ ایلپس ،نیپال ،ہمالیہ جہاں برف پڑتی ہے۔جبکہ برطنیہ میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔بھارت میں یہ ریاست چمبہ اور گانگڑہ میں پیدا ہوتی ہے۔۔ایکونائٹ ایک سال پھلتی پھولتی ہے مگر دوسر ے سال مرجھاتی ہے۔
مزاج:
گرم خشک درجہ چہارم(سم قاتل)
افعل مزاج:
دافع بخار ، مسکن اوجع ،مقامی مخدر ،مدر بول ، نافع امراض سوداویہ وبلغمیہ، مسیح جلد
استعمال:
بیش کو دافع بخار ہونے کی وجہ سے مدبر کر نے کے بعد دیگر مناسب ادیہ کے ہمراہ گولیاں بنا کر استعمال کرتے ہیں لیکن تحقیق جدید سے پیشش ایسے بخاروں میں زیادہ مفید ہے۔ جو کسی عضو کے ور م (التہاب) کی وجہ سے ہوں مثلاً حمیات ورمیہ (سوزش کی وجہ سے بخار) جیسے ذات الریہ (نمونیہ) (پھیپھڑوں کا ورم) ذات الجنب(پسلیوں کا ورم) میں استعمال کرتے ہیں۔
بیش مسکن اوجاع بھی ہے لہذا بخار کو دفع کرنے کے ساتھ یہی درد کو بھی تسکین پہنچتا ہے۔ مسکن وجع اور مقامی مخدر ہونے کی وجہ سے بیرونی طور پر عصبی دردوں مثلاً شقیقہ ،عصابہ ،عرق النسائ وغیرہ میں یا اندرونی طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔ مہیج اور محرک ہونے کی وجہ سے طلاوں و ضماد میں بھی استعمال کرتے ہیں۔بیش دوران خون کو تیز کر کے کمزور عضو کو طاقت دیتا ہے۔ ذکی الحس عضو میں اس کا طلائ بہت مفید ہے۔مدربول وحیض میں سردی کی وجہ سےادراربول و حیض میں استعمال کیا جاتا ہے۔خصو صاً اجتہباس حیض میں جو سردی لگتے سے لاحق ہو ۔بیش کو امراض سوداویہ و بلغمیہ میں نافع ہونے کی وجہ سے جذام ،ضیق النفس،پرانی کھانسی ، قروح خبیث میں بھی استعمال کیاجاتا ہے۔
سخت احتیاط:
بیش ایک سمی اور چوتھے درجے کی دوائ ہے لہذا اس کو مدبر کرنے کے بعد استعمال کرنا چاہیئے۔
مدبر کرنے کا طریقہ:
ایک مٹی کے برتن (ہانڈی ) میں دو سیر(کلو ) دودھ گائے ڈال کر پیش دو تولہ (بیس گرام) کی ایک پوٹلی بنا کر ڈولا جنتر (درمیان سے معلق کرکے) کے ذریعہ ہلکی آنچ میں پکائیں۔جب دودھ کھویا بن جائے تو نیچے اتر کر گرم پانی سے دھو کر خشک کرکے سفوف بنالیں ۔یہ سفوف بطور دوائ استعمال کریں اور کھویا کو زمین میں دفن کر دیں۔تا کہ کوئی جانور کھاکر ہلاک نہ ہو جائے ۔
بیش کھانے کے بعد مسموم کی علامات:
بیش کو اگر زیادہ قدار میں اورمدبر کئے بغیر استعمال کیاجائے تو تھوڑی دیر کے بعد زہریلی علامات شروع ہو جاتی ہیں۔
منہ اور مری ( خوراک کی نالی) میں شدید جھجھناہٹ اور سوزش ہو کر بے حس پیدا ہو جاتی ہے۔ پیٹ میں شدید سوزش پیدا ہو جاتی ہے اور قے آتی ہے۔ جلد سرد اور چپچچی ہو جاتی ہے۔بکثرت پسینہ آنے لگتا ہے۔تمام جسم پر چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہو تی ہیں۔نبض صغیر ، منتظم اور پتلیاں کشادہ ہو تی ہیں ،مریض کی ٹکٹکی بندھ جاتی ہے۔سانس دقت سے آتا ہے۔عضلات میں کمزوری اور ٹانگیں لڑکھڑانے لگتی ہیں۔ کمزوری کے باعث غشی ہوتے لگتی ہے۔ شدید ضعیف کی وجہ سے غشی آنے لگتی ہے۔آخر کار مسموم سانس بند ہو کر غشی کے سبب سے مریض مر جاتا ہے۔
مسبموم علاج:
انبوبہ معدیہ(اسمک ٹیوب) سے معدہ کو دھوئیں یا بار بار قے کرا دیں تا کہ معدہ زہر سے صاف ہو جائے ۔اسکے بعد دوالمسک یا جدوار یا مشک استعمال کرائیں۔
تریاق:
جدید تحقیق سے کچلہ یا جوہر کچلہ (اسڑکینا ) بھی اس کا تریاق ثابت ہوا ہے۔
نفع خاص:
بعض اطبائ کا خیال ہے کہ اس کو مدبر کر کے استعمال کرنا ہر مرض کے لئے مفید (aconite benefits) ہے۔
بدل :
جدوار۔
مصلح:
برگ بیدانجیر،قے کرانا میں۔
مضر:
سم قاتل(غیر مدبر)
جدید تحقیق:
اس کی جڑ میں ایک سخت زہریلا الکائیڈ کھاری جو ہر جس کو ایکونائی ٹن(Aconitine) .98سے.23فیصد ہوتا ہے ۔ یہ اصلی جو ہر ہے اس جوہر کی طرح سیوڈوایکونیٹس، نپر ایکو نیٹس ایک اور جوہر بھی ہوتا ہے جو چالیس تولہ جڑوں میں لگ بھگ چار سو ا چار ماشہ نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ پکرے کونائی ٹین ، ایکوٹن ، ایکو نی ٹک ایسڈ ، نیزی ایکوٹن ہومو نے پیلسین بھی تھوڑی مقدار میں ہوتا ہے۔
مقدار خوراک:
ایک سے دو چاول
مشہور مرکب :
جب نقرہ۔ حب راحت، دوائے ڈپٹی صاحب ،حب مفید(طب نبوی دواخانہ)
خاص بات :
آیورویدک میں بیش کو پارے اور گندھک کے طور پر کثرت سے استعمال (aconite benefits) کرتے ہیں ۔بیش کی ایک قسم کا نام کشمیر اور ہزارہ میں موہری ہے مشہور مثال ہے کیا پکا لے بیگم ۔۔۔جلی بجھی بیگم بولی ،موہری کی دال۔ پہلےزمانے میں جنگوں کےدرمیان افریقہ کے وحشی لوگ اپنے تیروں کو بیش کے زہر میں بجھاتے تھے۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق