مختلف نام:سنسکرت کھیر بداری۔ ہندی بداری کند۔ گجراتی بداری کند۔ بنگالی بھوئی کامڑا۔ مرہٹی دودھ بھوئی کوہڑا۔لاطینی آئی پومیاپینی کو لیٹا۔آئی پو میا ڈجی ٹاٹا(ImomoeaDigitata)،کان وہل وہس پینی کولینا(ConnvolvucusPaniculata)۔
شناخت:اس کے کند اور پھول ادویات کے کام میں آتے ہیں۔کند بڑھیا طاقت دینے والا ہوتا ہے۔ پٹنہ( بہار) کی طرف اس کے سوکھے پھلوں کا سفوف ایک سے دو رتی کی مقدار میں طاقت دینے والی دوائی کی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔ پھل،گچھوں میں گول چھوٹے چھوٹے چار پرت والے لگتے ہیں۔ روئی سے ڈھکے ہوئے آگے گول بیج رہتے ہیں۔ بارش کے موسم میں انہی بیجو ں سے بیل پیدا ہوتی ہے۔
کند:شکل و صورت میں شکر قند جیسا، وزن میں زیادہ سے زیادہ ایک کلو تک، بھورے رنگ کا کھردرا ہوتا ہے۔کاٹنے پر اندر سے سفید رنگ کا اور اس میں بہت دودھ( کھیر) نکلتا ہے۔ اس لئے یہ کھیر بداری کہلاتا ہے۔ اس کا ذائقہ کچھ کسیلا اور تلخ سا ہوتا ہے۔
یہ بیل ہندوستان میں بنگال و آسام کے سیلاب والے جنگلوں اور باغوں میں بوئی جاتی ہے۔ زیادہ سوکھےعلاقوں میں یہ پیدا نہیں ہوتی۔ پتے چھ سات انچ لمبے اور گول اورپان کی طرح ہوتے ہیں۔ پھل چمکیلا لال، اندرائن کے پھل جیسا ہوتا ہے۔کنڈ بڑا پیٹھے کی طرح اور کڑواپن لئے ہوئے ہوتا ہے۔
ماڈرن تحقیقات: اس کند میں سٹارچ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شکر دس فیصدی اور بہت معمولی مقدار میں رال بھی پائی جاتی ہے۔
مقدار خوراک:کند سفوف ایک سے چار گرام تک۔
فوائد:کند جسم کے وزن کو بڑھاتا ہے۔ کسی بھی وجہ سے آئی کمزوری کو دور کرتا ہے۔ اس کے سفوف 3گرام کو خالص گھی میں بھون کر دودھ اور چینی ملا کر استعمال کرنا جلد وزن بڑھاتا ہے۔ ایلوپیتھک دوا کاڈ لور آئل کے مقابلہ میں اس سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ جگر اور تلی کے امراض میں اس کا استعمال فائدہ مند ہے۔ دودھ پلانے والی عورتوں میں اس کا استعمال دودھ کی مقدار بڑھانے میں بہت مفید ہے۔
بداری کند(کھیر بداری) آزمودہ مجربات درج ذیل ہیں:
1۔بداری کند کے خشک کند کا سفوف 5 رتی کی مقدار میں تلی و جگر کے دور کرنے میں مفید ہے۔
2۔تازہ کند کو پیس کر تلی کے تیل میں ملا کر سفید داغوں اور زخموں پر لگانے سے انہیں آرام آجاتا ہے۔
3۔اس کے پھولوں کا سفوف ایک سے تین رتی کی مقدار میں شہد میں ملا کر دیں، مردانہ صحت کے لئے مفید ہے۔
نوٹ:بداری کند(کھیر بداری) کے دوسرے فائدے بداری کند کی طرح ہیں جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔
پریوار کلیان( خاندانی منصوبہ بندی) کے لئےمفیدبوٹی بداری کند
ڈاکٹر اواین کول نے لکھا ہے کہ بھارت کو اس وقت آبادی کے دھماکے کے جس مسئلے کا سامنا ہے اس کو حل کرنے میں ایک جنگلی پودے بداری کند(پیوریریاٹیوبرسا)کئی گنٹھے بہت معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس پودے کے گنٹھے نہ صرف یہ کہ مانع حمل ہیں بلکہ ان میں عورتوں کو جوان رکھنے کے خواص بھی موجود ہیں۔
یہاں اس جنگلی پودے کو بداری کند کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ انڈین کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی ریجنل ریسرچ لیبارٹری کے ڈائریکٹر سی کے اٹل کا کہنا ہے کہ یہ جنگلی پودا تمام ملک میں پایا جاتا ہے۔ ریسرچ لیبارٹری نے اس پودے کے متعلق تحقیق اس وقت شروع کی جب کہ اسے بتایا گیا کہ بعض خانہ بدوش قبیلے اس پودے کو حمل روکنے کی غرض سے استعمال کرتے ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر میں خانہ بدوشوں کی دو جاتیاں بکروال اور گوجر بہت مشہور ہیں۔ سروے پر معلوم ہوا کہ آسام کے بعض قبائل اس پودے کو اس مقصد سے استعمال کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کے بعض دوسرے حصوں میں بھی بعض قبیلے اس پودے کے گنٹھے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یہ بھی روشنی میں آئی ہے کہ جو عورتیں اس پودے کے گنٹھے استعمال کرتی ہیں ۔ان کے چہرے پر جھریاں عام طور پر نہیں پڑتی ہیں جس سے ظاہر ہے کہ کہ ان گنٹھوں میں ایسے اجزاء ہیں جو خون میں مل کر ایک فرحت بخش اثر پیدا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اٹل نے انکشاف کیا کہ یوپی کے علاقے میں ترائی میں بعض سادھو جسم میں بیماریوں کے تیئں مزاحمت پیدا کرنے کی غرض سے اس پودے کے گنٹھے استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں۔ وہ ان گنٹھوں کو پانی میں اکیلے یا دوسری جڑی بوٹیوں میں ملا کر استعمال کرتے ہیں۔ یہ گنٹھے آیوروید کی شہرہ آفاق دوائی ہے’’چیون پراش‘‘میں بھی ڈالے جاتے ہیں۔
اس کے پودے سے شراب کشید کرکے اسے حاملہ چوہیوں کو دی گئی تو یہ معلوم ہوا کہ یہ شراب زرخیز انڈے کو بچہ دانی میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر اس بوٹی کے استعمال کے اثرات کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اٹل نے کہا کہ اس کے متعلق سیر حاصل تحقیق کی جا رہی ہیں کہ اس بوٹی کے استعمال سے جسم انسانی کے مختلف حصوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کارآمد اجزاء کو علیحدہ کرنے کی سعی بھی جاری ہے۔
تاہم اب تک جو بھی تجربات کیے گئے ہیں۔ ان سے ظاہر ہے کہ یہ جڑی ایک بہت ہی مفید مانع حمل ہے۔ بداری کند ایک سارابرس ملنے والی بیل ہے جس کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور سوکھے کے شکار علاقوں کے سوائے ملک بھر میں بارہ سو میٹر کی بلندی پر عام ملتی ہیں۔ اس کی سوکھی جڑیں بازار سے بداری کند کی آبداری کے نام سے عام ملتی ہیں ان جڑوں کا مزا میٹھا ہوتا ہے اور انھیں عام طور پر دردریح کے علاج کے لئے یا طاقت ایسی دوائیوں میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
براہی کند مردانہ امراض کے لئے مفید
زیادہ تعداد میں معالج براہی کند اور بداری کند کو ایک ہی بوٹی سمجھتے ہیں۔ براہی کندکو لاطینی میں ’’ڈائے سکوریا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔
جنگلی اور گھریلو، ذائقہ میں بھی یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ جنگلی کسیلا اور گھریلو میٹھا۔ اس کےپتے پان کے پتوں سے کچھ بڑے ہوتے ہیں۔ اس کے پھل کو چیت یا بیساکھ میں زمین میں گاڑ دینے سے بیل نکل آتی ہے۔ اس بیل میں ویسے ہی کئی پھل لگتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے گھریلو میں پھل بڑے بڑے ہوتے ہیں اور جنگلی کے بہت چھوٹے چھوٹے۔ زمین میں دبا ہوا پھل ہر سال بڑھتا جاتا ہے۔ پانچ سال میں اس کا قد ناریل کے پھل کے برابر ہوجاتا ہے۔ اسکند کے اوپر جڑھیں نکلتی ہیں۔ اس لئے اسے برا ہی کرد کہتے ہیں اور اسے مردانہ امراض کے علاج کے لئے بہت ہی مفید مانا گیا ہے۔
بداری کند:جس طرح شکر قند کی بیل کو مٹی میں دبانے سے اس سے نکلا ہوا انکر کند کی صورت حاصل کر لیتا ہے۔ ٹھیک وہی حالت اس کی بھی ہوتی ہے مگر اس کے پتے ایک شاخ میں تین، لمبے اور شکل میں بڑے ہوتے ہیں۔ اس کی بیل و پتوں کو گھوڑوں کو کھلایا جاتا ہے۔ اس کے استعمال سےوہ صحت مند ہو جاتے ہیں۔
مقامی لوگ ان کندوں کو کچا آگ میں بھون کر کھاتے ہیں۔ گلو کی طرح اس کا ست بھی بنایا جاتا ہے جو بہت ہی مفید ہوتا ہے۔
براہی قند کے فوائد لگ بھگ وہی ہیں جو بداری کند کے ہیں اور یہ مردانہ امراض میں بہت ہی مفید ہے
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
بداری کند (با را ہی کند)(I.Digata)
دیگر نام:سندھی میں جو بہن جڑی ،پہا ڑی نام سیا لیا ں ،بنگالی میں بھو ئن کمہڑا یا بھو ئی کمہڑا،تیلگو میں نیل کمہڈ ،مر ہٹی میں ڈکر لند ،گجراتی میں ڈکر کند،انگریز ی میں ائی پو میا ڈیجی ٹیٹا ۔
ما ہیت :بداری کند ایک بیل دار نبات کی جڑ پے۔اس کی شکل زمین کند سے ملتی ہے۔رنگ سرخی مائل ہو تا ہے۔اس کے پتے اروی کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں۔جو تقریبا چار انچ لمبے اور تین انچ چوڑے ہوتے ہیں۔اور تین تین اکھٹے ڈھا ک کے پتوں کی مانند لگے رہتے ہیں۔پھول بیگنی رنگ کے موسم برسات میں کھلتے ہیں۔ہندی میں بدار زمین کو اور کند جڑ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے ۔اور بداری کند کی جڑ ہی بطور دوا مستعمل ہے۔یہ گردہ دار جڑ زمین میں بہت گہری ہوتی ہے۔اس کا حجم شکجم سے لیکر پیٹھے تک ہوتا ہے۔یہ زمین کھود کر نکالی جاتی ہے۔اس کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے خشک کر لیا جاتا پے ،ورنہ سڑ جاتی ہے۔
رنگ: باہر سے سرخی مائل جبکہ اندر سے دودھ کی طرح سفید ۔ذائقہ : شریں ۔
مقام پیدائش: شملہ کا لکا ،ڈیرہ دون،پٹھان کو ٹ ضلع کا نگڑہ ۔اودے پور ،کوہ آبو،ریاست جموں و کشمیر۔
مزاج: گرم تر،وئید کتب کے حوالے سے سرد تر۔
افعال:محفظ منی مقوی باہ،محلل،مولد شیر،مسمن بدن۔
استعمال:براری کند زیادہ تر بطور نا نخورش مستعمل ہے ۔بھوک پیدا کرتی ہے،مقوی اعضاء اورمقوی باہ ہے۔عورت میں دودھ کی کمی دور کرنے کے لئے اسکو خشک کر کہ مفرد یا دیگر ادویہ کت ہمراہ سفوسف بنا کر کھلاتے ہیں۔اگر بچہ لاغر و کمزور ہو تو اسکو موٹا تازہ بنانے کے لئےسفوف بداری کند ایک ماشہ شہد میں ملا کر روزانہ استعمال کراتے ہیں ۔بداری کند کو خشک کرنے کے بعد تنہا یا دیگر مناسب ادویہ کے ہمراہ سفوف بنا کر جریان ضعف باہ میں کھلاتے ہیں ۔ورموں کو تحلیل کرنے کے لئے پانی میں پیس کر ضماد کرتے ہیں ۔سادھو لوگ آبادی سے دور رہتے ہیں اور تارک الدنیا ہیں اسی کو کھا کر گزر اوقت کرتے ہیں ، جڑ کو کھود لاتے ہیں ۔آگ میں رکھ کر پکا لیتے ہیں
نفع خاص:مقوی معدہ۔مضر:گرم مزاجوں کے لئے
مزید تحقیق: اس میں رال ، شکر اور کافی مقدار میں نشاستہ پایا جاتا ہے۔
مقدار خوراک :بداری کند خشک مسفوک ایک سے چھ گرام (ماشے)
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق