دل کی بیماری
دل کو متاثر کرنے والی کسی بھی بری حالت سے مراد دل کی بیماری ہے۔ جو قلبی نظام کو متاثر کرتی ہے۔امراض قلب دل کی بیماری ایک عام صحت کا مسئلہ ہے۔
امراض قلب کی اقسام
دل کی بیماری کی بہت سی اقسام ہیں ، اور وہ دل اور خون کی وریدوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہیں۔جن میں سے دل کی کچھ بیماریوں کو پیدا ہونے اوربڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔لیکن دل کی بیماریوں کی جینیاتی وجہ پر قابو نہیں پا یا جاسکتا ۔
1۔ کورونری دمنی ۔
دل کی بیماری کی سب سے عام قسم کورونری دمنی کی بیماری ہے۔کورونری دل کی بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل کو خون پہنچانے والی شریانیں پلاک سے بند ہوجاتی ہیں۔ پلاک میں کئی مضر مادےاور خراب کولیسٹرول ہوتاہے۔ جس سے خون کی شریانیں تنگ اور سخت ہو جاتی ہیں اور جس کی وجہ سے دل تک خون نہیں پہنچ پاتا ہے یا دل تک خون کی فراہمی کم ہوجاتی ہے۔اور دل کم غذائی اجذاء حا صل کرنے کی وجہ سے صحت مند نہیں رہتا دل کے پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں ۔ اور دل فیل ہوجاتا ہے اوراس سے اریٹیمیا کا خطرہ بھی بڑھ جا تا ہے۔جب دل کو خوں پہنچانے والی شریانوں میں پلاک بنتا ہے تو یہ خون کے بہاؤ کو روکتاہے ، جس سے دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔
2۔ دل کے والو کی بیماری ۔
اس بیماری میں دل کے چار والو میں سے ایک والو یا ایک سےزیادہ والو خراب ہوجائیں اوراپنا کام ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دے پاتے تو دل کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔
3۔ دل کی پیدائشی خرابیاں ۔
دل کی خرابی پیدائشی بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی کسی انسان میں پیدائش سے ہی دل کی کوئی خرابی ہو سکتی ہے ۔جو دل کےکام کرنے کے طریقے پر اثرڈالتی ہے ۔ دل کی پیدائشی خرابیاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں ۔مثلاً دل کے والوز کی خرابی کہ کچھ افراد کے دل کے والوز پیدائش سے ہی بند ہوتے ہیں یا ٹھیک سے نہیں کھل سکتے ، یا وہ خون کو لیک کر سکتے ہیں۔ یا دل میں پیدائش سے ہی کوئی سوراخ ہونا وغیرہ
4۔ اریٹھیمیا ۔
اریٹھیمیا، دل کی اس بیماری کا تعلق دل کی دھڑکن سے ہے۔یعنی دل کی دھڑکن کا بےقاعدہ ہونا جیسے دل کا تیز دھڑکنا یا دل کا آھتہ دھڑکنایعنی سست دھڑکن یا دل کی بے قاعدہ دھڑکن۔ اس میں انسان ایک دم دل کا پھڑپھڑانا بھی خود محسوس کرسکتا ہے اورایک دم دل تیز چلنا بھی محسوس کر سکتاہے۔ اس طرح دل کی تیز یا سست دھڑکن دل سے متعلق کئی پیچیدگیاں پیدا کرسکتی ہیں ۔ اور جان لیوا بھی ثا بت ہو سکتی ہے۔
5۔اینڈوکارڈائٹس ۔
اس میں دل کے والوز اور چیمبروں میں بیکٹیریل یا فنگل انفیکشن کی وجہ سے سوزش ہو جاتی ہے۔
6۔کارڈیو مایوپیتھی۔
یہ دل کے پٹھوں کی بیماریاں ہیں۔ اس میں دل کے پٹھے پھیل جاتے یا بڑھ جاتے ہیں یا سخت اور پتلے بھی ہو جاتے ہیں۔ پٹھے پھیلنے کیوجہ سے دل کمزور ہو جاتا ہے اور خون کو مناسب طریقے سے پمپ نہیں کر سکتا۔اس کی وجہ جینیات موروثی بھی ہو سکتی ہے اور ماضی کا کوئی دل کا دورہ بھی پٹھوں کے پھیلنے اور پتلے ہونئ کی وجہ بن سکتاہے۔ جس کی وجہ سے، دل میں خون کا جمنا، اریٹیمیا اور ہارٹ فیل بھی ہوسکتا ہے۔
7۔مایوکارڈیل انفکشن ۔
خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کے سبب د ل کے پٹھوں کو نقصان پہنچنے کے سبب دل کے دورے خون کا جمنا شامل ہے۔ یہ د ل کے پٹھوں کو یا اس کے کچھ حصوں کو تباہ کرسکتا ہے۔کسی شریان کا اچانک تنگ ہوجانا کورونری دمنی کی بیماری ، ہائی بلڈ پریشر ، اریٹیمیاس اور کئی وجوہات سے ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے دل کی مناسب طریقے سے پمپ کرنے یا آرام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتے ہیں۔
8۔ہائپر ٹرافک کارڈیو مایوپیتھی ۔
جب جینیاتی یعنی موروثی مسئلہ دل کے پٹھوں کو متاثر کرتا ہے تو دل کےپٹھوں کی دیواریں موٹی ہو جاتی ہیں اوران کا سکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے دل میں خون لینے اور پمپ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس بیماری کی کوئی علامات نہیں ہوتی ہے ، اور یہ بیماری وقت سے پہلے تشخیص بھی نہیں ہوسکتی ہے۔
9۔ مائٹرل والو ریگریشن ۔
جب دل کی اس بیماری میں مائٹرل والو جب مضبوطی سے بند نہیں ہوتا اور خون دل میں واپس بہنےلگتاہے۔تو دل کی یہ بھی ایک بیماری ہے۔
دل کی بیماری کی علامات
چونکہ دل کی بیماریوں کی کئی اقسام ہیں اس لئے دل کی کچھ بیماریوں کی تو علامات ظاہر ہوتی ہیں لیکن دل کے کچھ امراض ایسے بھی ہیں جن کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ۔ اس لئے علامات دل کی بیماری کی قسم پر منحصر ہوتی ہے۔ پھر بھی چند عام علامات کا یہان ذکر کریں گے کہ یہ علامات دل کے امراض کی طرف اشارہ کر تی ہیں۔
مثلاً ، سانس لینے میں دشواری محسوس ہونا ، انجائنا یا سینے میں درد،سینے پر دباؤ ، بھاری پن ، دم گھٹنا، دل کی دھڑکن کا بے قاعدہ ہونا،تھکاوٹ محسوس کرنا، سر میں درد ہونا، چکر آنا، بازو میں درد ، جبڑے میں درد ، کمر یا ٹانگ میں درد، پسینہ آنا ، متلی ہونا ، بے چینی، ٹخنوں میں سوجن اور پیٹ میں درد
بچوں میں ، پیدائشی دل کی خرابی کی علامات میں سائنوسس ،بے ہوشی ، جلد کا نیلا پڑجانا ، اور ورزش کرنے میں تھکن ، سانس کا پھولنا ہوسکتی ہیں۔دل کا رک جانا اور جسم کا مزید کام نہیں کر نا ہارٹ اٹیک کی نشانی ہے۔ایسی صورت میں فوراً طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
امراض قلب کی وجوہات
دل کی بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جبپورے دل یا دل کے کسی بھی حصے کو نقصان پہنچتا ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ خون کی وہ شریانیں یا رگیں جو دل کو خون پہنچاتی ہیں ان میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے، دل کومناسب آکسیجن اور غذائی اجزاء کی فراہمی کسی وجہ سے کم ہوجائے، دل کی دھڑکنوں میں بے قاعدگی پیدا ہوجائے ، دل کی بیماری کی وجہ جینیاتی یعنی موروثی بھی ہوسکتی ہے. اور طبی حالات، ادویات کا زیادہ استعمال ، طرز زندگی کے طریقےاور کچھ غذاؤں کا استعمال بھی امراض قلب کےخطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ تمباکو نوشی ، بڑھتی عمر ،جسمانی وزن کا زیادہ ہونا یا موٹاپا، ذیابیطس کا مرض، ہائی بلڈ پریشر،کولیسٹرول کی زیادتی، بیٹھے رہنا اعلی تناؤ یعنی ہائی ڈیپریشن اور اضطراب ، شراب کا زیادہ استعمال ،دل کی بیماری کی موروثی خاندانی وجہ ، غذائی انتخاب، کم سرگرمی کی سطح یعنی جسمانی طور پر کم فعال رہنا ،نیند کی کمی وغیرہ غیر صحت مند غذا اور یہ سب امرض قلب کی بیماری پیدا کرسکتے ہیں۔
علاج
علاج کے مختلف طریقے ہوتے ہیں جو کہ دل کی بیماری کی قسم پر منحصر ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ عام حکمت عملیوں میں طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر ، صحت مند طرز زندگی ورزش یا کچھ حکمت عملی اپنا کر ، صحت مند وزن کو برقرار رکھ کر، دواؤں کےذریعے ، اور سرجری کروا کر جب ادویات کارگر نہ ہوں امراض قلب پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
روک تھام
کچھ طرز زندگی کے اقدامات دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ جن میں یہ شامل ہیں۔
متوازن غذا، صحت بخش غذا جو دل کی صحت کے لئے بہترین ہو استعمال کریں ایسی غذا کا انتخاب کریں جو فائبر سے بھرپور ہو ں اور تازہ سبزیاں پھل وغیرہ اپنی روزمرہ کی خوراک میں شامل کریں ۔ اس کے علاوہ جنک فوڈ، پروسیسڈ فوڈز اور غیر ضروری چکنائی ، نمک اور شکر سے اجتناب کریں۔ روزانہ باقاعدگی سے ورزش دل کو مضبوط بناتی ہے، کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھتی اور بلڈ پریشر کو نارمل رکھتی ہے۔ تمباکو نوشی قلبی امراض کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔اس لئے اس سے پرہیز ضروری ہے۔ ہائی بلڈ پریشر ، کولیسٹرول موٹاپا اور ذیابیطس کا سدباب بھی ضروری ہے۔اس لئے ایسی غذاؤں اور دواؤں کا استعمال جو انکو کنٹرول کرتی ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف جسم کی مجموعی صحت بہتر ہوگی بلکہ امراض قلب کے خطرے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
مضمون نگار : فرح فاطمہ