دھان پاک و ہند میں ہر جگہ کاشت کیا جاتا ہے۔ پرانے آیورویدو یونانی گرنتھوں میں بھی دھان و چاول کا ذکر ملتا ہے۔ مختلف قسم کے چاولوں میں روپ رنگ اورماپ میں بہت فرق ملتا ہے۔ خوراک کے نظریہ سے چاول میں خاص چیز سٹارچ ہے۔ مگر چاول کی قسموں میں امیلوج کی مقدار میں کافی فرق ملتا ہے۔ صورت میں بڑے اور اچھے چاولوں میں امیلوج 17.5 فیصدی تک ملتا ہے۔ جب کہ خراب قسم کے چاولوں میں وہ بالکل نہیں ملتا۔چپچپے چاولوں کا پورا حصہ ہی امیلوپیکٹین ہی ہوتا ہے۔ نئے چاول میں سٹارچ کی مقدار 74.9۔ 72.2۔ گلوکوز کی 1.45-2.65،سکریز کی 0.30سے 0.48 اور ڈیکسٹرین کی مقدار1.65سے 2.75 فیصدی ہوتی ہے۔
چاول کے سٹاک کرنے سے اس کے کاربوہائیڈریٹ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ چاولوں کے کچھ نمونوں میں بہت ہیں معمولی مقدار میں فیکٹوز، گلیکٹوزورفینوز بھی ملا ہے۔ کچھ پرانے چاولوں میں مائٹوز،آئسومامالٹوز،مالٹوٹری اوز کے بھی حصے ملتے ہیں۔
چاول،گیہوں اور جوار کے رسائنک اجزاء
رسائنک اجزاء | چاول | گیہوں | جوار | ||
ہاتھ کاکُٹاہوا | مل کاتیار | چوکردارآٹا | چوکر نکلا میدہ | ||
پروٹین فیصدی | 8.9 | 7.6 | 11.1 | 9.30 | 10 |
چکنائی فیصدی | 2.0 | 0.3 | 1.7 | 1.0 | 4.3 |
کاربوہائیڈریٹ فیصدی | 77.2 | 79.4 | 75.5 | 77.2 | 73.4 |
کھجا فیصدی | 1.0 | 0.2 | 2.4 | 0.4 | 2.3 |
معدنی نمک فیصدی | 1.9 | 0.4 | 1.8 | 0.5 | 1.5 |
تھیامین فیصدی | 5.3 | 0.6/1.0 | 3.2/7.7 | 0.87 | 4.4 |
ریبوفلیوین فیصدی | 0.8-10 | 0.28 | 1-1.2 | 0.40 | 1.30-1.5 |
نکوٹینک ایسڈ فیصدی | 55 | 15-20 | 53 | 10.0 | 21 |
پلیٹوتھینک ایسڈ فیصدی | 17 | 6.4 | 13.4 | 5.70 | 8 |
پیری ڈاکسین فیصدی | 10.3 | 4.5 | 4.6 | 2.20 | ……. |
کولائن کلورائیڈ فیصدی | ……. | 8.80 | 920 | 520 | 370 |
چاول میں پروٹین کی مقدار گیہوں وجوار سے کم ہوتی ہے۔ بس اتنا ہی فرق ہے، نہیں تو خوراک کے نظریہ سے یہ تینوں ہی برابر ہیں۔ اوپر دیئے گئے نقشہ سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے
ہاتھ کا کٹا چاول بی قسم کے کچھ وٹامنوں کے لئے اچھا ہے۔ خاص طور پرتھیامین،پینٹو تھینک ایسڈ وپائری ڈاکسین کے لئے۔چاول میں ریبو فلیو ین کم مقدار میں ہوتا ہے اور اسکاربالک ایسڈ کی اس میں کمی ہوتی ہے۔ چاولوں میں وٹامن اے وڈی بھی بہت کم مقدار میں ہوتا ہے لیکن وٹامن ای کی کافی مقدار ہوتی ہے۔
چاول میں تھیامین ہوتا ہے سفید چاول کی نسبت رنگین چاولوں میں تھیامین زیادہ ہوتا ہے۔
معدنی نمکیات کے نظریہ سے چاول دیگر خوراکوں کے برابر ہے مگر پالش کئے جانے پر اس کے بہت سے وٹامنز نکل جاتے ہیں۔ پالش کیا ہوا چاول کیلشیم و لوہا کے نظریہ سے بھی کم اثر ہو جاتا ہے ۔
چاول میں پروٹین کی مقدار
قسم | فی صد ی پروٹین کی مقدار | پروٹین کامعیار | پران شاستر یہ مولیہ | ہضم کی طاقت |
ہاتھ کا کوٹا ہوا چاول | 7.5 | 6 | 72.7 | 96.5 |
پالش کیاہوا چاول | 6.5 | 6 | 66.6 | 98.0 |
چاول کی جلد | 12.3 | 5 | 81.9 | 77.6 |
پالش میں نکلا حصہ | 12.7 | 5 | 82.9 | 91.3 |
چاول کی طاقت | 14.9 | 6 | 78.1 | 86.9 |
چاول میں جو بھی پروٹین ہوتا ہے۔اس کا 1/4 حصہ اوپر کے چھلکا اور پالش میں ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا نقشہ سے چاول اور اس کے مختلف اجزاء کے ہضم ہونے کی طاقت ظاہر ہو جاتی ہے۔
چاول ہندوستان و پڑوسی ملکوں میں یعنی ہر ملک کے باشندے اپنی اپنی ضروریات اور لوازمات کے مطابق بصد شوق استعمال کرتے ہیں مگرہندوستان میں یہ من بھاتی خوراک ہے۔
ماہرین طب کا نظریہ ہے کہ چاولوں میں نشاستہ کے اجزاء سب سے زیادہ ہوتے ہیں مگر کیلشیم نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے یہ ہلکی غذا ہے۔ مشین سے صاف کیے ہوئے چاول ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ کیونکہ ان میں وہ وٹامن جو چھلکے میں ہوتے ہیں۔ ضائع ہو جاتے ہیں۔
ان کو ابال کر کھانے کی صورت میں پیچ کو ہر کو ہرگز ضائع نہ کریں۔پلاؤاسی لئے سب سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے کیونکہ اس میں گوشت کھانے والوں کے لئے گوشت کی یخنی ہوتی ہے۔ دوسرا اُسے ابال کر پیچ ضائع نہیں کی جاتی۔
پالش کئے ہوئے چاول لگاتار کھانے سے قوت ہاضمہ کمزور ہو جاتی ہے۔ اس لئے ایسے چاول اگر کھانے ہی ہو تو ان میں خالص گھی ضرور شامل کر لینا چاہیے اور اگر کچھ عرصہ متواتر کھانے پڑیں تو ان میں دال ضرور ڈال لینی چاہئے کیونکہ چاولوں میں اجزائے لحمیہ (Protine)کم ہوتے ہیں اور یہ کمی دالوں وغیرہ سے پوری کی جاسکتی ہے۔
اب ہم طبی نقطہ نظر سے چاولوں کے کچھ فوائد درج ذیل کرتے ہیں۔
1۔ بڑھیا چاولوں کی مانڈ(پیچ) مکھن گائے، چینی حسب ضرورت ملا کر دیں، بندش پیشاب کے مریضوں کو دن میں تین چار بار پلانے سے پیشاب کھل کر آنے لگتا ہے
2۔ اگر جلاب لینے کے بعد انہیں بند کرنے کی ضرورت پڑے، تو صرف خشک چاول سے ہی جلاب بند ہو جاتے ہیں۔
3۔ شدید پیچش میں دہی،چاول دن میں دو تین بار دینے سےآرام آجاتا ہے لیکن دودھ چائے سے پرہیز لاز می ہے۔تین چار عدد کیلے کھا لینے سے بھی جلد آرام آجاتا ہے۔
4۔ پیٹ میں زیادہ درد ہو تو بطور چاول اور مونگ کی دھلی دال ملا کر کھچڑی بنا کر کھلانے سے آرام آ جاتا ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
(Rice) چاول’برنج‘
دیگرنام: عربی میں ارذ،فارسی میں برنج‘ بنگالی میں شالی دہانیہ‘ سندھی چانور ‘مرہٹی میں بھات‘ سنسکرت میں سالی اور انگریزی میں رائس کہتے ہیں۔
ماہیت: مشہورغلہ ہے جن کا رنگ سفیدوسرخ اور ذائقہ پھیکا ہوتاہے۔
مزاج: سرد خشک درجہ اول۔
استعمال: چاول زیادہ تر بطورغذا استعمال ہوتاہے یہ زودہضم اور اچھی غذا ہے اگرچہ اس میں گہیوں سے تغذیہ کم ہے۔گرم امراض اور گرم مزاجوں میں اس کا استعمال بہت مفید ہے۔چاول کا دھوون قابض اور مدربول ہونے کی وجہ سے اسہال سوزاک اور سیلان الرحم جیسے امراض میں تناسب ادویہ کے ہمراہ رقہ مستعمل ہے چاول کا جوشاندہ زود ہضم ہے۔گرم مزاجوں کو فائدہ بخشتی ہے۔چاول کا آٹا تنہا یا مناسب ادویہ کے ہمراہ چہرئے اور بدن کی رنگت کو نکھارتے کیلئے بطور ابٹن استعمال کرتے ہیں۔
چاول بدن کوفربہ کرتا ہے شیخ الرئیس بو علی سینا کا قول ہے کہ دودھ کے ساتھ چاول کا استعمال بدن کو فربہ کرتاہے اس کی پیچ اسہال و پیچش میں مفیدہے۔چاولوں کا نائٹروجنی مادہ اور نمکیات گویا چاولوں کا پرورشی مادہ زیادہ تر پیچ میں آجاتا ہے اس لئے چاول کو دم پخت پکا کر کھاناچاہئے۔مشین سے صاف چمک دار چاول کھانے سے مرض بیری بیری پیداہوجاتا ہے کیونکہ مشین سے صاف کرنے کی وجہ سے چاول کا باریک پرت بھی صاف ہوجاتاہے جس میں فاسفورس اور حیاتین ’’ب‘‘bہوتے ہیں۔اس لئے چاول بہت صاف شفاف نہیں کرنے چاہیے۔بعض لوگ محض چاول کھاتے ان کو چاہیے کہ مچھلی گوشت مٹر اور کاہلی چنے کا استعمال بھی ساتھ کریں تاکہ غذائیت میں نقص نہ ہو۔
نئے چاول دیر ہضم اور ثقیل ہوتے ہیں اور ان کے کھانے سے اسہال آنے لگتے ہیں۔اس لئے چاول کم از کم چھ ماہ پرانے کھانے چاہیں ۔دو یا تین سال کے پرانے چاول زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔
چاولوں کا آٹا فیرنی ‘کسڑڈ وغیرہ بنانے کے لئے ‘ہمارے علاقے میں اس آٹے سے یاچاولوں کی روٹی تیارکی جاتی ہے جو کہ ساگ کیساتھ استعمال کی جاتی ہے۔
مصلح:گہیوں کی بھوسی کے پانی میں بھگو نا۔مضر:سدے پیدا کرتاہے۔
نفع خاص:زور ہضم اور بطور غذابکثرت مستعمل۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق