کھیت میں، منڈیر پر، نالیوں کے کنارے، باغوں میں، جنگل میں جس جگہ جائیں بتھوا (chenopodium) آپ کو ضرور ملے گا یہ بن بلائے مہمان کی طرح ہر جگہ نمودار ہوتا ہے۔ جہاں کہیں سبزی نظر آئے گی اس میں بتھوا بھی ضرور ملے گا۔ ہندوستان کی یہ خود رَو بوٹی ہندوستان میں بکثرت پیدا ہوتی ہے۔ غریب لوگ اس کا ساگ پکا کر کھاتے ہیں۔ بتھوا (goosefoot) کے پتوں کو ابال کر اور نچوڑ کر دہی کے مٹھے میں ملا کر اور نمک مرچ ڈال کر بطور رائتہ کے بھی کھاتے ہیں۔ پنجابی اس کو اپنی زبان میں آتھو باتھو یا صرف باتھوکہتے ہیں۔ پنجاب کے بعض اضلاع میں اس کو جوسا گ کے نام سے بھی پکارتے ہیں اس کا اردو نام بتھوا ہی ہے۔
بتھوا (goosefoot) یورپ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہاں یہ پیدا نہیں ہوتا اس لئے وہ اس کو ہندوستان سے منگاتے ہیں لیکن کسی ہندوستانی کو علم نہیں کہ یورپ والے بتھوا (goosefoot) سے ہر سال لاکھوں روپے کماتے ہیں، ہندوستان کے کیمسٹ اور سائنس دان اس سے بے خبر ہیں۔ دنیا کے ہر انگریزی دوا فروش کی دکان پر ایک دوا فروخت ہوتی ہے جس کا نام ہے’’ چینوپوڈیم‘‘۔
یہ چینوپوڈیم (chenopodium) نامی دوا کافی مقدار میں فروخت ہوتی ہے۔ دراصل یہ ایک قسم کا خوشبودار تیل ہے جو کہ ہک ورم مرض میں مریض کے پیٹ میں خاص قسم کے کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور اس مرض کے لئے چینوپوڈیم (chenopodium) کا تیل کامیاب دوا ہےاور دنیا کے تمام ڈاکٹر اور تمام ہسپتالوں میں یہ مندرجہ بالا مرض کو دور کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔
معلوم ہے یہ تیل کس چیز کا ہے، جو روئے زمین پر مشہور ہے؟ یہ تیل ہندوستانی جڑی بوٹی بتھوا کے بیجوں کا ہی ہے۔ بتھوا بوٹی کاہی انگریزی نام چینوپوڈیم (chenopodium) ہے۔ بتھوا بوٹی جب پک جاتی ہے، تب اس کے اوپر سبز رنگ کا گچھا سا بن جاتا ہے کہ جس کے ہر سبزخول میں بیج ہوتے ہیں اور جب یہ بیج پک کرسیاہ ہوجاتے ہیں تب ہی یہ بیج خشخاش جیسے سیاہ دانہ معلوم دیتے ہیں۔ یورپ ان چیزوں کو ہندوستان سے منگا کر تیل نکال کر اور بوتلوں میں بھر کر اس کی تجارت کرتا ہے۔ ہندوستانی بیجوں کو جمع کرکے اور کولہو کے ذریعے ان کا تیل نکال کر تمام دنیا میں یہ تیل مہیا کر سکتے ہیں اور سستا سے سستا دیکھ کر بھی لاکھوں روپے پیدا کر سکتے ہیں۔ بہت سے اصحاب کو تو یہ بھی معلوم کرنے کی فرصت نہیں کہ بتھواکے بیچ بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔میں پہلی دفعہ بتھوا (goosefoot) کو اصل شکل میں ہندوستانیوں کے روبرو پیش کر رہا ہوں تاکہ میرے ملک کے نوجوان اس سے روزی کمائیں اور غیر ممالک سے روپیہ ہندوستان میں لائیں۔ آج تک بتھوا اپنے وطن میں صرف ذلیل بتھوا ہی تھا۔ اس مضمون کے بعد بتھواکا درجہ ہندوستان میں بہت بلند ہو جائے گا۔ اب سے پہلے کس کو معلوم تھا کہ بتھوا کے پیٹ میں بھی سونا بھرا پڑا ہے کہ جس سے یورپ مالا مال ہو رہا ہے۔ اب میں نے آپ کو بتا دیا ہے۔ اب اس میں سے سونا نکالنا آپکا کام ہے۔ بتھوا (goosefoot) کے بیجوں کو جب دبایا جاتا ہے اس (chenopodium) میں سے خوشبودار تیل نکلتا ہے۔ بظاہر اس پودے میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ وید، حکیم بتھوا کو بطور دوا استعمال نہیں کرتے۔ میں ان کو مشورہ دوں گا کہ وہ اپنے ہک ورم کے مریضوں کو بتھوا کے بیج رگڑ کر کھلایا کریں۔ پیٹ کے تمام کیڑے جو کہ ہک کی شکل میں پاخانہ کی راہ سے خارج ہوتے رہتے ہیں اور کہ جس کے باعث مریض زرد اور دن بدن کمزور ہوتا جاتا ہے۔ اس دوا کے سبب سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں پھر مریض تندرست ہوجاتا ہے۔ چند دن بتھوا کے بیج پیس کر گڑ میں کھلائیں، بعد میں مریض کو جلاب دے دینا چاہئے۔
میں بتھوا کے بیج اس مرض میں گزشتہ چالیس سال سے استعمال کر ارہا ہوں اور ہمیشہ کامیاب رہا ہوں۔ ہندوستان کے ویدوں و حکیموں سے یہ دوا اوجھل ہی رہی لیکن یورپ کے ڈاکٹروں نے اس کے اوصاف بھی معلوم کر لئے۔ ان کو ریسرچ کا شوق ہے۔ وہ نہایت خاموشی سے دنیا بھر کی پیداوار پر تجربات کرتے رہتے ہیں اور ہمارے ملک کے وید حکیم بجائے ریسرچ کے اپنے ناموں کے ساتھ لمبے سے لمبے خطابات لگاتے جاتے ہیں۔ گویا کہ دنیا بھر کی حکمت ان کے پیٹ میں ہے۔ میری تمام زندگی حکمت اور علم جڑی بوٹی کی تحقیقات میں گزر گئی اور یہ اسی محنت کا پھل ہے کہ بندہ کی تصنیف’’ پاک وہند کی جڑی بوٹیوں کا انساکلوپیڈیا‘‘( 10 جلدیں یکجا) بھاری مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ میری اس تحریر کا برا نہیں منایا جائے گا بلکہ نام اور خطابوں کے خبط کو چھوڑ کر میرے معزز وید حکیم ریسرچ کی طرف توجہ دیں گے تاکہ اپنے ملک کی دولت کو بچایا جائے اور اپنے ملک کی مفید پیداوار سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے۔ ہندوستان کے ڈاکٹروں سے بھی میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ جو انگریزی دوائیاں استعمال کرا رہے ہیں۔ وہ دراصل کیا چیز ہے۔ یہ مناسب نہیں کہ کتابوں سے انگریزی دوائیوں کے نام حفظ کر کے کیمسٹوں کی دکان سے خرید لائیں۔ ہندوستان کے شاید ہی کسی ڈاکٹر کو اس بات کا علم ہو گا کہ چینوپوڈیم (chenopodium) کاجو تیل ہم اپنے مریضوں کو استعمال کرا رہے ہیں۔ یہ دراصل ہمارے وطن ہندوستان کے بتھوا (goosefoot) کے بیجوں کا ہی تیل ہے۔ جب اس بات کا علم ہو جائے تب ان قیمتی دواؤں کی جگہ کیوں نا بتھوا کے بیج یا ان کے تیل کو نکلواکر ہی استعمال کریں۔ جب ہندوستان کے کسی ڈاکٹر کو بھی ریسرچ کا شوق پیدا ہو جائے گا تب ان کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ ہم دراصل ہندوستانی دوائیوں کو ہی انگریزی دوائیوں کےنام سے استعمال کرا رہے ہیں کہ جو ہمیں کوڑیوں کے مول سے مل سکتی ہیں۔ اسی طرح افسنتین دیسی دوا کا جوہر یورپ سے سینٹونین کے نام سے آ رہا ہے اور یہ بھی پیٹ کے خاص قسم کے کیڑے مارنے کے کام آتا ہے اور کوہ مری، شملہ، سولن، منصوری، نینی تال،ڈلہوزی،دھرم سالہ کے پہاڑ اس بوٹی سے بھرے پڑے ہیں۔حتیٰ کے انگوروں کی ٹوکروں انگور اسی گھاس میں لپیٹ کر بھرتے ہیں جو کہ ایک خوشبودار گھاس ہے لیکن ان کو معلوم نہیں کہ یورپ اسی حقیر گھاس کا جوہر نکال کر ہر سال لاکھوں روپے کا یہ جوہر سنٹیونین کے نام سے فروخت کر رہا ہے۔ ہندوستان کے پتہ پتہ میں دولت پوشیدہ ہے، محض تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ اپنے وطن کی مقدس گھاس کا ادب کریں، گستاخی سے پاؤں تلے نہ روندیں، یورپ اس گھاس کو ہی آنکھوں پر بٹھا کر اس سے سونا بنا رہا ہے۔
بتھوا (goosefoot) نہ صرف پیٹ کے کیڑوں بلکہ سفید داغوں کا بھی علاج ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
بتھوا (White GooseFoot)
دیگر نام:
عربی میں قطف ،فارسی میں سرمق، سندھی میں بہنو بوٹو یا نیہوساگ، بنگالی میں باتھو ساگ جبکہ انگریزی میں وائٹ گوزفٹ
مہیت:
مشہور عام ساگ ہے۔ جو فصل ربیع میں گیہوں کے کھیتوں وغیرہ میں پیدا (chenopodium) ہوتا ہے۔یہ پنجاب میں اور خصو صاً رحیم یار خان میں اس کے علاوہ صوبہ سندھ میں عام ہوتا ہے اور سرسوں کے ساگ کے ساتھ پکا کر کھایا جاتا ہے۔
رنگ:
سبز ۔
ذائقہ :
بد مزہ اور پھیکا
مزاج:
سرد تر درجہ اول
افعال:
ملین شکم ، ملین حلق و سینہ ، مدر ، مسکن حرارت و عطش ، محلل ورم حلق
استعمال:
بتھوا (goosefoot) کا ساگ پکا کر بطور نا نخورش استعمال کیا جاتا ہے۔ گرم مزاجوں اور گرم مرضوں میں فلو مند ہے۔ زود ہضم اور ملین شکم (chenopodium) ہے۔گرم کھانسی ، سل و دق ،یرقان ،حرارت جگر اور گرم بخاروں میں مفید ہے ۔ پیاس کو تسکین بخشتا اورام حلق کو خصو صاً تحلیل کرنا ہے۔اس (chenopodium) کے پتوں کا ضماد گرم ورموں اور جرب و حکہ کے لئے فائدہ مند بیان کیا جاتا ہے۔ پتوں کا نچوڑ ہوا پانی مدر بول اور ورم حلق کو تحلیل کرتا ہے۔
نفع خاص:
امراض جگر میں ۔
مضر:
مولد ریاح۔
مصلح:
گرم مصالحہ۔
بدل:
پالک
جدید تحقیق:
بتھوا میں روغن فراری ہوتا ہے جو کہ کیروئین اور حیاتین ج پر مشتمل ہوتا ہے۔
مقدار خوراک:
بقدر ہضم جبکہ عرق پچاس سے سو ملی لیٹر تک
مرکب مشہور:
عرق احمر،عرق پرقان وغیرہ
مجھے یاد ہے کہ ہمرے ایک جاننے والے بزرگ تھے ۔وہ اکثر یرقان کے مریضوں کو بطور دوا بتھسا کا مفرد ساگ بنا کر کھانے کی ہدایات کیا کرتے تھے جس سے مر یض کو اکثر اسہال آنے کی وجہ سے یرقان چند یوم میں ختم ہو جاتا تھا ۔وہ بتھوا کو صفرا کا بہترین مسہل قراردیتے ہیں جبکہ ورم جگر، درد جگر اور ضعف جگر میں بتھوا کا عرق نکال کر دیتے تھے اور اکثر مریض ان امراض سے جلد شفایاب ہوجاتے تھے۔(مؤلف حکیم نصیر احمد طارق)
بتھوا (chenopodium) کے بیج(تخم بتھوا)
عربی میں بزرا لقطف کہتےہیں۔
ماہیت :
مذکورہ مشہور عام ساگ کے بیج ہیں۔جو رنگ میں سیاہ چھوٹے بیج ، تخم خرفہ کی مانند ہوتے ہیں۔
ذائقہ:
بد مزہ
مزاج:
خشک درجہ اول گرمی میں معتدل
افعل و استعمال:
تخم بتھوا کو مدربول ہونے کی وجہ سے ورم جگر ،استسقائ، یرقان، عسرالبول اور گرم بخاروں میں تنہا یا دوسری ادویہ کے ہمراہ شیرہ نکال کر پلاتے ہیں ۔صفرائ کی قے لانے کے لئے نمک ، گرم پانی اور شہد کے ہمراہ استعمال کرتے ہیں ۔جلد کو میل کچیل اور نشانات سے صاف کرنے کے لئے اس کا ضماد لگاتے ہیں۔
عسرالبول،تقطیر البول کے لئے مفید ہے۔بتھوا کے بیج +سرمہ ہمراہ شکر کے آنکھوں کی خارش مٹاتا ہے۔ بیجوں کے جوشاندہ کے اخراج شمیہ (آنوں) میں ممد ہے۔سوزش آحشا اور بخاروں میں تنہا یا دیگر ادویہ کے ہمراہ شیرہ نکال کر پلاتے ہیں۔
نفع خاص:
جگر کے علاوہ جلے کے داغ دھبوں کو زائل کرتا ہے۔
مقدار خوراک :
پانچ سے سات گرام (ماشے)
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق