مختلف نام: مشہور نام گھونگچی، رتی-ہندی گھونگچی-سنسکرت گُنجا-مراٹھی گُنج- تامل گندومنی- تیلگو گوری گُنجا، شوبت کچ ،لال کچ- گجراتی چنٹروٹی –فارسی چشم خروس-انگریزی جیکو ریٹی (jequirity)-انڈین لائیکرس (Indian Liquorice)اور لاطینی میں ابرس پریکٹیوریس (Abrus Practorius)کہتے ہیں۔
شناخت:یہ ایک خوبصورت بیل ہے جو ہندوستان کے تمام صوبوں و پڑوسی ممالک میں اور ہمالیہ کی پہاڑیوں میں تیس ہزار فٹ کی بلندیوں تک پائی جاتی ہےاور اگست ستمبر میں پھل لاتی ہے اور پھلیاں سردی کے موسم کے ختم تک پک جاتی ہیں۔اس کے بیج عام مٹر کے بیجوں سے چھوٹے ہوتے ہیں جن کے سرے سیاہ داغ کے ساتھ چمکدار قرمزی یا لال رنگ کے ہوتے ہیں ۔کبھی سفید بھی مل جاتے ہیں۔
جڑ بنفشی اور شاخ دار ہوتی ہے، کئی معالجین نے بیجوں کو عین الدیک (مرغ کی آنکھ)کے نام کے تحت بیان کرتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ یہ گرم ، خشک ، مقوی اور مقوی خاص ہوتے ہیں۔چھوٹے چمکدار ،سرک بیج زر گر (سنار) اوزان میں استعمال کرتے ہیں۔ ہر ایک بیج 1(3/4)گرین ہوتا ہے۔ ان کو خانگی لحاظ سے زیورات و زیبائش صندوق وغیرہ کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ بیج زہریلے ہوتے ہیں ۔اس کے پتے ایک سے چار انچ لمبے، ایک پتے میں 9-8سے 20 جوڑے پتیاں ایک دوسرے کے متوازی ہوتی ہیں۔پھول سیم کی طرح اوران سے قدرے بڑے سردی کے موسم میں گچھوں کی شکل میں نیلے یا گلابی رنگ کے لگتے ہیں۔پھلی لگ بھگ 1(1/2)سے2انچ لمبی اور1(1/2)انچ تک چوڑی نوکدار گچھوں میں لگتی ہےپھل پھلیوں کے اندر 5-6 لال، کالےیا سفید رنگ کے گول جن کا منہ کالا ہوتا ہے۔ یہ چمکدار سخت ہوتا ہے۔اس کو ہی گھونگچی یا رتی کہا جاتا ہے۔
اس کا پودا پھلی کے پک جانے پر سردیوں میں خشک ہوجاتا ہے۔اور موسم برسات میں اس کی جڑ سر سبز ہوکر نیا پودا پیداہوجاتا ہے۔ رتی کا وزن1(1/2)گرین ہوتا ہے۔ صرف لوگ رتیوں سے تول کر کام لیتے ہیں ۔ آٹھ رتی کا وزن ایک ماشہ ہوتا ہےاور 12 ماشہ کا ایک تولہ ہوتا ہے۔
ماڈرن تحقیقات:تجربات سے پتہ چلا ہےکہ گھونگچی میں ایک زہریلا جو ہر ہوتا ہے جس کا نام ابرین(Abrun)دیا گیا ہے۔اور گھونگچی کی جڑ سے ایک علیحدہ کیا گیا ہے جس کی خصوصیات جو ہر اصل السوس گلائمرائزن(Givedyrrizin)کی طرح ہوتے ہیں۔
مزاج:گرم و خشک درجہ سوم
فوائد:گھونگچی کو زیادہ تر بیرونی طور پراستعمال کرتےہیں پھلبہری(سفید داغ)پر اس کا لیپ لگایا جاتا ہے۔ اگر اس کے پتوں کی بھجیابنا کر ورموں پر باندھی جائے تو ورم تحلیل ہوجاتے ہیں۔اس کے پتوں و بیجوں (گھونگچی ) میں ایک زہریلا جوہرہوتا ہےجس کے معمولی مقدار بھی جسم میں داخل ہوجائے تو زہریلا اثر پیدا کر دیتی ہے۔ یہ شدید خراش کن ہوتی ہے۔ باہر سے استعمال کرنے پر بھی خارش پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے اسے کھانے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔
گھونگچی کے مجربات مندرجہ ذیل ہیں:
باندر لُپت(گنج):گھونگچی کی جڑ اور پھل دونوں کو باریک پیس کر کنٹکاری (کنڈیاری ) کے پتوں کے رس میں کھرل کریں ۔پھر اس کا لیپ کرنے سے اندر لُپت (گنج ) کا مرض دور ہوجائے گا۔
عرق النساء:جسم کے جس عضو میں دات کا اثر ہو ، وہاں کے بالوں کو استرے سے صاف کرکے گھونگچی کا لیپ پانی میں پیس کر کریں۔آرام آجائے گا۔
روغن گھونگچی: گھونگچی(سفید مل جائے تو بہتر ہے)کی جڑو پھلوں کو پیس کر چار گنا تیل سرسوں میں دھیمی آگ پر پکائیں ،جب پانی جل جائے اور صرف تیل رہ جائےتو اتار لیں اور اس تیل کی مالش کریں۔ اس سے خنازیر (کنٹھ مالا) کا عارضہ دور ہوجائے گا۔
گھونگچی کے زہریلے اثرات کا علاج: بیجوں کا سفوف زیادہ کھا لینے سے ہیضہ کی طرح قے و دست آنے لگتے ہیں ، پیشاب بند ہوکر دل کی دھڑکن بند ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس زہریلے اثرات کو دور کرنے کے لئے کانٹے والی چولائی کا رس چینی ملا کر پلائیں اور اوپر سے دودھ پلائیں اور فالسہ ،اناریا انگور کا رس استعمال کرائیں۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
گھونگچی(کونچ)رتی
Abrus Prectorius لاطینی و انگریزی میں
دیگرنام:عربی میں عین الدیک ،فارسی میں سرخ چشم خروس ،بنگالی میں کونچ ،سنسکرت میں گنجا، سندھی میں چنوٹھی یا ریتوں ،پنجابی میں رتی ،انگریز ی اور لاطینی میں ابیرس پریک ٹوری آس کہتے ہیں ۔
ماہیت: اس کی بیل نمابوٹی نرم و نازک بہت ہی نرم شاخوں والی ہوتی ہے۔پتے املی کی طرح ایک سے چارانچ لمبے ایک پتے میں آٹھ یا نو سے بیس جوڑے پتیاں ایک دوسرے کے متوازی ہوتی ہیں ۔ جو کہ ذائقہ میں قدرے شیریں ،پھول سیم کے پھولوں کی طرح اور قدرے بڑے سردی کے موسم میں گچھوں کی شکل میں نیلے یا گلابی رنگ کے لگتے ہیں ۔پھلی لگ بھگ ڈیڈھ دو انچ لمبی اور آدھ انچ چوڑی نوک دار گچھوں میں لگتی ہے۔پھلیوں کے اندر پانچ چھ سرخ ، کالے یا سفید رنگ کے گول بیج (پھل) جن کا منہ کالا ہوتاہے یہ چمک دار سخت ہوتے ہیں ۔جن کو رتی یا گھونکچی کہاجاتاہے یہ پودا پھلی کے پک جانے پر سردیوں میں خشک ہوجاتاہے اور موسم برسات میں جڑ سرسبز ہو کرنیا پودا بن جاتاہے۔
اقسام : تین قسمیں سرخ ، سفید اور سیاہ۔
خاص بات:پہلے زمانے سے لے کر آج تک پنساری، سنار اور صراف بطور وزن استعمال کرتے ہیں ۔ایک رتی کا وزن تقریباًپونے دو گرین ہوتاہے اور طب کی کتب میں رتی ماشہ اور تولہ کا وزن مستعمل ہے اور آٹھ رتی کا وزن ایک ماشہ کے برابرہوتاہے۔
مقام پیدائش: پاکستان اورہندوستان کے میدانوں اورہمالیہ کے دامن میں تین سے چار ہزار فٹ کی بلندی تک ، اس کے علاوہ امریکہ اورجزائر غرب الہند میں ہوتاہے۔
مزاج: گرم خشک ۔۔۔۔۔درجہ سوم۔
افعال: جالی ،محلل،اکال،مہیج۔
استعمال (بیرونی ) : رتی کو زیادہ تر بیرونی طور پر استعمال کرتے ہیں ۔محلل ہونے کی وجہ سے اورام کیلئے بطور ضمادمستعمل ہے۔جالی ہونے کی وجہ سے بہق ،برص ،داد ،کلف وغیرہ میں اس کا طلاء کیاجاتاہے اور آنکھ کا جالا ، پھولا کو زائل کرنے کیلئے اکتحالاًاستعمال کرتے ہیں ۔اکال ہونے کے باعث زخموں کے زائد اور خراب گوشت کو دور کرنے اور بواسیری مسوں کو زائل کرنے کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔ہیجان و تحریک کی وجہ سے مقوی باہ ، مقوی اعصاب طلاء میں استعمال کیاجاتاہے۔اس کے پتوں کو کوٹ کر بھجیا بناکر ورموں کو تحلیل کرنے میں فائدہ کرتے ہیں ۔
اس کے پتوں اور بیجوں (گھونکچی )میں ایک زہریلا جوہر ہوتاہے جس کی قلیل مقدار دی جائے تو وہ جسم کو زہر سے محفو ظ کردیتی ہے۔آیوودیدک میں گنج کیلئے خصوصی طورپر تیل بناکر لگایاجاتاہے۔
استعمال (اندرونی ): اس کی جڑ کا شربت کھانسی کے مریضوں کے لئے نافع ہے ۔اندرونی طورپر مقوی اعصاب ،محافظ قوت بدن مانع شیخونت ،مقوی باہ اور مغلظ و مولدمنی ہے۔
نفع خا ص: مقوی باہ ۔ مضر: گرم مزاج۔
مصلح: ترنجین کشنیز سبز ۔ بدل: ایک قسم دوسرے کی بدل ہے۔
(Hasemaggluttin)(ابیرین)نام کی ایک زہریلی پروٹین اور (Abrin)گلکوسائیڈ اور (Abbrossic Acid)کیمیاوی اجزاء: اس کے تخم میں نہ اڑنے والا تیل پائے جاتے ہیں
مقدارخوراک: سفوف نصف یا ڈیڈھ رتی دودھ میں جوش دے کر ۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق