یہ درخت پہلے پہل افریقہ میں پیدا ہوتا تھا اور و ہاں سے عرب سوداگروں کے ذریعے دکن میں پہنچا۔ ہندوستان میں اب یہ ممبئی، گجرات، بنگال اور دہلی کی سڑکوں کے کنارے پر عام پائے جاتے ہیں۔ یوپی، پنجاب اور ہریانہ میں تقریبا ہر جگہ پایا جاتا ہے۔
مختلف نام:اردو گورااملی۔ ہندی گورکھ املی۔ سنسکرت گڈوچی،گورک املی-مرہٹی گورکھ چنچ-بنگالی گورکھشا چاکلے- لاطینی اڈینسو نیاڈک ٹاٹا(Adansonia Dicitata)اور انگریزی میں بوٹل ٹری(Bottle Tree) کہتے ہیں۔
شناخت:یہ ایک بہت بڑا60سے70فٹ اونچا درخت ہوتا ہے جو گرمی کے موسم میں پھل دیتا ہے۔ اس پر گھنے پتے ہوتے ہیں۔اس کا اتنا چھوٹا لیکن موٹا ہوتا ہے۔ایک ڈنڈی پرسیمل کی طرح5-5 پتے ہوتے ہیں۔گرمی اس کے پتے گھر جاتے ہیں اور برسات میں نئے آ جاتے ہیں۔پھول کندل کی طرح اپریل اور مئی میں آتے ہیں۔
اس کی چھال موٹی اور نرم ہوتی ہے اور اس میں سے ایک قسم کا گونڈ بھی نکلتا ہے۔ اس کے پتے بیضوی شکل کے لمبوترے ہوتے ہیں اور 8 سے12انچ تک لمبے اور بینگنی رنگ کے ہوتے ہیں۔ جو نیچے کی طرف جیسی لمبی شاخوں میں بہت زیادہ تعداد میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو بوتلیں رسی سے بندھی لٹکی ہوں۔ اس لئے اس درخت کو انگریزی میں”بوٹل گری” یعنی درخت بوتل بھی کہا جاتا ہے۔ پھل کی رنگت سبزی مائل بھوری ہوتی ہے اور اس میں5سے10تک خانے ہوتے ہیں۔اس کا گودا چپکا ہوا ہوتا ہے جو پک کر ایک ترش سفوف بن جاتا ہے۔
ماڈرن تحقیقات:اس کے پھل کے گودے میں گلوکوز، ٹارٹرک ایسڈ، ایسی ٹیٹ پوٹاش، گھلنے ولا ٹینن،وسا،سوڈیم کلورائیڈ اور گوند جیسی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ پٹھوں میں گلوکوز،وسا، نمک، گوند،ابلیومن نائیڈس میں پایا جاتا ہے۔چھال کی راکھ میں خاص طور پر کلورائیڈ سوڈیم، کاربونیٹ، پوٹاش اور سوڈا پایا جاتا ہے۔
ذائقہ:پھل ترش۔
مزاج:پتے سردو خشک،پھل مغز سرد وتر دوسرے درجہ میں،گودا سرد۔
مقدار خوراک:چھال کا سفوف3گرام۔
فوائد:گورکھ املی کے پانچوں انگ ادویات کے طور پر استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
اس کے گودے کی تاثیر سرد اور پیشاب کھولتی ہے اور اس کی چھال کو نین کا بدل ہے۔ اس کی اندرونی چھال میں ایک ریشہ پایا جاتا ہے اور اس ریشے کا گودا کاغذ بنانے کے لئے ایک نہایت عمدہ مسالہ ہے۔ اس کے پھل کا گودا ترش ہوتا ہے لیکن اس کے گودے سے ایک جوہر بھی نکالا جاتا ہے۔جو ایڈن سونن(Adansonin) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
گورکھ املی کے طبی مجربات
بخار:گورکھ املی کا گودا ہر قسم کے بخار میں جوشاندہ کی شکل میں دینے سے بخار کو کم کرتا ہے اور پیاس کو بجھاتا ہے۔
پسینہ آنا:تپ دق میں بھی اسے رات کے وقت پسینہ آنے کو بند کرتا ہے اور خون کے جوش کو کم کرتا ہے۔
جوڑوں کے درد:اسکے پتوں کی پلٹس جوڑوں کے درد کو تسکین دیتی ہے۔ نہایت مفید چیز ہے۔
بخار: گورکھ املی کی چھال 10گرام کا جوشاندہ دن میں تین بار پلائیں، اس سے پسینہ آکر بخار اتر جاتا ہے۔
پیچش:گورکھ املی کا گودا پیچش میں مفید ہے۔
اسہال:گورکھ املی کے گودے کارس چھاچھ کے ساتھ استعمال کرانا اسہال میں فائدہ دیتا ہے۔
دمہ:گورکھ املی کا گودا انجیر کے ساتھ کھلانے سے دمہ کو آرام ملتا ہے۔ بار بار سانس پھولنا کم ہو جاتا ہے۔
امل پت:گورکھ منڈی کے گودے کا سفوف 50گرام،زیرہ دس گرام اورمصری60گرام،سب کا سفوف بنا کر ملالیں،3گرام صبح اور3گرام شام کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد استعمال کرائیں۔اس سے قے،گلے میں درد، چھاتی میں جلن، سر درد، گھبراہٹ، سیلان و پیچش میں آرام دیتا ہے۔
دمہ:اگر بلغم زیادہ نہ ہو تو اس کا گودا3 گرام تک سوکھے یا گیلے انجیر کے ساتھ کھلائیں۔ جلد کے امراض پر اس کے گودے کا لیپ کریں، فائدہ ہوگا۔
ملیریا:گورکھ املی کی چھال کا سفوف 25 گرام کو 750 گرام پانی میں ملا کر تیار کریں۔ تین خوراکیں بنا کر دو دو گھنٹے کے وقفے سے پلائیں، ملیریا بخار دور ہو جائے گا۔
ہاضمہ:ہاضمہ کی طاقت کے لئے اس کا باریک سفوف کھلانے سے ہاضمہ کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔
سردرد:سردرد میں اس کا کواتھ پلانے سے سر درد کو آرام ملتا ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
املی،تمرہندی
لاطینی میں : TamaarindusIndica
فیملی: Leaguminasae
دیگرنام: فارسی اور عربی میں تمرہندی ،سندھی میں گدا مڑی،بنگالی میں املی ،ہندی میں انبلی،سنسکرت میں املیکا اور انگریزی ٹیمے رنڈس کہتے ہیں۔
ماہیت: املی کا درخت کافی بڑا تقریباًستر پچھتر فٹ اونچا اورسدابہارہوتا ہے۔پتے آملے،سرس کے پتوں کی دس پندرہ جوڑے آمنے سامنے لگتے ہیں۔پتوں کے اوپرکا رنگ نیلا اور نیچے کا رنگ بھورا نیلا اور ان کا ذائقہ کھٹا ہوتا ہے۔پھول برسات یاسروی کے موسم میں شاخوں کے اگلے سروں پر بہت سے سفید،پیلے خوبصورت پھول لگتے ہیں۔ان سے بھینی خوشبو آتی ہے۔اکثر لوگ ان کوپکا کرکھاتے ہیں۔
درخت لگنے کے تقریبا ً اٹھ سال بعد پھل لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ماگھ (جنوری فروری) تک لگتے ہیں جو کہ پھلیوں کی شکل میں تین سے چار انچ تک لمبے ایک طرف سے ٹیٹرھی‘ سامنے اور پیچھے سے چپٹی جو کہ ببول کی پھلیوں سے مشابہ اور سفید ‘ لیکن پکنے پر بادامی سی ہو جاتی ہے۔پھلہی کا چھلکا پتلا اور سخت جس کے اند ر چار سے بارہ تخم ہوتے ہیں ۔ان پھلیوں میں سرخ سیاہی مائل گودا ہوتا ہے۔جو مزے میں خوش گوار شیریں ترشی مائل ہوتا ہے۔ان پھلیوں کے اندر تخم بہت چکنے ‘ چمکدار ‘ چپٹے مضبوط آدھا انچ لمبے گول باہر سے بھورے سرخی مائل ہوتے ہیں۔توڑنے پر ان سے دو حصوں میں تقسیم مغز سفید رنگ کا نکلتا ہے۔ پھلیوں کا گودا اور تخم ‘پتے اور چھال سب ادویہ میں استعمال ہوتے ہیں۔
مقام پیدائش: اس کا اصل وطن جنوبی ہندہے ۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش ،برما ،ہندوستان میں گجرات‘ پاکستان میں پنجاب میں کم پایا جاتا ہے۔
املی کے گودے کا استعمال
گودے کامزاج: سرددرجہ اول‘ خشک درجہ دوم اور بعض کے نزدیک متعدل ۔
افعال: مسہل صفرا وحدت خون ،مشتہی ،ہاضم طعام ،ملین ،جالی ،دافع پیاس،
استعمال:مفرح‘ مسکن حرارت ،ملین ‘قاطع صفراءہے۔ دل اورمعدہ کو طاقت بخشتی ہے۔قے اور متلی کو زائل کرتی ہے۔صفراء اور جلی ہوئی اخلاط کو براہ راست خارج کردیتی ہے۔پیاس کی زیادتی کو دور کرتی ہے۔اس مقاصد کیلئے اس کا شربت(املی کا شربت) دیتے ہیں۔املی کا زلال،یرقان۔صفراوی بخار ،قبض کے علاوہ شراب اور دھتوراکے نشے کو دورکرتا ہے۔خفقان اور دوران سرکو مفید ہے۔املی کا پراناگودا (ایک سال) جگر ‘معدہ‘ انتڑیوں،سکری اور دائمی قبض کیلئے عمدہ چیز ہے۔
جرب و حکہ میں ایلوا کے ہمراہ املی کے گودے میں گولیاں بنا کر استعمال کرتے ہیں۔املی کے شربت کو موسم گرما میں صفراوی بخاروں ‘ صفرائ کو خارج کرنے اور تفریح کی غرض سے پلاتے ہیں ۔یہ شربت پاکستان میں آج کل عام طور پر فروخت ہورہاہے۔اس کے بنانے کا نسخہ بیاض کبیر میں دیکھیں۔اور بازاری شربت سے پرہیز کریں ۔جس میں املی کو گودا کم اور ٹارٹارک ایسڈ زیادہ استعمال کیاجاتاہے۔
نوٹ:املی کاگودا جو بازارمیں فروخت ہوتا ہے۔اس کو محفوظ کرنے کیلئے اس میں دس فیصد نمک طعام کی آمیزش پائی جاتی ہے۔جبکہ بطور دواء استعمال ہونے والی املیکے گودا میں نمک نہیں ہوناچاہئے۔
ادنیقسم کی املی کے گودے میں ریشے چھلکے اوربیج بکثرت ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک من پھل سے پچیس کلوگودا برآمد ہوناچاہیے۔
املی کی پتے بطور پلٹس استعمال کریں تو یہ پھوڑوں کو پکاتی اور پھاڑتی ہے ۔ اس کے پتوں کے رس میں لوہا کا بجھاؤ دے کر پلانا کمی خون ‘ پیچش‘خونی اسہال کے لئے مفید ہے۔پتوں کے رس میں کھانڈ ملا کر دینا پیچش اور خونی بواسیر میں مفید ہے۔ املی کے پتے دو تولہ (گرام) لے کر پاؤبھر پانی میں گھوٹ کر شکر ملا کر پلانے سے پیشاب کی جلن رفع کرتا ہے۔ پتوں کے جوشاندے سے زخموں کو دھوتے ہیں۔ خواہ گھمبیر ہو‘ خناق اور منہ پکنے(قلاع) میں اس کے پتوں کے جوشاندہ سے غرغرہ کرتے ہیں۔ پرانی املی کے کھانے سے فاسفیٹ کا اخراج بند ہو جاتا ہے۔ بچوں کی قبض میں مربہ املی یا گودا مفید ہے۔
املی کی چھال کا نمک دردشکم،بدہضمی میں مفید ہے۔اس کی چھال کو جلا کر اس کی راکھ ہر قسم کے برتن صاف کرتی ہے۔
املی کے پھولاملی کے پھول یرقان اور صفراوی امراض میں مستعمل ہیں۔
نفع خاص:مسکن و سہل صفراء ۔مضر:امراض حلق اور اسعال پیدا کرتی ہے۔
مصلح:شکراور عناب۔بدل:آلو بخارا اور زیر شک ۔(تسکین کیلئے)
مزید تحقیقات:(کیمیاوی اجزاء): ٹارٹارک ایسڈ دس فیصد ‘ایسڈ پوٹاشیم‘ ٹارٹریٹا آٹھ ‘سڑک ایسڈ اور دیگر ایسڈز‘گلوکوز یا اجزاء شکر پچیس سے چالیس فیصد اور ایک نہ اڑنے ولاتیل بیس فیصدہوتا ہے
مشور مرکبات:جواش تمرہندی ،جوارش صفراء شکن،سکجین تمرہندی یا شربت تمرہندی (شربت املی )
تم تمرہندہی‘مغز تخم املی
اسکی ماہیت اوپر (املی )بیان کی جاچکی ہے۔
مزاج:سردوخشک درجہ سوم۔
افعال:قابض ،ممسک مجفف ،منی
استعمال:مغز تخم املی مفرد اور دیگر ادویہ کے ساتھ قابض اور ممسک ہے یا اس کا سفوف بناکر جریان و احتلام میں کھلاتے ہیں۔تضیق اندام نہانی کیلئے اس کے سفوف کوحمول کراتے ہیں۔اور بعض ورموں کو پکانے اور تحلیل کرنے کیلئے اس کے سفوف ضمادلگاتے ہیں۔
مغزتخم املی نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ تخم املی کو بھاڑ میں بھنوا کرچھیل لیں لیکن بھنوانے سے اس کے مزاج میں تبدیلی یعنی خشکی بڑھ جاتی ہے۔
نفع خاص:رقت منی کے لئے۔مضر:قبض پیدا کرتا ہے۔مصلح:شکریا ترنجین۔
مقدار خوراک:ایک سے تین ماشہ تک۔
مدت اثر :بطور دواء استعمال کرنے کیلئے ایک سال پرانی املی بہترسمجھی جاتی ہے۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق