مختلف نام:ہندی گل داؤدی ـاردوگل داؤدی ـفارسی گل داؤدی ـمراٹھی دوں شیوتی ، شیوتی ـبنگالی گل داؤدی ، چندر ملیکاـسنسکرت شت پتریکا، سیو نتیـ لاطینی کرسے نتھم کو رو نیر یم(Chrysanthemum Coronarium) اور انگریزی میں کر سے نتھی مم (Chrysanthemum) کہتے ہیں۔
شناخت: اس کا پودا تین فٹ اونچا ہوتا ہے اس میں نہایت خوشبودار پھول لگتے ہیں۔پتے سیوتی گلاب (گل سیوتی)یا کپاس کے پتوں جیسے کترن دار ہوتے ہیں۔پھول گیند ا یا گل سیوتی کے پھولوں جیسے مگر کچھ سفید کسی میں پیلے وکسی میں نارنگی رنگ کے ہوتے ہیں۔یہ پھول ٹھنڈے موسم میں آتے ہیں۔جڑ عقرقر حا کی جڑ جیسی اور فوائد میں بھی عقر قرحا کے برابر ہے۔
مقام پیدائش:یہ ہندوستان و پڑوسی ممالک کے جنگلوں میں خودرَو پودا ہوتا ہے اور پھولوں کی کیاریوں میں یا گھروں میں گملوں میں لگایا جاتا ہے۔اس سے کئی جگہ گل سیوتی بھی کہتے ہیں کیونکہ گل سیوتی (سفید گلاب)اور اس میں خاص فرق نہیں ہے۔یہ گل داؤدی اپنے فارسی نام سے ہی ہندی ،گجراتی اور بنگالی زبانوں میں مشہور ہے۔
مزاج:گرم دوسرے درجہ میں خشک ۔
مقدار خوراک:5سے7گرام۔ جوشاندہ 20گرام سے50گرام تک۔
فوائد:مفرح اور مقوی قلب،کا سر ریاح ،محلل اورام ،پتھری گردہ و مثانہ نکالنے کے علاوہ پیشاب اور ایام لانے کے لئے بھی مفید ہے۔امراض جگر میں ان کے پتوں یا پھولوں کا جوشاندہ چھان کر دیتے ہیں ۔خون کی خرابی میں مفید ہے۔ورہم پر اس کے پتوں کی پلٹس باندھنے سے سوجن دور ہوجاتی ہے۔
پتھری مثانہ و گردہ:خشک پھولوں کا سفوف ایک گرام سے چھ گرام تک برابر چینی ملا کر پانی سے استعمال کرائیں ۔
دیگر:25گرام پھولوں کو 50گرام پانی میں جوشاندہ بنا کر چھان کر پلانے سے پتھری گردہ و مثانہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نکل جاتی ہے۔
سوجن:گل داؤدی کے پھول 10گرام،سونٹھ3گرام،زیرہ سفید 2/1 ،1 گرام ۔ایک ساتھ پانی کے ساتھ پیس کر سوجن کے مقام پر لیپ کرنے سے ہر قسم کی سوجن کے علاوہ آگ سے جلے ہوئے مقام کو بھی آرام آجاتا ہے۔
امراض دِل:پھولوں کا عرق یا گل قند کا استعمال 5 سے 10 گرام روزانہ استعمال کرائیں ۔اس سے دِل کی کمزوری اور دِل کی دل کی دھڑکن وغیرہ امراض دور ہو جاتے ہیں۔ نہایت مفید ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
گل داؤدی (Chrysanthemum)
دیگر نام :فارسی و عربی میں باسوم ‘ سندھی میں ڈوپھروگل ‘ سنسکرت میں ستیا اور انگریزی میں کری سیتھی مم کہتے ہیں۔
ماہیت :گل داؤدی کا پودا ایک گز بلند ہوتا ہے ۔ اس کے پتےروئی کے پتوں سے اور پھولگل نسرین سے مشابہ ہوتے ہیں۔ جس سے برنجاسف کی مانند بو آتی ہے ۔ بلحاظ رنگت زرد اور سفید مائل یہ کبودی تین قسم کا ہوتا ہے۔ گل داؤدی کو باغوں میں بو تے ہیں اور گھروں میں گملوں میں لگا کر رکھتے ہیں۔
مزاج :گرم خشک ۔۔۔۔۔ درجہ دوم
افعال :مفتت سنگ گردہ و مثانہ ‘ محلل ریاح ‘ مدربول و حیض‘ مفرح و مقوی قلب ۔
استعمال :گل داؤدی کا عرق کشید کر کے تفریح اور تقویت قلبکے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پھول سونگھنے سے دماغکے سرد امراض کو فائدہ دیتا ہے ۔ پھولوں کا سفوف بناکر یا جوشاندہ تیار کر کے سنگؑ گردہ و مثانه کو توڑنےاور ادراربولکے لئے پلاتے ہیں یا اسی غرض کے لئے اس کے پودے کو جلا کر کھار حاصل کر کے کھلاتے ہیں۔ صلابت رحم کو تحلیل کرنے کے لئے ضماد کرتے ہیں ۔ گل داؤدی زرد ایک تولہ ‘ بادیان تین ماشہ‘ زیرہ سفید ڈیڑھ ماشہ (گرام) کے ہمراہ پکاکر مثل مرہم کے غلیظ ہو جانے پر اورام بلغمی کو تحلیل کرنے کے لئے لگاتے ہیں۔ بول و خیضجاری کرتا ہے۔ ریاحکو تحلیل کر تا ہے اور محلل ریاح گردہ و مثانہہے ۔خشک پھولوں کا زرود زخموں کو خشک کرتا ہے۔
نفع خاص :مفتت سنگ گردہ و مثانہ ‘ محلل ۔ مضر : گرم مزاجوں کو۔
مصلح: گل سرخ اور بر نجاسف۔
مقدار خوراک: پانچ سے سات گرام یا (ماشے)
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق