مشہور نام: ہینگ–حلتیت ہنگو۔ ہندی ہینگ۔عربی حلتیت۔ فارس انگوزہ ۔ مرہٹی ہنگ ۔ گجراتی ہنگڈہ۔بنگالی تامل پیرولس گیم۔ لاطینی فیرولانارتھیکس بوئس(Ferula Narthex Boiss)اور انگریزی میں اسافی ٹیڈا(Asaffetida)کہتے ہیں۔
شناخت: ہینگ کا پودا ایران، ترکستان اور افغانستان کے ریتلے علاقوں اور خشک پہاڑوں میں پایا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں کشمیر کے نزدیک پہاڑوں میں بھی اس کے پودے پائے جاتے ہیں۔
ہینگ، گندہ بیروزہ نہیں: کئی میڈیکل مصنفین نےگندہ بیروزہ کو بھی ہینگ کی قسم لکھا ہے۔ جب کہ گندہ بیروزہ ایک علیحدہ چیز ہے ۔ ان کے فوائد میں بھی بہت فرق ہے۔
ہینگ کا پودا اور گندہ بیروزہ کا پودا دونوں برال دار گو ندوں کے پو دے ضر ور ہیں۔ اس کے علا وہ ان میں اور کوئی میل نہیں۔اس لئےگند ہ بیروزہ کو ہینگ کی قسم نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔) حکیم ڈاکٹر ہری چند ملتا نی، پا نی پت(
اس کا پودا دو سے پا نچ فٹ تک او نچا ہو تا ہے۔مشر قی ایر ان )کرمان وغیرہ(کے نز دیک جو پو دا پا یا جا تا ہے اس ہینگ کے پودے سے جو ہینگ حا صل ہو تی ہے، اسے ” ہیرا ہینگ ” کہتے ہیں۔ہینگ کی کئی اقسا م ہو تی ہیں۔جن میں ” ملتانی ہینگ” اور” قند ھا ری ہینگ” مشہو ر ہیں۔ ہینگ کا استعما ل ہند و ستا ن بھر کے با ور چی خا نو ں میں کیا جا تا ہے۔ اس لئے اسےسب جا نتے ہیں ۔آ یور و ید ویو نا نی گر نتھو ں میں اس سے متعلق معلو ما ت دی گئی ہیں ۔ اس کی خوشبو لہسن کی خو شبو کی طر ح ہو تی ہے ۔ اصلی ہینگ کو پا نی میں گھو لیں تو پتلا پن لئےسفید رنگ کا گھو ل بن جا تا ہے۔اگر اصلی ہینگ کا ٹکڑا لے کر اسے دیا سلا ئی سے آگ لگا ئیں تو یہ موم بتی کی طرح جلنے لگتا ہے۔
جہاں ہینگ کا پو دا پیدا ہو تا ہےوہاں کے لوگ اس کے پو دے کو سا گ کی طرح پکا کر رو ٹی کی طرح کھا تے ہیں اور اس کے پتے بکریو ں کو چرا تے ہیں ، جس سے وہ خوب مو ٹی ہو جا تی ہیں۔
ہینگ کے پو دو ں کے پھو ل اجمو د، اجوا ئن اور دھنیا وغیرہ کی طرح چھتر ی دار ہو تے ہیں ۔ہینگ دو طرح سے اکٹھی کی جا تی ہے۔
1۔ بسنت کے مو سم میں پھول آنے سے کچھ پہلے ہینگ کے پو دے کی کسی جڑ کے با ہر وا لے حصے کی چھا ل صا ف چا قو سے چھیل دی جا تی ہے جس میں سے دودھ نکل کر اکٹھا ہو تا رہتا ہے۔جس وقت یہ دودھ تا زہ ہو تا ہےتو اسے ہا تھ نہیں لگا یا جا تاکیو نکہ اس سے جلد جل جا تی ہے۔ نکلے ہو ئے دودھ کو گر می سے بچا نے کے لئے تا کہ خشک نہ ہو جائے، چھلی ہو ئی جگہ پر پتوں اور ٹہنیوں کی چھتر ی بنا دیتے ہیں۔
ایک دو دن میں نکلا ہو ا دودھ گو ند کی طرح جم جا تا ہےتو اسے کھر چ کر ہٹا دیتے ہیں۔ کھرچتے وقت جڑ کی پر ت کا کچھ حصہ بھی ضرور رہ جا تا ہے ۔ اب وہاں نیا دودھ نکل کر اکٹھا ہو جا تا ہے۔جب سارا دودھ نکل آتا ہے تواسے چھو ڑ دیا جا تا ہے اور پھر کسی اور جڑ کو چھیل کر دودھ جمع کیا جاتا ہے۔ ایک پودے سے ایک کلو سے ڈیڑھ کلو کے گل بھگ ہینگ نکلتی ہے۔
2۔ہینگ نکا لنے کا دو سرا طر یقہ یہ ہے کہ پھو ل آنے سے کچھ پہلے جڑ کا با ہر والا حصہ اور اس کی زمین کھو د کر کھو ل دیا جا تا ہے۔پھر تنے کے اس حصہ کو چیرا دے کرایک مٹی کا بنا ہوا پیا لہ با ندھ دیا جاتا ہے اور ٹہنیوں و پتوں سے ڈھک دیا جاتا ہے۔اس طرح دودھ نکل کر اس برتن میں اکٹھا ہو کربعد میں جم جا تا ہے۔ جب دودھ کا نکلنا بند ہو جاتا ہےتو پو دے کو اور نیچے سے چیرا دے دیا جا تا ہے۔جس سے بقا یا بچا ہوا دودھ بھی نکل آتا ہے۔
دونوں طریقوں سے جمع کئے ہوئے دودھ کو منہ بند کر کےرکھ دیتے ہیں۔تین سا ل بعد دود ھ پڑا رہ کرجب خشک ہو جا تا ہےتو ہینگ بلکل تیار ہوجاتی ہےاور بعد میں کام میں لائی جا تی ہے۔
ذائقہ: کڑوا اور نا پسند یدہ ہو تا ہے۔
مزاج: گرم و خشک۔
مقدار خوراک: ایک سے دو رتی تک۔
مشہور آیوروید گرنتھ بھاؤ پرکاش میں لکھا ہے کہ ہینگ گرم ہے۔ ہاضمہ تیز کرتی ہے ۔ پیٹ کے کیڑوں کو مارتی ہے اور گرمی کو بڑھاتی ہے ۔ کھانسی، دمہ اور دل کے امراض کے لئے مفید ہے۔ ہسٹیریا کو بھی فائدہ دیتی ہے۔
طب یونانی کے مطابق ہینگ دھڑ کے مارے جانے ، منہ ٹیڑھا ہو جانے، ہاتھ کانپنے کے امراض میں مفید ہے۔ جگر، معدہ اور تلی کے پرانے امراض میں فائدہ دیتی ہے ۔ جہاں ہینگ رکھی ہو اس کے پاس کیڑے مکوڑے نہیں آتے ۔ اس سے ایسے مکان ، جس میں خراب ہوا ہو، بھی ہینگ کے رکھنے سے صاف ہو جاتے ہیں۔
ماڈرن تحقیقات: ہینگ میں 40 سے 60 فیصدی رال، لگ بھگ 25 فیصدی گوند اور 6 سے 17 فیصدی فراری تیل پایا جاتا ہے ۔ ہینگ کی خوشبو اس کے فراری تیل پر منحصر ہے۔ جب تازہ نکالا جاتا ہے تو یہ بے رنگ سیال ہوتا ہے ۔ مگر وقت گزرنے پر پیلے رنگ کا ہو جاتا ہے ۔ خالص ہینگ میں الکوحل 90 (فیصدی)میں گھل جانے والا سیال 60 سے 75 فیصدی پایا جاتا ہے اور لگ بھگ 3 سے 5 فیصدی راکھ پائی جاتی ہے ۔ رال میں ایسار سی نوٹی نول، ایسی ایسی نول، فیرولک ایسڈ، ایسٹر نور آزاد فولک ایسڈ 1.33 فیصدی پایا جاتا ہے۔ رال کو کشید کرنے سے امبیلی فیرون حاصل ہوتا ہے ۔
ہینگ میں ملاوٹ: موجودہ وقت میں ہینگ ملاوٹی بھی آ رہی ہے، اس میں مندرجہ ذیل ملاوٹیں ہوتی ہیں :
۱۔ خشک بروزہ ہینگ والے دودھ میں ملا کر خشک کر لیتے ہیں۔
۲۔ ہینگ کے رنگ کا پتھر ملایا جاتا ہے ۔ جب ہینگ کا دودھ اکٹھا کرتے ہیں اس وقت اس دودھ میں ہی پتھر کا سفوف ملا دیتےہیں جو دودھ جمنے کے ساتھ ہی اس کے ہر حصّہ میں جم کر ایک جان ہو جاتا ہے۔
۳۔ جوار، باقلا اور ماش کے آٹے کو ہینگ کے دودھ میں تر کر کے جما دیتے ہیں اور ہینگ کے نام سے فروخت کرتے ہیں۔
خالص ہینگ کی شناخت: ہینگ اصلی ہے اور یا نقلی، خریدتے وقت یہ دیکھ لینا چاہئےکہ اس میں کسی قسم کی ملا وٹ تو نہیں ہے ۔
۱۔ خشک ہینگ کا ٹکڑا لے کر دیا سلائی سے آگ لگائیں اگر موم بتی کی طرح جلنے لگے تو اصلی ہے ورنہ نقلی ہے۔
۲۔ شیشے کے گلاس میں پانی بھر کر اس میں خشک ہینگ کا ٹکڑا ڈالیں اگر پانی کا رنگ دودھ کی طرح سفید ہو جائے اور نیچے کوئی چیز نہ جمے تو خالص ہے۔
۳۔ سب سے بڑھیا ہینگ کی خوشبو بڑھیا اور رنگ چمکدار ہوتا ہے ۔ اس کو “ہیرا ہینگ”کہتے ہیں۔یہ نہ بہت تیز ہوتی ہے اور نہ ہی نقصان دہ ، جب اس کو پانی میں گھول کر یا مصالحہ میں ملا کر دیر ہضم خوراک میں بگھار دیا جائے تو بادی خوراک کو ہاضم بنا دیتی ہے۔
۴۔ تجربہ کار شخص اصلی ہینگ کی پہچان اس کی لہسن کی طرح تیز خوشبو اور چرپرے ذائقہ سے کر لیتے ہیں مگر یہ پہچان ہر ایک شخص کے بس کی نہیں، اس کے لئے بھاری تجربہ چاہئے۔
ہینگ شدھ کر نے کا طریقہ: کسی قلعی وا لے بر تن یالو ہے کے کڑ چھے میں خا لص گھی ڈا ل کرآگ پر رکھیں۔جب گھی اچھی طرح گرم ہو جائےتو اس میں ہینگ ڈال دیں۔ دھیان رہے کہ گھی اور ہینگ اتنے ہوں کہ ہینگ آسا نی سے بھو نی جا سکے۔ بھو نتے وقت آگ ہلکی رکھیں اور کسی چمچ وغیرہ سےہینگ کو ہلاتے رہیں، نہیں تو ہینگ کے جل جا نے کا ڈر ہے۔جب ہینگ پھول جائے اور کچھ لال ہو جائےتو ہینگ کو گھی سے با ہر نکال لیں۔یہی شدھ یا بھنی ہوئی ہینگ ہے۔
گھریلو استعمال: گرم مصالحےکی صو رت میں ہندو ستان اور پڑوسی ممالک کے ہر گھر میں استعمال ہو تی ہے۔عام دال،ساگ وغیرہ کواس کا بگھار دینے کا رواج ہے۔اڑد کی دال کو تو ضرور ہینگ کا بگھار دیا جا تا ہےجس سے کھا نا بہت اچھی طرح ہضم ہو جا تا ہے۔
دیہاتوں میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تواس وقت بچے کے کمرے میں کچھ جلتے ہوئےکو ئلوں پر ہینگ ڈال کرسلگا ئی جا تی ہےجس سے سا رے کمرے میں ہینگ کا دھواں پھیل جا تا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کسی کپڑ ے کے اندر لپیٹ کر بچے کےبازو پر بھی با ندھی جا تی ہےاور بعض اوقات کمر میں بھی با ندھ دیتے ہیں۔
ایلو پیتھک ڈاکٹر وں کی رائے: ڈاکٹر آر این کھوری کی رائےمیں ہینگ کو بھو ن کراستعمال کر نا چایئے۔یہ پرا نے زکام،کھا نسی ، دمہاور پیٹ کے کیڑوں کے لئے استعمال کی جا تی ہے۔موسمی بخار(ملیر یا)سے بچاِوکے لئے بھی ہینگ کا استعمال کرایاجاتا ہے۔پیٹ کے کیڑوں کے لئے ہینگ کے پا نی کا انیما بھی کیا جا تا ہے۔
ڈاکٹر کے ایم ناد کرنی کی رائےمیں دمہ کے دوروں کو آرام دینےکے لئےہینگ کےدھوئیں کولخلخہ جسے “ہینگ وادی دھوم “کہا جا تا ہے،استعمال کیا جاتا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہینگ اور اڑد کی دال دونوں کو بنا دھو ئیں والی آگ پر ڈال دیتے ہیں اور دبا کر جلنے کا دھو اں ایک نلکی کے ذریعے سو نگھا جاتا ہے۔ہسٹیریا اور اس کے متعلق تکالیف کے لئے گولیاں جو ہینگ اور مصبر شدھ برابر لے کرشہد ملا کر بنائی جاتی ہیں اور یہ چھو ٹے چنے کے برابر ہوتی ہیں۔ایک گولی صبح اور ایک گولی شام پانی کے ساتھ استعمال کرائی جاتی ہے جس سے ہسٹیر یا کو آرام آجاتا ہے اور پیٹ کی گیس کے لئے ہینگ،دار چینی،سو نٹھ اور سیندھا نمک ہر ایک برابر برابر لیا گیا ہو، چورن بنا کر5سے 10 گرین کی مقدار میں استعمال کیا جائےتو پیٹ درد کو آرام دیتا ہے۔ہینگ کا انیماپیٹ کے کیڑوں کے لئے مفید ہے۔
ڈاکٹر دیو پرشاد سنیال کی رائے میں بھنی ہوئی ہینگ پیٹ کی گیس،کھانسی ،پرانے زکام،پیٹ درد کے لئے مفید ہے۔یہ ہسٹیر یا کے دورہ کو دور کرتی ہے۔بچہ پیدا ہونے کے بعدآنول کو نکالنے کے لئے بھنی ہوئی ہینگ پانچ گرین ہر آدھے گھنٹے کے بعد دی جاتی ہے۔کان درد کے لئے اسے دوسری ادویات کے ساتھ تیل کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔غرضیکہ ہینگ نہا یت ہی مفید اور اعلی چیز ہے اور بہت سے امراض میں فائدہ مند ہے۔
کرنل ڈاکٹر آر این چو پڑہ کی رائے میں ہینگ پیٹ کی گیس اور ایٹٹھن کے لئے مفید ہے۔عور توں اور بچوں کےہسٹیریا اور پٹھوں کے امراض میں استعمال کی جاتی ہے۔ ہندو ستان میں اکثر گھروں میں استعمال کئے جانے والے مصالحہ جات کا یہ ایک خاص جزو مانی جاتی ہے۔
ڈاکٹر رامن گنیش ڈیسائی کی رائے میں پھیپھڑوں کےامراض میں ہینگ بہت مفید ہے۔ ہوائی نا لیوں کی سوجن ،دمہ، کالی کھانسی وغیرہ امراض میں ہینگ کا استعمال کراتے ہیں۔ رینگن وا،لقوہ، جوڑوں کا درد،جوڑوں کا جڑ جانا، دھڑکا مارا جانا اور ہسٹیریا کا کامیاب علاج ہے۔
دل کے امراض میں ہینگ کا استعمال مفید ہے۔دل کی دھڑکن، دل کی گھبراہٹ میں اس کا استعمال فائدہ مند ہے۔زچہ کو ہینگ کا دینا اچھا کام کرتا ہے۔پیٹ کے امراض میں ہینگ کو گھی میں بھون کر استعمال کرانا بھی مفید ہے۔
ڈاکٹر بی مکر جی کی رائے میں ہینگ بہت سی ادویات میں استعمال کی جاتی ہے۔یہ رال دار گوند( گم ریزن) پیٹ کی گیس کے لئے اور بلغم نکالنے کے لئے مفید ہے۔ہسٹیر یا ،دل کے درد،کالی کھانسی،دمہ میں مفید ہے۔نمونیہ کی بڑھی ہوئی حالت میں اور بچوں کی کھانسی میں اچھا اثر رکھتی ہے۔
ہینگ کے آسان و آزمودہ مجربات
امراض معدہ: ہینگ بڑھیا 6 گرام کی ڈلی گرم توے پر بھون لیں۔پپلی 10گرام،کالا نمک 10 گرام،زیرہ سفید(بھونا ہوا)، اجوائن دیسی 10 گرام،سہاگہ (بھونا ہوا)10 گرام،سونٹھ 10 گرام۔
تمام ادویات کو علیحدہ علیحدہ باریک کر کے ملائیں اور لیموں کے رس میں کھرل کرکے چنے کے برابرگولیاں بنائیں اور سایہ میں خشک کر لیں۔یہ گولیاں معدہ کے امراض ، بد ہضمی،پیٹ درد،پیٹ کی گیس اور ہسٹیریا کی گیس کے لئے مفید ہیں۔ایک سے دو گولی پانی کے ساتھ استعمال کرائیں۔
چھاتی کا درد: منقیٰ کے دا نے(اندر سے بیج نکال کر)میں دو رتی ہینگ رکھ دیں۔اس منقیٰ کو نیم گرم پانی کے ساتھ لینے سےچھاتی وپسلی کا درد دور ہو جاتا ہے۔اگر تکلیف باقی رہے توایسی خوراک تین گھنٹے کے بعد دوبارہ دے سکتے ہیں۔
قولنج: ہینگ عمدہ 5 گرام،نمک کالا20 گرام،نو شادر10 گرام،اجوائن دیسی20 گرام،پپلی 20گرام۔تمام ادویات کو پیس کر سفوف بنا لیں،5گرام نیم گرم پانی سے دیں اور درد والی جگہ پر گرم پانی کا سینک دیں۔
شودی ہرڑیں: ہرڑ کالی سالم 500 گرام، نمک کالا 20 گرام، ہینگ 10 گرام، لیموں کا رس 2 کلو۔تمام ادویات برتن میں ڈال کر ایک ماہ تک پڑا رہنے دیں۔ اگر رس کم ہو جائے تو اور ڈال کر مقدار پوری رکھیں ۔ بعد میں ضرورت کے وقت ایک ہرڑ نکال کر کھلائیں۔ پیٹ کے امراض کے لئے بہت مفید ہے ، بدہضمی و گیس بھی دور ہو جاتی ہے ۔ امراضِ معدہ میں بھی کامیاب ہے ۔
دانت درد: اگر دانت میں کیڑا لگا ہوا ہو اور اس کی وجہ سے درد ہو تو کیڑاکھائے کھوکھلے دانت میں تھوڑی سی ہینگ بھر دینے سے درد دانت دور ہو جاتا ہے۔
کوڑی کا درد: سینہ کی اس جگہ پر جہاں دونوں پسلیاں ملتی ہیں ، اس درد کے لئے دو رتی ہینگ ، منقیٰ (دانے نکال کر) میں لپیٹ کر ایک دو گھونٹ گرم پانی سے دیں۔
افیم کا زہر: جتنی افیم کھائی گئی ہو اتنی ہی ہینگ کھلا دیں تو افیم کا زہر دور ہو جاتا ہے۔ ہینگ افیم کا زہر دور کرنے کے لئے بہت ہی مفید ہے۔
داد: تھوڑی سی ہینگ، کچھ بوندیں پانی لے کر اس میں حل کر کے داد پر لگانے سے داد دور ہو جاتا ہے۔
پیٹ کے کیڑے: بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہو جاتے ہیں جو مقعد کے منہ پر آ کر کاٹتے ہیں جس سے بچہ پریشان ہو کر روتا ہے ۔ ذرا سی ہینگ ایک چمچ پانی میں گھول کر اس میں روئی کا پھایہ بھگو دیں اور اس سے بچے کی مقعد کو دھو دیں۔ اس سے کیڑے مر جاتے ہیں اور بچوں کو آرام مل جاتا ہے۔
ہسٹیریا : ہینگ ایک گرام ، بال چھڑ دو گرام، پھول بابو دانہ دس گرام، ملیٹھی )چھلی ہوئی(دس گرام۔
سب کو پیس کر پانی کی مدد سے چنے کے برابر گولیاں بنالیں۔ دن میں تین بار ایک ایک گولی پانی سے دیں۔
دیگر: جند بید ستر 6 گرام، اجوائن خراسانی 25 گرام، ہینگ 12 گرام، کیسر 2 گرام، بالچھڑ 6 گرام۔
سب ادویات کو باریک کر کے ملائیں اور پانی کی مدد سے چنے کے برابر گولیاں بنا لیں ۔ صبح و شام ایک ایک گولی پانی سے دیں۔
دیگر: صاف ہینگ 25 گرام، سپرٹ ریکٹیفائیڈ 120 گرام۔ ہینگ کو باریک کر کے سپرٹ میں گھول دیں اور شیشے والے کارک کی بوتل لے کر ڈاٹ لگائیں۔ 15 دن تک روز ہلا دیا کریں۔ بعد میں چھان لیں۔ ٹنکچر ہینگ تیار ہے ۔ پانچ بوند آدھا 2/1اونس پانی میں گھول کر پلائیں ۔ ہسٹیریا ، پیٹ درد، پیٹ کی گیس۔ بد ہضمی، ایام کی رکاوٹ کے لئے مفید ہے۔ اگر بچہ پیدا ہوتے وقت عورت کو تکلیف ہو تو 10 بوند نیم گرم پانی آدھا اونس میں ملا کر پلائیں۔بھڑ، بچھو وغیرہ زہریلے جانوروں کے کاٹے پر ایک بوند درد والی جگہ پر لگائیں۔ فورا آرام آ جائے گا۔ دانت کے درد کے لئے پھریری سے درد والی جگہ پر لگائیں اور منہ ڈھیلا کر کے رال گرا دیں۔ درد دور ہو جائے گا اور سوجن وغیرہ کو آرام آ جائے گا۔
اختناق الرحم: ہینگ شدھ، کافور برابر برا بر لے کر ایک چوتھائی رتی سے آدھی رتی تک پان میں رکھ کر صبح و شام کھلائیں۔
دیگر: مرچ کالی 4 گرام، ہیرا ہینگ 2 گرام، نمک کالا 2 گرام، ست پودینہ آدھا 2/1گرام۔ لیموں کے رس میں کھرل کر کے مٹر کے دانہ کے برابر گولیاں بنا لیں۔
خوراک ایک یا دو عرق سونف سے دیں۔ یاد رہے کہ ہیرا ہینگ کو ملانے سے پہلے گائے کے گھی میں بھون لیں ۔ ان گولیوں پر چاندی کا ورق چڑھانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ ہینگ میں گندھک پہلے ہی کافی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ چاندی مل کر بْرا اثر پیدا کرتی ہے۔
چیچک سے بچاو: بچوں کے گلے میں ہینگ اور کافور کپڑے میں باندھ کر لٹکائیں تو پھیلی چیچک میں بچے مرض سےمحفوظ رہیں گے۔
معدہ کا درد: ہینگ آدھی رتی، گڑ دو رتی۔ گولی بنا لیں۔ ایسی خوراک صبح وشام نیم گرم پانی سے دیں۔
دیگر: ہینگ شدھ، سہاگہ)کھیل کیا ہوا(، سانٹھ ، نمک لاہوری ہر ایک 50 گرام۔ ہری مولی کے پتوں کا پانی پھاڑا کے ساتھ چنے کے برابر گولیاں بنا ئیں، ایک سے دو گولی پانی سے دیں۔ امراضِ معدہ کے لئے مفید ہے۔
ہینگ آشٹک چورن: سونٹھ، کالی مرچ، مگھاں، اجوائن دیسی، زیرہ سفید، نمک سیندھا ، زیرہ کالا ، ہینگ بھنی ہوئی، سب برابر برابر وزن لے کر کوٹ کر چھان لیں ۔ خوراک 2 سے 4 گرام ، عرق سونف یا پانی سے دیں۔
یہ چورن بدہضمی، ہیضہ ، دست ، پیٹ کی گیس ، ہسٹیریا اور سنگرہنی کو دور کرتا ہے۔ ہاضمہ کی طاقت کو بڑھاتا ہے ۔ جب کھانا ہضم نہ ہوتا ہو، تب یہ چورن بہت فائدہ دیتا ہے۔
پیٹ کی گیس: ہینگ خالص 10 گرام، نوشادر 10 گرام ، نمک کھانے والا 10 گرام، صاف ابلتا ہوا گرم پانی 16 اونس ۔
پہلے بوتل میں ہینگ، نوشادر اور نمک پیس کر ڈال لیں۔ اوپر سے پانی ڈالیں ۔ خوراک ایک ایک چمچہ دن میں تین بار دیں۔
پیٹ کی گیس، اپھارہ اور مرگی کے لئے مفید ہے۔
دیگر: پیٹ میں جب گیس کا درد اٹھتا ہے ۔ تب بہت ہی خطرناک درد ہوتا ہے ۔ اس کو دور کرنے کے لئے ہینگ 8 گرام، ست پودینہ 2 گرام۔ دونوں کو کھرل میں ڈال کر گھوٹ لیں اور ایک گلاس پانی میں گھول دیں ۔ اس پانی کو دو دو گھنٹہ بعد یا ضرورت پڑنے پر ایک ایک چمچہ مریض کو پلائیں۔ اس کے استعمال سے پیٹ کی گیس کو آرام آ جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ پیٹ درد، اپھارہ وغیرہ امراض میں فائدہ ہوتا ہے۔
ہسٹیریا: ہیرا ہینگ آدھا 2/1گرام صبح، آدھا2/1 گرام شام، پانی سے کھلائیں اور ہینگ کا ٹکڑا گلے میں باندھیں ۔ ہسٹیریا کے لئے مفید ہے۔
زنانہ امراض: مصبر شدھ، مرمکی ہر ایک 20 گرام ، کیسر ، کشتہ فولاد، ہینگ ہر ایک 5 عدد۔ باریک کر کے شہد کی مدد سے چنے کے برابر گولیاں بنائیں ۔ ایک گولی صبح، ایک گولی شام تازہ پانی کے ساتھ دیں۔ یہ دوا زنانہ امراض کے لئےبہت مفید ہے۔ ایام کی بے قاعدگی، تنگی، درد سے آنے اور ہسٹیریا کے لئے بھی مفید ہے۔ خون کی کمی ، ایام کے آتے وقت کمر درد ، پیٹ کی گیس اور بچہ دانی کے دیگر امراض کے لئے مفید ہے ۔اس دوا کا استعمال ایک دو ماہ تک جاری رکھنا چاہئے۔ کئی بار پیچش بھی ہو جاتی ہے۔ تب اس کو ایک دو دن روک روک کر پھر استعمال کرنا چاہئے یا دن میں ایک بار دوائی دینی چاہئے۔ اگر پیچش زیادہ نظر آئے تو 12 گرام چھلکا اسپغول ،عرق سونف کے ساتھ رات کو استعمال کرنا چاہئے ۔ اگر دنوں کے آنے سے ایک ہفتہ پہلے گولیوں کو نیچے دیئے گئے شربت سے استعمال کیا جائے تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اس شربت کا نام شربت ہفت روزہ ہے۔
شربت ہفت روزہ: بیج میتھی20 گرام، گری بیج کھیرا 20 گرام، اجوائن دیسی، سونف، انیسوں ، بیج سویا، مجیٹھ ہر ایک آٹھ آٹھ گرام۔
تمام ادویات کو موٹا موٹا کوٹ کر آدھا کلو پانی میں دھیمی آنچ پر جوش دیں ، آدھا حصہ پانی رہ جائے تو پانی کو چھان لیں اور اس میں 300 گرام چینی ملا کر شربت کا قوام بنائیں۔ یہ شربت سات دن کی خوراک ہے۔ بغیر گولیوں کے بھی اس کا استعمال جب ایام سے پہلے کیا جائے تو ایام کی رکاوٹ ، درد کمر دور ہو کر دن آسانی سے کھل کر آ جاتے ہیں ۔
آگ سے جلنا: اصلی ہینگ کو تھوڑے پانی میں گھول کر مرغی کے پر سے جلی ہوئی جگہ پر دن رات میں چار پانچ بار لگائیں۔ اللہ تعالی کے فضل سے لگتے ہی جلن کو فورا آرام آ جائے گا اور آبلہ بھی نہیں ہو گا۔
ہینگ سے مچھروں سے بچاو: مکھیوں اور مچھروں سے بچاو کے لئے ، یا جہاں سانپ ، بچھو وغیرہ زہریلے جانوروں کے مکان میں داخل ہونے کا ڈر ہو ، وہاں ہینگ کو پانی میں گھول کر مکان میں اور نالیوں میں چھڑکیں ۔ فینائل سے زیادہ مفید ہے۔ وبائی امراض سے محفوظ رہیں گے اور ہوا صاف رہے گی۔
ہینگ سے بننے والے کامیاب مجربات
دافع ہسٹیریا یا چورن: ہینگ بھنی ہوئی، ورچ، جٹا بانسی ہر ایک بیس بیس گرام، کٹھ، نمک کالا 40-40 گرام، واوڑنگ 160 گرام۔
سب ادویات کو کوٹ کر ایک سے تین گرام نیم گرم پانی سے دن میں تین بار دیں۔ یہ چورن لگاتار دو ماہ استعمال کرنے سے ہسٹیریا دور ہو جاتا ہے ۔ پیٹ میں گیس کا ہونا، آنتوں کے کیڑے، نیند نہ آنا سب تکالیف دور ہو جاتی ہیں، ہینگ کی وجہ سے ہسٹریا اور بے ہوشی وغیرہ ان امراض کو بھی پہنچتا ہے۔
درچ اور جٹا بانسی گیس کو خارج کرتی ہے، دماغ کو آرام دیتی ہے ، اس سے مریض کی بے چینی دور ہو جاتی ہے ، نیند لاتی ہے۔
کٹھ معدہ کے امراض کو دور کر کےدماغی دورے دور کرتی ہے۔
ہینگ سے بننے والے آیوروید یک مجربات جیسے ہینگ و آدی چورن ، سمدر آدی چورن ، اگنی مکھ چورن وغیرہ “ماڈرن طبی فارما کوپیا”اردویا “ماڈرن آئیوودیک فارما کوپیا”ہندی میں دیکھیں اور “نرالا جوگی پبلیکیشنز، پانی پت”سے طلب کر سکتے ہیں۔
بد ہضمی: ہینگ، ہرڑ چھوٹی ، سیندھا نمک ، اجوائن سب ادویات برابر برابر لے کر کوٹ پیس کر ملا لیں۔ پانچ پانچ گرام صبح اور دوپہر پانی سے استعمال کریں ۔ اس سے بدہضمی دور ہو جائے گی۔
دانت کا درد: اگر دانت میں کیڑا لگ گیا ہو اور دانت میں درد ہو تو درد والے دانت کے نیچے ہینگ رکھ کر دانتوں سے دبا دیں۔ اس سے درد ختم ہو جائے گا۔
گلا بیٹھنا: آدھا گرام ہینگ کو 250 گرام پانی میں جوش دیں اور نیم گرم پانی سے غرارے کریں، مفید ہے۔
مرگی: ہینگ کو پانی میں گھول کر مرگی والے مریض کو سنگھائیں ۔ اس سے مرگی کا دورہ ختم ہو جاتا ہے۔(حکیم پریم ناتھ )ملتانی ، پانی پت
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
ہینگ ’’حلتیت‘‘(Asafoetida)
دیگرنام:عربی میں حلتیت‘ فارسی میں انگورہ ،گجراتی میں ہنگرا ‘تیلگو میں رنگوا اور انگریزی میں ایسافی ٹیداکہتے ہیں ۔
ماہیت: درخت انجدان کے تنے کا رس (گوند)ہے جو ڈلیوں کی شکل میں گہرے زرد رنگ کا ہوتاہے۔اس کی بو تیز لہسن کی طرح اور مزہ تلخ و خراب ہوتاہے۔
پہچان : اصلی ہینگ کو پانی میں حل کریں توزردی مائل سفید رنگ کا ایملشن بن جاتاہے۔اس میں الکلی شامل کرنے پر اس کا رنگ سبزی مائل زرد ہوجاتاہے۔اگر اصلی ہینگ کا ٹکڑا لے کر سلائی سے آگ لگائیں تو موم کی طرح جلنے لگتاہے۔اصلی ہینگ کی تازہ ٹوٹی ہوئی سطح پر تیزاب لگائیں تو تھوڑی دیرکیلئے اس کا رنگ سبز ہوجاتاہے۔
اقسام : اسکی بہترین قسم ہیرا ہینگ ہے جو فیرولاقسم کے ایک پودے انجدان سفید سے حاصل ہوتی ہے۔ہینگ کی ایک قسم ہینگرہ یا قندھاری ہینگ کہلاتی ہے۔جو الکحل میں حل ہونے کی خاصیت رکھتی ہے۔اور جدید طب میں ٹنکچر سازی کیلئے مناسب ہے۔ اس لئے مغربی مارکیٹ میں اسکی زیادہ مانگ ہے۔
پاکستان اور ہندوستان میں قندھاری ہنگ کو گٹھیاقسم سمجھاجاتاہے کیونکہ اس کا استعمال بطور مسالہ کیاجاتاہے زیادہ بودار ہونے کی وجہ سے ہیرا ہینگ کو زیادہ پسندکیاجاتاہے۔
نوٹ: درخت انجدان کی مکمل ماہیت انجدان میں دیکھیں ۔
مزاج: گرم درجہ چہارم ۔۔۔خشک درجہ سوم۔د(قریب بسم)
افعال: کاسرریاح دافع ،تشنج دافع تعفن ،مخرج بلغم ،مدربول و حیض ،محمر جلد۔
استعمال:حلتیت کو کاسرریاح ہونے کی وجہ سے نفخ شکم کے تحلیل کرنے کیلئے کھلاتے ہیں اور حقنہ کرتے ہیں۔ دافع تشنج ہونے کے باعث تشنجی امراض خصوصاً اختناق الرحم میں مستعمل ہے۔حلتیت اعضاء کے اندر تحریک ہونے کے باعث تشنجی امراض خصوصاًاختناق الرحم میں مستعمل ہیں۔حلتیت اعضاء کے اندرتحریک پیداکرتی ہے۔لہذا انتشارکوقوی کرنے کی وجہ سے مقویباہ بھی ہے ۔مخرج بلغم ہونے کی وجہ سے سرمہ اور ضیق النفس میں استعمال کیاجاتاہے۔محرک اعصاب ہونے کی وجہ سے اعصابی امراض مرگی ‘فالج ‘لقوہ‘رعشہ‘خدر میں استعمال کراتے ہیں ۔
حلتیت جگرطحال اورمعدہ کے امراض میں مفیدہے۔ہاضم طعام ہے۔بھوک خوب لگاتاہے۔
خاص احتیاط۔اس کوبریاں کرکے استعمال کیاجاتاہے۔تاکہ قے نہ لائے بغیر بھنی ہوئی حلتیت غشیان پیداکرتی ہے۔
بیرونی استعمال:حلتیت کا گھروں میں رکھنا وبائی امراض سے بچاتاہے ۔جاذب خون ہونے کی وجہ سے اس کالیپ ہمراہ روغن چوٹ کو مفیدہے۔محمر جلد یعنی جاذب خون ہونی کے باعث اس کو عضو مخصوص کے طلاؤں میں استعمال کرتے ہیں ۔جس سے انتشار قوی ہوجاتاہے۔
نفع خاص: کاسرریاح ،مخرج بلغم ۔ مضر: غشیان پیداکرتی ہے۔
مصلح: کیترا،صندل انیسوں ۔۔۔بے بدل ہے۔
مقدارخوراک:چاررتی سے ایک ماشہ ۔مشہورمرکب: حب حلتیت۔
ذاتی مجرب:حلنیت کو آیوروید‘طب مشرق اور ایلوپیتھک کے علاوہ ہومیوپیتھی میں بھی بطور دواء استعمال کیا جاتا ہے۔
میرے بڑے دادا (نبی احمد) کو تنگی تنفس (دمہ) تھا۔ اس زمانہ میں طب یونانی کی ادویہ بکثرت استعمال کی جاتی تھیں۔سو دادا حضور حلتیت کو توے پر بریان یا آٹے میں ملفوف کرکے آگ کی بھوبھل میں رکھتے تھے۔جب آٹا سرخ ہو جاتا تو مدبر حلتیت کو نکال کر دانہ مسور کے برابر پانی سے کھالیتے ۔ جس سے وہ تنگی تنفس جیسے موذی مرض سے محفوض رہتے۔(حکیم نصیر احمد طارق)
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق