مختلف نام: عام نام ہلہل،ہلہل،اولیل-گجراتی میں سورئیے مکھی پھول،سنسکرت میں سوریا ورتا اور یونانی میں نبطافلن وغیرہ ناموں سے موسوم ہے۔
اسے گجراتی میں سورئیے مکھی سنسکرت میں سوریہ ورتا اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے تمام پتوں کا رُخ سورج کی طرف رہتا ہے۔
شناخت:ہلہل کا پودا ایک سے تین فٹ تک اونچا ہوتا ہے۔پتے پانچ اُنگلیوں کی طرح ایک ڈنٹھل پر لگے ہوتے ہیں۔پتوں اور شاخوں پر باریک رواں بکثرت ہوتا ہے۔ شاخ کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے۔شاخیں اندر سے کھوکھلی ہوتی ہیں۔ ان شاخوں کی جڑوں میں سے ایک ایک دو دو اور بھی باریک شاخیں نکلتی ہیں۔جن پر چھوٹے چھوٹے پتے لگتے ہیں۔لوگ ان کو پکا کر روٹی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ان شاخوں میں سے اورشاخیں نکلتی ہیں۔جن میں سے تار سے ہوتے ہیں۔ان میں پھول بنتا ہے۔پھول جھڑ جانے کے بعد پھلی مانند پھلی اُرد کے لگتی ہے۔جو پتلی اور چھوٹی ہوتی ہے۔اس کے اندر رائی کی طرح دانے ہوتے ہیں بیج پک کر سیاہ پڑ جاتے ہیں۔اندر سے تھوڑے تھوڑے کھوکھلے اور گول ہوتے ہیں۔
اس کی چھ قسمیں دیکھی گئی ہیں۔ایک قسم کے پتوں میں شقیں نہیں ہوتیں۔دوسری قسم کے پتوں میں تین تین شقیں ہوتی ہیں اور تیسری قسم کے پتوں میں چار چار ،چوتھی قسم کے تمام اجزاء زرد ہوتے ہیں پانچویں قسم کے پتوں میں بہت سی شقیں ہوتی ہیں۔ چھٹی قسم کے پھول سرخ ہوتے ہیں۔چوتھی اور پانچویں قسم کمیاب ہے۔بعض کے پھول سفید اور بعض کے زرد ہوتے ہیں۔
جنگلی ہلہل کو کنکوٹی کہتے ہیں۔اس کا قد آدھے ہاتھ کے برابر اور پتے کلتھی کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں۔اور ان سے ہاتھی کی سی بُو آتی ہےبعض کی بو تیز،تند اور خراب ہوتی ہے۔اس کی ایک قسم کو ہلہل دیوانہ بھی کہتے ہیں ۔تازہ ہلہل کو کوٹ کر پانی کے ساتھ اس کا عرق کھینچتے ہیں۔اس طرح اس کا تیل نکل آتا ہے۔اس تیل میں لہسن یا رائی کے تیل کی طرح منافع ہوتے ہیں۔اکثر گندی روڑیوں،جنگلوں اور ویرانوں میں پیدا ہوتا ہے۔
مزاج:تیسرے درجہ میں گرم و خشک۔
یہ پودا بہت سے امراض میں مفید ہے۔تفصیل حسب ذیل ہے:
امراض دماغ:ہلہل کے بیج 6گرام،مغز گھونگچی سفید 4گرام،مرچ سیاہ2گرام،نوشادر ایک گرام۔کوٹ چھان کر بطور نسوار سونگھیں ،تو ناک سے رطوبت جاری ہو کر نزلہ اور شقیقہ مزمن جاتا رہتا ہے۔مگر یہ دوا تیز بہت ہے۔
امراض گوش:اگر کان میں پھنسیاں نکل آئیں تو اس کا رس نیم گرم کان میں ڈالنے سے پھنسیاں دُور ہو جاتی ہیں۔
کان کے کیڑے:ہلہل کے تازہ پتےپیس کر قدرے پپلی کا سفوف ملا کر اس کی بتی کان میں رکھنے سے فائدہ ہوتا ہے۔
اگر کان میں درد ہوتو اس کے پتوں کا رس گرم کر کے کان میں ڈالیں۔
امراضِ دندان:اگر دانت میں سوراخ ہو اور اس میں سخت درد ہو ،مریض مارے درد کے سخت بے تاب ہو رہا ہوتویہ بُوٹی کمال کا اثر رکھتی ہے۔
اس کے پتوں کا رس بقدر 3 گرام درد سے مخالف کان میں ڈالیں۔روتا ہوا مریض ہنس کر کہے گا کہ اسے کوئی درد نہیں ہے۔یہ نسخہ ایک دیہاتی سے بصد منت کے بعد حاصل ہوا۔اس دیہاتی کے مکان پر کئی لوگ اس علاج کے لئے آتے رہتے تھے اور اچھے ہو جاتے تھے۔
اس کے استعمال سے پیٹ کے کیڑے رفع ہوجاتے ہیں،چنانچہ اس کے بیج بقدر مناسب اگر شکر کے ساتھ کھلائے جائیں اور اس کے بعد روغن ارنڈ(کیسٹر آئل) کا جلاب دے دیا جائے تو تمام کیڑے خارج ہوجاتے ہیں۔
اس کے پتوں کا رس بقدر مناسب پلانا مسہل ہے ۔قولنج کو دور کرتا ہے۔
گل قند ہلہل:ملیریا بخار کی کامیاب دوا ہے۔کونین سے زیادہ فائدہ دیتا ہے۔پھول ہلہل لے کر ڈنڈیاں دور کر کے اس میں دوگنی چینی ملا کر گل قند بنائیں۔تین تین گرام صبح و شام پانی سے کھلائیں۔ملیریا کے دنوں میں اس کے استعمال سے بخار نہیں ہوتا۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
ہلہل’’کان پھوٹی‘‘(Carayella Seeds)
دیگرنام:بنگالی میں ہرہریا،ہندی میں ہر ہر ‘سندھی میں کن کٹی اور انگریزی میں کراویلاسیڈز کہتے ہیں ۔
ماہیت:اس کا پودا ایک گز تک لمباہوتاہے۔اس کے پتے چار‘ پانچ جگہ سے کٹے ہوئے اور بیج چھوٹے گردہ کی شکل کے ہوتے ہیں ۔اس پودے کے تمام اجزاء سے ہینگ جیسی بو آتی ہے۔
مقام پیدائش:ہندوستان کا گرم علاقہ اور خصوصاًموسم گرمامیں اکثر تمباکو کے کھیت میں پیداہوتاہے۔مزاج: گرم تر۔
افعال و استعمال:قاتل کرم شکم اور دافع تشنج ہونے کی وجہ سے اس کے بیجوں کو چینی میں ملاکر صبح و شام دوروز تک بمقدار تین گرام کھلاکر تیسرے روز روغن بید انجیر کا جلاب دینے سے کرم شکم خصوصاًکیچوے خارج ہوجاتے ہیں ۔
استعمال بیرونی:پتے آبلہ انگیز اورمحمر ہیں ۔بیجوں کو سرکہ میں کچل کر موچ وغیرہ پر لگاتے ہیں ۔درد گوش کیلئے اس کے پتوں کاپانی گرم گھی میں ملاکر نطوراًمفید ہے اس کے پتوں کے عرق اور نقدے میں کشتہ فولاد تیار کرتے ہیں
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق