مختلف نام :مشہور کاجو –ہندی کاجو ، کاجو ولی –سنسکرت کا جو تک ، کاجُوت، کرتارُو شکر – بنگالی ہمبلی بادام-
انگریزی کیشونٹ (Cashew Nut)لاطینی میں اینا کارڈیم آکسی دینٹلز لینن (Anacardium Occident Aliein) کہتے ہیں۔
شناخت: ہندوستان میں بمبئی ، کیرالا وغیرہ میں بکثرت پیدا ہونے والا پھل ہے۔ اس کے درخت 30سے 40فٹ کے لگ بھگ اونچے ہوتے ہیں۔ کا جو اسی درخت پر چھوٹے چھوٹے گولائی لئے لگتے ہیں۔ کاجو کا چھلکا نہایت نازک ہوتا ہے ان پھلو ں کے سوکھنے پر پھل خود بخود علیحدہ ہو جاتے ہیں اور ان کے اندر سے دو بیجوں کی صورت میں کا جو نکلتا ہے۔ کاجو ہندوستان سے غیر ممالک میں جاتاہے۔ جس سے کروڑوں روپیہ سالانہ زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ یہ بادام سےبھی زیادہ لذید ہوتا ہے۔ کاجوکے درخت میں نومبر سے فروری تک پھول لگتے ہیں اور پھل مارچ سے مئی تک پکتا ہے۔ درخت سے کاجو جو گر جا تےہیں انہیں چن لیا جاتا ہے۔ کیو ں کہ وہی کاجو کی فصل ہوتی ہے۔
ایک درخت سے 20 پونڈ سے 30 پونڈپختہ ہو کر کاجو گرتے ہیں ۔ مگر کئی درخت ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے پچاس پچاس پونڈ تک کاجو حاصل ہوتے ہیں۔ ۔ کھانے کے لائق بنانے کے لئے کاجو کو گرم ریت یا لوہے کی کھلی کڑاہیوں میں یامٹی کے برتنوں میں بھونا جا تا ہے۔ اس کا چھلکا اتار دیا جاتا ہے اور مغز کے اوپر کی بھورے رنگ کی تہہ بھی اتار دی جاتی ہے۔
بادام کی طرح کاجو بھی نہایت مقوی میوہ ہے۔
ماڈرن تحقیقات :ایک کلو مغز کاجو میں ایک ہزار یونٹ وٹامن اے ،ایک ہزار 9 سو یونٹ وٹامن بی 2،اچھی مقدار میں نکو ٹینک ایسڈ اور پانچ ہزار نو سو ساٹھ یونٹ کلو ریز ہوتے ہیں علاوہ ازیں روغنی مادہ، معدنیا ت ، کاربوہائیڈ ریٹ ، کیلشیم ، فاسفورس اور فولاد جیسے قیمتی اجزاءبھی پائے جاتے ہیں۔
مزاج:گرم وتر۔
خوراک:گری کی مقدار 6گرام سے 25گرام تک اور تیل کی 3گرام سے 6گرام تک ہے۔
فوائد:کاجو نسوں کی کمزوری اور وٹامن بی کی کمی کو دور کرتا ہے اور جوانی کی حفاظت کر تاہے۔ بڑجاپے کی کمزوری کے لئے بھی مفید ہے۔ کاجومیں لوہے(آئرن ) کی مقدار اچھی ہوتی ہےاس لئے کمی خون کےلئے بھی یہ بہت مفید ہے۔ پارٹیوں میں کسی دیگر سوکھے میوے کی اتنی مانگ نہیں ہوتی جتنی کہ کاجو کی ہوتی ہے۔ کاجو اپنے آپ میں بہت ہی خوش ذئقہ میوہ ہوتا ہے۔ اگر اسے بھون کر نمکین بنا لیا جا ئے تو اورزیادہ خوش ذائقہ اور مفید ہو جاتاہے۔
بدن کو موٹاکرنے لئے بھی اسے استعمال کیا جا تا ہے۔ دماغ کی کمزوری ،نسیاناور حافظہ کی کمزوری کے لئے یہ خاص علاج ہے۔ اگر روزانہ 15-20گرام کاجو پانی سے دھو کر اوپر سے شہد چاٹ لیا جائے تو بہت ہی مفید ہے۔ خرا بی خون،ریاحی امراض،بواسیر،کوڑھ،سفید داغ،کھال(جلدی امراض)،خونی دست ،دل کی کمزوری،نسوں کی کمزوری کا میاب علاج ہے۔ گوشت کی بجائے اس کا پروٹین جلد ہی جسم میں بہت اچھی طرح ہضم ہو جاتا ہے اور اس سے یورک ایسڈ نہیں بنتا ہے جیسا کہ گوشت کھانے سے ہوتاہے۔اس کی چھال کا جوشاندہ دینے سے سنگرہنی کا مرض دور ہو جاتا ہے۔ کمزوری دماغ کے لئے اسے صبح خالی پیٹ کھا کر اوپر سے شہد خالص استعمال کرتے رہنے سے فائد ہوتا ہے ۔قبص ہو تو اسے منقٰی(دانے نکال کر )کے ساتھ کھا نا چاہئے۔جلد (کھال)کے امراض میں جب جسم پر جھوٹے جھوٹے کالے مسّے ہوں تو اس کے چھلکے کا تیل لگانا چاہئے،بوائی پر بھی استعمال کرنے سے گرم مزاج والوں کے لئے غیر مفید ہے۔کاجو سے دودھ اور دہی بھی بنایا جاتا ہے ۔ کاجو کو چار گھنٹے پانی میں بھگو کر پھر پیس کر چھان لینے سے دودھ تیار ہوجاتا ہے۔یہ خوش ذائقہ ہونے میں ہلکا ہوتا ہے۔ اسی دودھ کو ضامن لگاکر جما دینے سے دہی بن سکتا ہے۔یہ دودھ اور دہی عام کمزوری و شادی سے پہلے وشادی کے بعد کی کمزوری کے لئے بہت ہی مفید ہے۔غرضیکہ کاجو ہر اعتبار سے ایک بہت اچھا میوہ ہے اور ہر لحاظ سے خوراک کے لئے بھی بہت ہی فائدہ مند ہ ثابت ہو ا ہے۔
کاجُو کے آسان طبی مجربات
بدہضمی:کشمش20گرام،کا جو20گرام-دونوں کو پانی سے دھو کر کھانے سے بدہضمی و قبض کا عارضہ دور ہو جاتا ہے۔
مَسّے:کاجو کا تیل مسوں پر پھریری سے لگاتے رہنے سے وہ جلد درست ہو جاتے ہیں۔پائوں کی بوائیوں کے لئے بھی اس کا تیل لگانا فائدہ مند ہے۔
جسم کا پتلا ہونا : کاجو 20سے 30 گرام تک روزانہ پانی سے دھو کر شہد کے ساتھ کھائیں۔جسم کا پتلاپن دُور ہو کر جسم موٹا ہو جائے گا۔
سنگرہنی:کاجو کے درخت کی اندرونی چھال 10گرام 100 گرام پانی میں چھ گھنٹے بھگودیں۔ پھر اُبال کر چھان کر پینے سے سنگر ہنی کو آرام آجاتا ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
کا جوCashew Nut
دیگر نام: فارسی میں بادام فرنگی،بنگلہ میں پجلی بادام، گجراتی میں کا جولیا،ملیا لم میں کپا مادو،مر ہٹی میں کاجو کالی،سنسکرت میں شوف ہر،پنجابی میں کھا جا اور انگریزی میں کپشونٹ کہتے ہیں۔
ماہیت:مشہور مخروطی شکل کا خشک پھل ہے۔اس کا درخت سدا بہار جو کہ دس سے بیس فٹ تک لمبا ہوتا ہے۔اس کی چھال کھردری ہوتی ہےاور جب درخت پرانا ہوجاتا ہے تو چھال پھٹ جاتی ہے۔ پتے کھٹل یا کھرنی کے پتوں کی طرح لمبوتری شکل سے چار سے پانچ انچ تک لمبے اور تین سے پانچ انچ تک چوڑے ،پھل سفید سرخی مائل گچھوں میں لگتے ہیں اور ان پر زرد رنگ کی دھا ریا ں ہوتی ہے۔پھل امرود کے مشابہ ہوتے ہیں۔اس کے بیجوں کی شکل گردوں کی سی ہوتی ہے اور نہایت نازک چھلکوں کے اندر سفید مغز ہوتا ہے۔اس کو آگ میں بھون کر کھاتے ہیں اس درخت کا پھل (مغز)چھال اور تیل استعمال ہوتا ہے۔
مقام پیدائش: جنوبی ہند خصوصا مالا بار اور کر ناٹک
مزاج:گرم تر۔
افعال و استعمال: کا جو کے مغز سے جسم کو غذٓا ئیت اور دماغ کو تقویت و ترطیب دیتا ہے۔بدن کو موٹا کرتا ہے۔منی بڑھاتا ہے۔نہار منہ شہد کے ساتھ کھانا دافع نسیان ہے۔مغزسے ہلکے رنگ کا روغن بھی نکالا جاتا ہے۔جو روغن بادام کی طرح مرطب و معتدی ہوتا ہے۔اس کے چھلکوں کے باریک ٹکڑے کر کےہم وزنی پانی میں ڈال کر جوش دینے سے ایک گاڑھا سیاہ رنگ کا تیل نکلتا ہے جو کہ محمر اور مقرح ہے۔یہ روغن دیمک سے محفوظ رکھنے کے لئے مچھلی کے جالوں اور عمارتی لکڑی کو لگایا جاتا ہے۔
کیمیاوی اجزاء:سیاہ کا وی سیال،تیزابی تیل،مقوی قلب ترشہ (کا رڈی ایک ایسڈ) بلا نڈ آئیل چر بیلا ملطف آئیل۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق