کٹیری )کنٹ کاری(لگ بھگ ہندوستان کے سب صوبوں میں سب قسم کی مٹی میں پائی جاتی ہے۔ مگر ریتیلی زمین میں یہ ذیادہ پیدا ہوتی ہے، پڑوسی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔
مختلف نام: اردو کٹیلا۔ فارسی باد گنوری، کٹائی خورد۔ عربی بدن جانکرے ہندی کیٹری، کیٹلی، کٹائی ، بھٹ کیٹا، لکھنوکٹائی۔ سنسکرت کنڈکاری ، ندگگھا، کھدہا، دیادھری۔ پنجابی کنڈیاری۔ مراٹھی ریگنی، بھوئی ریگنی، لگھو ریگنی، گجراتی بھوئے ریگنی، بیٹھی ، بنگالی کنڈ کاری۔ تیلگو ریوٹی ملنگا۔ تامل کو و ٹور م کیڈ گالی۔ ملیالم کنڈ کاری کت، کانٹے کتری۔ انگریزی وائلڈ ایگز پلانٹ (Wild Eggs Plant) اور لاطینی میں سولنم کنٹھو کار پم شراڈ ونڈے (Solumn Katho Carpum Schrad Wendi)
شناخت:چھوٹی کٹیری کے پھل پیلے ہوتے ہیں۔ یہ بہت کانٹے دار زمین پر پھیلنے والی بیل ہے۔ یہ کنڈ کاری کہلاتی ہے۔ اس کا تنا ادھر ادھر مڑا ہوتا ہے۔ کئی شاخیں ہوتی ہیں اور شاخیں کبھی ادھر ادھر مڑی ہوتی ہیں، پتے لمبے گول، کٹے ہوئے کنارے، روئیں و کانٹے دار ہوتے ہیں۔ کانٹے اس قدر تیز ہوتے ہیں کہ آسانی سے انہیں ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا، پھول بینگنی گہرے نیلے رنگ کے ہوتے ہیں ۔ ان کے بیرونی حصوں پر بھی کانٹے ہوتے ہیں ۔پھل گرمی کے موسم میں آتے ہیں ، ذائقہ چرپرا ۔ یہ سپاری جتنا بڑا ہوتا ہے۔ اس کے بیج پھلوں میں ننھے ننھے بینگن کے بیجوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ جڑ کی لکڑی سخت انگلی برابر موٹی ہوتی ہے۔
مقدار خوراک: پتوں کا رس 3 گرام سے 6 گرام تک، جڑ ایک سے دو گرام، پھل یا پھول کا جوشاندہ دو گرام تک۔
مزاج: دوسرے درجہ میں گرم خشک، کئی حکیم ،وید اسے تیسرے درجہ میں گرم و خشک مانتے ہیں۔
فوائد: چھوٹی کٹیری بد ہضمی، ہچکی، کھانسی، دمہ ، بخار،پیٹ کے کیڑے، دل کے امراض کا کامیاب علاج ہے، اس میں بلغم کو دور کرنے کی خاص طاقت ہے، دمہ اور کھانسی میں اس کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، اس کا جوشاندہ پینے سے چھاتی میں جمع ہوا بلغم دور ہو جاتا ہے۔ اس سے گلے اور سانس کی نالی کا سوکھا پن کم ہو کر بلغم باہر نکلنے لگتا ہے، اس لئے گلے اور سانس کی نالی کی سوجن کی پہلی حالت میں اسے استعمال کرتے ہیں۔
زبردست دمہ کے مرض میں اس کے پھلوں کے جوشاندہ میں ہینگ بھنی ہوئی ایک گرام تک اور اتنا ہی سیندھا نمک ملا کر استعمال کرنے سے جلد آرام آ جاتا ہے۔ اس دوا کا استعمال بلغم دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
دمہ کی لاجواب دیسی دواکنٹ کاری
پٹیالہ گورنمنٹ آیورویدک کالج کے ریسرچ سینٹر میں ایک بھارتی جڑی بوٹی کنٹ کاری )کنڈیاری( پر ریسرچ جاری کی گئی ہے جو کہ دمہ کے لئے بے حد مفید ثابت ہوئی ہے، اس سینٹر کا ادگھاٹن کافی عرصہ پہلے پنجاب کے وزیرِصحت نے کیا۔ یہ پراجیکٹ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے شروع کیا ہے۔
کنٹ کاری زمانہ قدیم سے کھانسی اور دمہ کے لئے آیوروید میں مجرب ہے اور یونانی حکیموں کے علاوہ ہومیو پیتھک ڈاکٹروں نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کیا ہے اور اب اس ریسرچ کے مکمل ہونے سے دمہ کے مریضوں کے علاج کے سلسلہ میں ایک نایاب شروع ہونے کا امکان ہے۔
۱۔ ایلو پیتھی میں اس کا نام زانتھو کارپم (Xantho Carpum) ہے۔ اس پیتھی میں اس دوا کی جڑ ادویاتی طور پر استعمال کی جاتی ہےاور اسے پیشاب آور ، مخرجِ بلغم اور دافع بخار مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کھانسی ، دمہ، زکام، نزلہ اور چھاتی کے درد کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ ایلو پیتھی میں بطور گاڑھا (Decoction) جوہر (Extraction) اور ٹنکچر (Tincture) کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے۔ کھانسی اور بخاروں میں ا س کا جوشاندہ )کاڑھا( گلو کے ساتھ ملا کر دیا جاتا ہے۔ کھانسی ، نزلہ، زکام میں اس کا کاڑھا فلفل )پپلی( اور شہد کے ساتھ ملا کر دیا جاتا ہے۔ اس کا ٹنکچر قے روکنے کے لئے مجرب ہے۔
1۔کاڑھا کنٹ کاری (De Coction Kantkari)
کنٹ کاری کی جڑ جو کوب شدہ دو اونس
پانی کشید شدہ 24 اونس
اسے اچھی طرح ابالیں اور پھر چھان لیں اور دیکھیں کہ کل پانی 20 اونس باقی رہا ہو۔
مقدار خوراک: آدھے سے دو اونس تک دیں۔
2۔ ایکسٹریکٹ کنٹ کاری (Extract Kantkari)
کنٹ کاری جو کوب شدہ 20 اونس
پر کو لیٹر کے زریعہ 20 اونس ٹنکچر حاصل کریں ، پھر اس سے الکوحل اڑا دیں ، حتی کہ کل 14 اونس ایکسٹریکٹ رہ جائے ۔
مقدار خوراک: 5 سے 15 قطرے۔
3۔ ٹنکچر کنٹ کاری (Tincture Kantkari)
دو اونس ایکسٹریکٹ میں دس اونس الکوحل ملانے سے ٹنکچر تیار ہو سکتا ہے، اگر الکوحل نہ ملے تو برانڈی استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔
2- آیورویدک: اس پیتھی میں اس کا کاڑھا ، گھرت وغیرہ استعمال ہوتے ہیں اور ان کے بیان آیورویدک بارما کو پیاسے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مناسب مقدار میں استعمال کرنے سے کھانسی اور دمہ میں مفید ہے۔
آیورویدک میں اس کو کف خارج کرنے والا ، کڑوا، ہاضمہ بڑھانے والا، جلاب آور ) وریچک( ، پیشاب آور، خشک کرنے والا (Astrinoent)، پیٹ سے کیڑوں کے نکالنے والا (Antheimintic) اور دافع بخار مانا گیا ہے۔ یہ بخاروں، کھانسی، دمہ، پیٹ کے اپھارہ ، جلودھر، امراضِ قلب، چھاتی میں درد اور پیشاب کی نالی کے زخموں میں مفید مانا گیا ہے۔ اس کا کاڑھا ایک سے دو اونس کی مقدار خوراک میں یا اس کا رس ایک سے دو گرام کی مقدار خوراک میں دیا جاتا ہے۔
اس کی جڑ مخرجِ بلغم ، پیشاب آور، دافع بخار، دافع درد، دافع کھانسی، دمہ ، پیشاب درد سے آنے کی صورت میں، پیشاب میں پتھری کی صورت میں اور جلو دھر میں استعمال کی جاتی ہے۔ ورم جگر اور ورم تلی میں بھی مفید ہے۔
3-یونانی میں اس کا سفوف اور معجون مروج ہے، معجون کا نسخہ کسی معتبر قرابا دین سے زیرِ تحت معجون کنڈیاری دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بصورت جوشاندہ اور خیساندہ بھی استعمال میں لائی جاتی ہے۔
اس کی جڑ کھانسی، دمہ، زکام، بخاراور چھاتی میں درد کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے قے روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کا تنا، پھول اور پھل کڑوے، مخرج باد اور پاؤں کی جلن اور چھالوں کے لئے مفید ہے۔ یہ پیشاب آور ہے، لہذا جلودر میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے پتے مقامی طور پر استعمال کی صورت میں دافع درد ہیں اور ان کا رس مرچ سیاہ میں ملا کر گنٹھیا میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پھولوں کو ہلکے نمکین محلول میں ملا کر آنکھوں کے امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔
4- ہو میو پیتھی میں اس دوا کا مدر ٹنکچر مروج ہے اور اس کے فوائد وہی ہیں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ اس کی مقدار خوراک 4 سے 15 منم رکھی جاتی ہے۔
کنٹ کاری کے آسان آیورویدک مجربات
دمہ و کھانسی: کنٹ کاری ، گلو، پوکھر مول، سونٹھ ہر ایک پانچ پانچ گرام لیں۔ اس کی چار خوراک بنائیں۔ ایک ایک خوراک کا 25 گرام پانی میں جوشاندہ بنا کر چھان کر پلائیں ۔ دمہ، کھانسی، پسلیوں کا درد و بخار وغیرہ دور ہو جاتے ہیں۔
موسمی بخار: کنڈ کاری )کنڈیاری( ، دھنیا، سونٹھ، گلو، موتھا، صندل سفید، چرائتہ، پٹول پتر، اڑوسہ ) بانسہ کے پتے(، پوکھر مول، کٹکی، اندر جو، نیم کی چھال، بھارنگی، پت پاپڑہ، سب برابر لے کر رکھ لیں، 12 گرام لے کر 30 گرام پانی میں جوش دے کر جوشاندہ بنائیں، پھر چھان کر پلائیں۔ موسمی بخار دور ہو جاتا ہے۔
کنڈ کاری نمک: 200 گرام کنڈ کاری کے پھلوں کو نمک سے بھر کر پھلوں کو مٹی کے سکورے میں رکھ کر چاروں طرف مٹی کا لیپ کریں اور دس کلو اپلوں کی آگ دیں۔ بعد میں مٹی اتار کر اس نمک کے کٹے ہوئے پھلوں کو پیس لیں، یہ پسا ہوا سفوف یہ کنڈ کاری نمک کہلاتا ہے۔اس کنڈ کاری نمک کو 2 سے 4 رتی تک تازہ پانی سے دیں ، کھانسی و دمہ کو بہت آرام ملتا ہے۔
بے ہوشی: کنڈ کاری کا ایک پھل اور سونٹھ برابر لے کر سفوف بنا لیں اور کاغذ کی پھونکنی بنا کر ناک میں پھونکنے سے بے ہوشی کا عارضہ دور ہو جاتا ہے۔
بخار: کنڈ کاری، دار ہلدی، ناگر موتھا، ، کٹکی ، تر پھلہ ، پٹول پتر، ہلدی ، نیم کی چھال، ہر ایک برابر لیں۔ اس میں سے 12 گرام لے کر 25 گرام پانی میں جوشاندہ بنا کر چھا ن کر پینے سے ملیریا و انفلوئنیزا کو آرام آ جاتا ہے۔
مہاراسنا آدی کواتھ: راسنا دو حصہ، کنڈیاری )کنٹ کاری( بڑی و چھوٹی، دھمانسہ، کھرینٹی، جڑارنڈ، کچور، دیودار، وچ، بانسہ، سونٹھ، ہرڑ، چب، ناگر موتھا، اِٹ سٹ، گلو بدھارا، سونف، گو کھرو، آسگندھ، اتیس،گودا املتاس، ستاور،مگھاں، دھنیا، پیا بانسہ، ہر ایک برابر وزن، 20 سے 40 گرام کا جوشاندہ بنا کر چھان کر پلائیں ۔ دات روگوں، لقوہ، گنٹھیا، جسم میں کپکپی، رعشہ، دھڑ کا مارا جانا اور اولاد کی آرزو کے لئے مفید ہے۔
چیون پراش اولیہ: اس میں کٹائی )کنٹ کاری( چھوٹی اور بڑی شامل ہے، یہ اولیہ کھانسی اور دمہ کے لئے مفید ہے اور مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
کٹائی خرد(کنڈیاری)(Wild Eggs Plant)
لاطینی میں:(SolanumJacquine)
دیگر نام:اردو میں بھٹکٹائ یا بھٹ کٹیا‘ پنجابی میں مہوکڑی‘ ہندی میں کٹیل‘ سندھی میں کنڈیاری یا کانڈیری‘ گجراتی میں بیٹھی رنگڑی‘ مرہٹی میں بھوئیں ر نگڑی‘ بنگالی میں اور سنسکرت میںکنٹ کاری یار اور انگریزی میں والڈ ایگ پلانٹ کہتے ہیں۔
ماہیت:خاردار زمین پر مفروش ہوتی ہے یہ ایک فٹ سے چار فٹ تک قطر میں جگہ گھیرتی ہے۔ پھلوں اور پھولوں کی ڈنڈی تک زرد رنگ کے کانٹے لگے ہوتے ہیں۔ پتےچار پانچ انچ لمبے اور دو تین انچ چوڑے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں اور اس کے کانٹے لگ بھگ آدھے انچ لمبے تیز اور سیدھے ہوتے ہیں۔ پھول نیلے رنگ کا خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کے درمیان زرد رنگ کا زیرہ ہوتا ہے۔ پھلگچھوں میں لگتے ہیں جو خام ہونے پر سبز رنگ کے ہوتے ہیں لیکن پکنے پر زرد ہوجاتے ہیں۔ جن کے اندر بے شمار تخم ہوتے ہیں ۔پھلکا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ اس کے پھل پر دھاریاں سے ہوتی ہیں اور بیر کے برابر موٹا ہوتا ہے۔
مقام پیدائش: پنجاب‘ پاکستان سے لے کر ہندوستان میں آسام تک جب کشمیر سے لے کر لنکا تک ہر جگہ نمناک مقاموں پر پیدا ہوتی ہے۔
نوٹ:کٹائی خرد پھول والی بہت کامیاب ہے لیکن یہ ہوتی بہت کم ہے‘ کبھی کبھی نیلے پھول والی کنڈیاری کے نزدیک سفید پھول والی مل جاتی ہے۔ بلحاظ ڈنڈی‘ پتے اور پھل یکساں ہوتے ہیں۔ صرف پھولوں کی رنگ میں فرق ہوتا ہے۔ سفید پھولوں والی کاسنسکرت نام گربھ( حمل دلانے والی) ہے کیونکہ اس کے کھانے سے بے اولادوں کو اولاد ہونے لگتی ہے۔
مزاج:گرم خشک۔۔۔۔۔۔ بدرجہ سوم
افعال:مسہل‘مصفیٰ خون‘ قاتل کرم شکم‘ منفث و مخرج بلغم‘ دافع تپ بلغمی‘سعوطاً نافع صرع و اختناق الرحم
استعمال( بیرونی):کرم دندان میں اس کے پھل کو حقہ میں تمباکو کی جگہ رکھ کر پینے سے کرم ہلاک ہوجاتے ہیں اور درد ساکن ہو جاتا ہے۔صرع اور اختناق الرحم( مرگی اور ہسٹریا) کے دورہ میں اسکا شیرہ سعوط کرنے سے مریض ہوش میں آ جاتا ہے۔
زرد شدہ پھل سایہ میں خشک کر کے باریک پیس کر بطور نسوار سونگھنا درد شقیقہ اور درد سرکے لئے مفید ہے۔ اس سے روکا ہوا مواد چھینکوں کے ذریعے خارج ہوکر سر ہلکا ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی جڑ کا پوست+ درخت انار اور پوست درخت کندوری پیس کر لٹکے ہوئے پستانوں پر عورت لیپ کرے تو پستان سخت ہوجاتے ہیں۔
استعمال( اندرنی):مسہل ومصفیٰ خون ہونے کی وجہ سے جذام‘ آتشک‘ جیسے امراض فساد خون میں شرباً مستعمل ہے چنانچہ مطبوخ ہفت روزہ جو کہ آتشک و فساد خون کے امراض میں مستعمل و معمول ہیں اس کا ایک اہم ترین جز کٹائی خرد مع بیخ و برگ بھی ہے قاتل کرمشکم ہونے کی وجہ سے پیٹ کے کیڑوں کو ہلاک کرکے خارج کرتی ہے۔
منفث ومخرج بلغم ہونے کی باعث سرفہ( کھانسی) اور ضیق النفس بلغمی میںمختلف طریقوں سے استعمال کرائی جاتی ہے۔ تپ بلغمی میں دیگر ادویہ کے ہمراہ اس کی جڑ کا جوشاندہ بنا کر پلایا جاتا ہے۔
کھانسی‘ نزلہ اور ضیق النفس میں اس کی جڑ کا جوشاندہ فلفل سیاہ دراز اور شہد ملا کر پلاتے ہیں۔ بلغمی مزاج والے اشخاص کو اس کا پھل گوشت میں پکا کر کھلا نا مفید ہے۔ صرف پھل ل کو خواہ تمام اجزاء کو جلا کر ایک تا چار رتی شہد کے ساتھ کھانے سے دمہ اورکھانسی جاتے رہتے ہیں۔پنجاب کے پہاڑی علاقوں میں مرض گنٹھیا میں اس کے پتوں کا رس فلفل سیاہ کے ساتھ کھلاتے ہیں۔
مقدار خوراک:جوشاندے میں‘ پانچ سے سات گرام(ماشے)
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق