ایک مشہور و معروف آیورویدک دوا ہے، جو کسی درخت کی چھال ہے اور بالکل سستے داموں ہر دواخانہ سے مل جاتی ہے، حسب ضرورت لے کر ہاون دستہ یا کونڈے وغیرہ میں کوٹ کر بوتلیں یا مرتبان بھر لیں اور مندرجہ ذیل لکھے ہوئے موقعوں پر استعمال کر کے فائدہ حاصل کیا جائے ۔
سنگرہنی :یہ ایک ایسی مہلک اور خوفناک بیماری ہے کہ جس کے لرزہ خیز نتائج ہوتے ہیں ،طب سے ذرا سا لگاؤرکھنے والا شخص بخوبی واقف ہے کہ جب یہ بیماری کسی بدنصیب کو چمٹتی ہے ،تو بس پھر چھوڑنے کا نام تک نہیں لیتی ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا نام اطبائے ہند نے سنگرہنی (ساتھ رہنے والی )رکھا۔
بندہ پٹیالہ کے ایک قصبہ میں ایک وجع المفاصل کی مریضہ کے علاج کے لئے گیا ہوا تھا ۔اس کا خاوند مشہور عطائی حکیم تھا ۔دوران علاج میرے پاس ایک بوٹا چمار نامی طالب علاج ہوا ۔جس کو مدت سے سنگرہنی کی مصیبت نے پریشان کر رکھا تھا ،حتی المقدور بہتیرے علاج معالجے کئے مگر فائدہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی ۔
چونکہ مریض کی حاضری ایسے وقت ہوئی تھی جب حکیم مذکور بھی میرے پاس موجود تھا ۔ لہٰذا مجھے (تنہائی میں )کہنے لگا کہ سنگرہنی کا علاج تو ایک معمولی بات ہے ۔آپ میری اہلیہ کا علاج غور سے کریں چنانچہ اس نے وہ نسخہ جس کو وہ آج تک اپنے سینہ بخل گنجینہ میں چھپائے ہوئے تھا ۔مجھ سے بیان کر دیا۔
میں نے حسب ہدایت بازار سے 35گرام کڑا چھال خریدی اور سات پڑیاں بنا کر دے دی گئیں ۔سات پڑیاں ابھی ختم نہ ہو پائی تھیں کہ اللّہ نے شفا دے دی اور وہ مرض جو صدہا روپیہ خرچنے سے بھی نہیں جایا کرتا ،اس بوٹی سے دور ہو گیا۔
وجع المفاصل یا گنٹھیا : ویسے تو ہر بیماری تکلیف دہ اور درد انگیز ہوا کرتی ہے ۔وہ مرض ہی کیا جو چین و آرام کے دامن کو تار تار یا کم از کم داغدار نہ کر دےمگر وجع المفاصل الٰہی توبہ !جب یہ انتہائی مدارج پر پہنچتی ہے تو انسان کو زندہ ہونے کی حالت میں مُردوں سے بدتر بنا دیتی ہے ،چلنا پھرنا تو درکنار ہلنا جلنا اور کروٹ تک بدلنے سے مجبور و معزور کر دینا اس کا خاص فعل ہے ۔جسم کے بڑے اعضاء جو کہ خداوند کریم نے سلطان المخلوقات حضرت انسان کے تابع فرمان اور رعایا کے قائم مقام بنائے ہیں ،بغاوت کر کے نافرمانی کرنے لگتے ہیں ۔
ہاتھ ہیں مگر بدن کو کھجلانے سہلانے بلکہ لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے سے انکار کرتے ہیں ،پیشاب یا پاخانہ کا زبردست تقاضہ ہو رہا ہے مگر پاؤں ناصرف چلنے پھرنے سے بےزاری ظاہر کرتے ہیں بلکہ چارپائی سے اترنے تک کی درخواست کو بھی نہیں مانتے ۔
ایک پھرتیلا جواں مرد شوخ و شنگ جو کسمپرسی کے عالم میں پڑا ہوا ہے ،جو حالت صحت میں فعل عظیم الجثہ اور شیر سیستان سے بھیڑتے ہوئے نہ گھبراتا تھا ۔آج اپنے منہ سے مکھیاں اڑانے سے لاچار ہے ۔
ایسے زندہ نما مردے کو اگر کوئی ذولفضلہ پھر سے چلنے پھرنے کے لائق بنا کر زندوں کی صف میں شامل ہونے کے لائق بنانے کا موجب ثابت ہو ،تو فرمائیے ،اس کی مسیحائی میں کسے کلام ہے ،بلکہ ایسے وقت میں تو مریض کی موت بھی ایک خوشگوار چیز ہوتی ہے ۔
اوّل تو ایسی ادویات بہت کم ملتی ہیں ،ورنہ بہت مصیبت سے بننے میں تو کوئی شبہ نہیں ۔مگر کڑوی اکسیر (کڑا چھال )بفضلہ اس مرض کے لئے ایک خاص اکسیر ثابت ہوئی ہے ۔چنانچہ اگر 5گرام اس دوا مذکور کی پڑیا گرم گھی سے صبح و شام کھلا دیا کریں اور مریض کو بجز بیسنی روٹی گھی کے اور تمام اشیاء سے پرہیز کرائیں تو بفضلہ چند خوراکوں میں چارپائی پر جکڑا ہوا مریض چلنے پھرنے کے لائق ہو جاتا ہے ۔چنانچہ اس دعویٰ کو بادلیل بنانے کے لئے ہم ذیل میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں ۔
ایک مریض مرض وجع المفاصل میں ایسا پھنسا کہ ناصرف چلنے پھرنے بلکہ کروٹ بدلنے سے بھی مجبور ہو گیا ۔اس کو ایسے وقت میں بندہ نے مرقومہ بالانسخہ استعمال کرایا اس سے دوسری خوراک میں حرکت اور چار پانچ خوراک اٹھنے بیٹھنے اورچلنے پھرنے لگ گیا ۔
کڑا چھال پیچش کا تریاق ہے :ایک مرتبہ ایک بزرگ خونی پیچش میں مبتلا ہوئے ،جن میں بےشمار مرتبہ اس غمناک بیماری کا دورہ ہو جاتا تھا ۔عرصہ تک قابضات وغیرہ کا استعمال ہوتا رہا مگر روزا نہ افاقہ ہوا ۔آخر بندہ نے مرقومہ بالا نسخہ تجویز کیا ۔چنانچہ بزرگ صوفی صاحب کو ہدایت کی گئی کہ کڑا چھال (کڑوی دوا )کے سفوف میں سے چھ چھ گرام کی پڑیاں تیار کریں اور ہر روز ایک پڑیہ بوقت صبح منہ میں ڈال کر دہی حسب دل خواہ پی لیں اور پھر جب بھوک یا پیاس لگے ،تو دہی پیتے رہیں ،یہاں تک کہ اگر 2سے 5کلو تک پیا جا سکے ،تو کوئی حرج نہیں بلکہ فائدہ ہونے کی امید ہے ۔بجز دہی کے دوسری غذاؤں سے جس قدر احتیاط برتی جائے بہتر ہے۔ ہاں اگر قطعا ًہی بھوک برداشت نہ ہو اور دہی پینے سے گزر کر کھانے کے ہی درپے ہو جاؤ تو چاول ابلے ہوئے دہی ملا کر کھاؤ، جس میں میٹھا یا نمک نہ ملایا جائے ۔
چنانچہ حسب ہدایت دوا شروع کی گئی اور خدا کی مہربانی سے دن بدن آرام ہوتا چلا گیا اور ایک ہفتہ تک مکمل صحت ہو گئی ۔درد ،مڑور ،پیچش ،خون وغیرہ سب سے چھٹکارہ حاصل ہو گیا ۔متواتر تجربات سے بات قابل اعتماد ہونے تک پہنچ گئی ہے کہ بفضلہ کڑا چھال مرض سنگرہنی ،پیچش ،وجع المفاصل کی غایت درجہ کی مفید اور سستی دوا ہے ،اپنے مطب میں استعمال کر کے فیض یاب ہوں اور کڑوی دوا کے میٹھے نتانج حاصل کر کے دعاؤں سے یاد فرمائیں۔ (حکیم مولوی محمد عبداللہ)
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
کڑا چھال (کڑاسک) (Kurchi Bark)
ماہیت: اندر جو تلخ کے درخت کی چھال جو کہ خطا سے آتی ہے۔ اسے تیواج خطائی کہتے ہیں۔ یہ چھال موٹی ٗ رنگت میں گہری اور ہلکی ہوتی ہےمگر اسے چبانے سے زبان سرخ نہیں ہوتی یہ لکڑی سفید اور نرم ہوتی ہے۔۔۔۔ اس کی مکمل تفصیل اندرجو میں دیکھیں۔
مزاج: گرم و خشک۔۔۔۔درجہ دوم
افعال و استعمال: حابس الدم ہونے کی وجہ سے نکسیر بند کرنے میں اکسیر ہے۔اس کی دھونی خون کے سیلان کو روکتی ہے۔اس کا سیال رَب پیچش کے لئے ایک عمدہ دوا ہے۔تازہ کڑا چھال کے رس کی دس سے بیس بوندیں دینے سے خونی دست اور پرانے آوں (میوکس) کے دست بند ہو جاتے ہیں۔کڑا چھال کا سفوف پانی یا شہد کے ساتھ کھلایا جائے تو خونی بواسیر ٗ کثرت حیض اور خونی اسہال کو نافع ہے۔
مقدار خوراک: تازہ چھال کا رس۔۔۔۔دس سے بیس بوند
سفوف پانچ سے دس رتی تک۔
خاص بات: کڑا چھال ہومیوپیتھی میں بھی اسہال کو بند کرنے کے لیے کرچی کے نام سے استعمال ہوتی ہے۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق