مختلف نام:آیور ویدک ناموش مشٹی،کارسکر-ہندی نام کاگ پھل ،کاگ،نندی-پنجابی نام کچلا-بنگالی نام کنچلےـگجراتی نام جھر کو چیلاں ،مرہٹی نام کالر سکا،کاجکا، کچلہـکرنا ٹکی نام کانجی دار ـیونانی اذراتی، جوزاملتیـعربی نام حب الغراب ،قاتل الکلبـ فارسی نام فاسوس ماہی-ـلاطینی نام سٹرکناس نکس وامیکا(Strychnas Nux Vomica)اور انگریزی میں ڈاگ پوائزن(Dog poison)کہتے ہیں۔
ماہیت وکیفیت:کُچلہ کا زہر عام طب میں ایک مشہور معروف زہر ہے۔اس کی شہرت صرف اطباء تک ہی محدود نہیں بلکہ عام لوگ بھی اس کے نام سے واقف ہیں ۔یہ زہر ہندوستان کی میونسپل کمیٹیاں کتوں کو مارنےکے لئے استعمال کرتی ہیں،اس لئے اس زہر کو قاتل الکلب کہتے ہیں۔دور حاضر میں یہ زہر آیورویدک طریق علاج میں عام مستعمل ہے۔زمانہ سلف کے حکماء اس کی ماہیت وکیفیت سے قطعاً نا آشنا تھے۔مہرشی چرک اور سشرت کی تصانیف میں اس زہرکا کوئی ذکر نہیں ملتا۔البتہ بعد کی تصنیف کردہ کتب میں اس دوا کا استعمال پڑھنے کو ملتا ہے۔چنانچہ آج کل وید،حکماءمیں کچلے کے استعمال کا عام رواج پایا جاتا ہے۔آیورویدک فنکاران نے کچلہ کو کم زہریلی دوا تصور کیا ہے۔مگر ہم اس خیال سے متفق نہیں ہیں ۔اسے کم زہریلی دوا تسلیم کرنا دانشمندی نہیں ہے۔یونانی اطباء زمانہ قدیم میں اس سے نا واقف تھے ۔رفتہ رفتہ کچلہ کی ماہیت ان اطباء پر آشکار ہوئی ،مگر انہوں نے اس کی ماہیت کو تذبذب میں ڈال دیا ۔اطباء کا کہنا ہے کہ کچلہ ایک درخت کا بیج ہےاور بعض اسےدرخت کی جڑ تصور کرتے ہیں لیکن حقیقت میں کچلہ ایک درخت کا زہر یلا ثمر(پھل)ہے۔یہ درخت آملہ سے مشابہت لئے ہوتا ہے۔کچلہ کے درخت کے پتے سیب کے درخت کے پتوں کی طرح چوڑے ہوتے ہیں۔پتوں کے کنارے سرخ اور بے بو ہوتے ہیں۔کچلہ کے درخت کو آم کے درخت سے بھی مشابہت دی جاتی ہےمگر اس میں نمایاں فرق ہے۔ آم کے پتوں کا سرا نوک دار ہوتا ہے۔مگر کچلہ کے پتوں میں گولائی سی ہوتی ہے ۔یوں سمجھ لیجئےکہ کچلہ کا درخت عشق ہے۔پیچہ کی مانند ہوتا ہے۔کچلہ کا پھل نارنگی نما ہوتا ہے۔موسم گرما میں اس درخت کو پھل لگتا ہے۔یہ پھل گول بمثل بیضہ مرغ کے ہوتا ہے اور اس کا چھلکا نہایت سخت ہوتا ہے مگر یہ چھلکا پانی میں نرم ہو جاتا ہے اور چھلکا اُتار دینے کے بعد کُچلے کا مغز بذریعہ سوہان(لوہے کی ریتی)باریک کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔کچھ کا بیج ٹکیوں کی طرح یا کوٹ کے بٹن کی طرح ہوتا ہے۔جس کا قطر ایک انچ تک ہوتا ہےاور موٹائی نصف انچ تک ہوتی ہے۔بیج کی بالائی سطح پر ناف کی طرح ایک حلقہ سا ہوتا ہےجس سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ یہاں سے ڈنڈی ٹوٹ گئی ہے لیکن حقیقت میں اس کی ڈنڈی نہیں ہوتی۔یہ ناف نما حلقہ قدرت نے یہاں سے شگوفہ نکلنے کا مقام پایا ہے۔تخم کی باہری رنگت خاکستری سی ہوتی ہے لیکن اس پر باریک ریشمی سا روئی کی طرح غلاف ہوتا ہے۔اس لئے یہ بیج سفید اور چمک دار معلوم ہوتا ہے۔کچلہ کا چھلکا سینگ کی طرح سخت،مگر پانی یا دودھ میں بھگونے سے نرم ہوجاتا ہے۔چھلکا اُتر جانے پر اندر کا مغز دو تہوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔اس لئے اسے الگ کر دینا چاہئے۔کُچلہ میں بو نہیں ہوتی مگر ذائقہ نہایت تلخ ہوتا ہے۔اس کی تلخی ایک خاص قسم کی ہوتی ہے۔
مقام پیدائش:کُچلہ ہندوستان کے گرم علاقوں میں سطح سمندر سے تقریباً چار ہزار فٹ کی بلندیوں پر عام ملتا ہے۔برما میں اس کی ایک خاص قسم پیدا ہوتی ہے۔جسے انگریزی میں سٹر کسٹس بلنڈہ کہتے ہیں۔ان مقامات کے علاوہ کچلہ کی پیداوار اُڑیسہ،بہار،مدراس،کوچین،ٹراونکور،مالابار،لنکا اور برما کےجنگلات میں اپنے آپ پیدا ہوتا ہے۔
مزاج:اس کا مزاج گرم مانا گیا ہے۔
مقدار:اس کی مقدار خوراک آدھی رتی سے ایک رتی بشکل سفوف،قرص یا گولی استعمال ہوتی ہے۔
فوائد:طبی نظریہ سے کچلہ ایک نہایت کارآمد زہر ہے۔یہ دافع اوجاع مفاصل ریحی،فسادخون،مقوی ہضم،کمزوری کو رفع کرنے والا،جازب رطوبت دماغی،اور بدنی ہے۔اکثر اوقات یہ تشنجی امراض میں استعمال ہوتاہے۔کھٹے ڈکار آنا ،کلیجہ جلنا ،درد شکم ،بار بار پاخانہ کی حاجت ہونا پیٹ میں تشنج وغیرہ میں نہایت مفید ہے۔خصوصاًایسے امراض میں جو کثرت شراب نوشی،گوشت خوری یا گرم مصالحہ کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔اس کے استعمال سےشراب ،بھنگ،افیم وغیرہ کی عادت چھوٹ جاتی ہے۔اس کو لمبے عرصے تک استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
کُچلہ کی زہریلی تاثیر:کچلہ عام حالت میں یا زہریلی مقدار میں کھانے سےایک گھنٹہ بعد اس کے زہر کا اثر شروع ہو جاتا ہے۔طبیعت میں ایک ناقابل برداشت پریشانی پیدا ہو جاتی ہے۔اعضاءٹوٹنے لگتے ہیں ۔کچھ وقت کے بعد پیٹھ،بازوؤں اور ٹانگوں میں درد کی ٹیسیں محسوس ہونے لگتی ہیں ۔اعصاب اور عضلات میں تشنج ہونے لگتا ہے۔مریض ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے،نبض تیز چلتی ہےاور جسم کی حرارت غریزی بڑھ جاتی ہے۔کچھ دیر تک تشنج کا دورہ ہو چکنے کے بعد عضلات ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔چہرہ نیلگوں اور آنکھیں ابھر آتی ہیں اور نگاہ میں ٹکٹکی بندھ جاتی ہے۔چہرہ میں تناؤ کے باعث منہ کے دانت دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔خوف و دہشت بڑھ جاتی ہے۔بعض اوقات توشنج سے مریض کا جسم کمان کی طرح خم دار ہو جاتا ہے۔یہاں تک کہ جسم ٹیڑھا ہو کر سرایڑیوں سے جا ملتا ہے۔آخر کار مریض تڑپ تڑپ کر فرشتہ اجل کی آمد کو لبیک کہتا ہے۔
کُچلہ کے زہر کا علاج:کچلہ کھائے ہوئے مریض کے فوری علاج میں اطباء کا فرض ہےکہ مریض کو جہاں تک ممکن ہو سکے ،قے آور ادویات دے کر قے کر دیں تاکہ معدہ خالی ہو جائے یا معدہ کو دھونے والے آلہ سے معدہ کو دھوئیں اور اس کے بعد مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک نسخہ کا ستعمال کرائیں۔
1۔تازہ دوہا ہوا دودھ پلائیں۔
2۔شوربائے چرب پلانا بھی مفید ہے۔
3۔معابات ہمراہ روغن بادام نہایت مفید ہے۔
4۔دودھ اور گھی کا استعمال کثرت سے کرائیں۔
کُچلہ کا اثر مختلف حصص پر:یہ ایک طبی اصول ہےکہ زہریلی اشیاء اگر قلیل مقدار میں نفع بخش ثابت ہوں تو اس کی زیادہ مقدار نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔یہی حال کچلے کا ہے۔اگر نہایت قلیل مقدار میں اسے استعمال کیا جائے تو اس سے تکالیف کا ازالہ ہوتا ہے۔کچلہ کے استعمال کا اثر مختلف حصص پر مختلف ہوتا ہے۔
1۔معدہ و امعاء پر کچلہ کا اثر: جب معدہ نہایت کمزور ہو اور قوت ہاضمہ انتہائی زوال پذیر ہو تو ایسی حالت میں کچلہ معدہ کو طاقت دیتا ہے۔اور بھوک بڑھاتا ہےمعدہ میں اگر ترشی پیدا ہوجانے کی وجہ سے کلیجہ جلتا ہو،نفخ شکم ہو تو کچلہ کا استعمال ایسی حالت میں قبل از غذا نہایت سود مند ہے۔اعماء کی حرکت کو تیز کرتا ہے۔اس لئے قبض کشا بھی ہےکسی جلاب آور دوا میں کچلہ شامل کرکے اگر مریض کو دیا جائے تو یہ قبض کشائی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔یہ نہایت مقوی اعصاب و عضلات ہے۔
2۔دل و دوران خون پر اثر:تہائی ضعف قلب میں کچلہ نہایت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ہیضہ میں جب مریض کے ہاتھ پاؤں سرد ہو جائیں تو کچلہ کےان استعمال سے حرارت غریزی بحال ہو کر مریض کو قوت ملتی ہے۔اور کمزوری رفع ہوتی ہے۔
3۔تنفس و پھیپھڑے کے امراض:کچلہ پھیپھڑوں کو طاقت بخشنے والی ایک نہایت کار آمد رسائن ہے۔اخراج بلغم میں مدد دیتا ہے ،اس لئے یہ اسہال کہنہ،مزمن ذات الریہ،نفخ الریہ میں کچلہ دیگر ادویہ کا بد رقہ ہے،تنفس کی کمزوری کو رفع کرنے اور مرض سل میں رات کو پسینہ آنے کو روکنے والی ایک نہایت مفید دوا ہے۔
4۔نظامِ عصبی پر اثر :امراض فالج و استرخا میں کچلہ نہایت فائدہ بخشتا ہے۔بشرطیکہ ابتدائی حالت میں دیا جائے،نیز عضلات میں سختی باقی ہو۔جب دماغ ماؤف ہو جائے تو اس کا استعمال ممنوع ہے۔
5۔مزمن امراض پر اثر:درد سر عصبی ،بے خوابی ،شراب کی مزمن سمیّت،استر خانے مثانہ،کمزوری،جریان خون بعد از ولادت اور کثرت ایام میں اس کا استعمال نہایت فائدہ مند ہے۔
6۔کچلہ کا بیرونی استعمال:کچلہ سے ایک خاص قسم کا تیل تیار ہوتا ہے۔جو سستی اعصاب ،وجع المفاصل، استرخاءوغیرہ امراض میں مقامی طور پر مالش استعمال ہوتا ہے۔
7۔یہ دوا دیوانہ سگ گزیدہ زہر کو رفع کرتی ہے۔
8۔مثانہ و اعضائے تناسل پر اثر:عضلہ و مثانہ کی کمزوری یا بڑھاپے میں عصبی کمزوری کے باعث پیشاب کا اخراج قطرہ قطرہ کی شکل میں ہو کر پیشاب کے اخراج کا پتہ نہ چلتا ہو اور پیشاب زور سے خارج نہ ہوتا ہوتو ایسی صورت میں کچلہ کا استعمال مریض کے لئے تسکین کن ثابت ہوتا ہے۔اگر گوشت، گرم مصالحہ یا شراب کے بکثرت استعمال کے باعث فضلہ مثانہ میں تیزی آجائے اور بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہو ،پیشاب سرخ اور جلن دار ہو یا پیشاب کی حاجت رفع نہ ہو تو کچلہ ایسی شدید حالت میں اپنا اثر دکھاتا ہے۔اور تڑپتے مریض کو تسکین دیتا ہے۔
9۔اعضائے منویہ پر اثر:کچلہ نظامِ عصبی کے لئے نہایت محرک اثر پیدا کرنے والی دوا ہے۔یہ دل میں تحریک پیدا کرنے والی دوا ہے۔یہ دل میں تحریک پیدا کر کے دوران خون کو تیز کرتا اور حرارت غریزی کو قائم رکھتا ہے۔کمزوری کے مریضوں کے لئے جب کہ ان میں طاقت قطعاً ختم ہو چکی ہو۔طبیعت بجھی بجھی ہوئی ،اعضاء اور خصیتین سرد رہتے ہیں ،مثانہ کمزور ہو چکا ہواور پیشاب کی دھار کمزور اور سست ہو۔ایسی حالت میں کچلہ ایک بیش قیمت دوائی ہے۔ذکاوت حس اور معمولی خیالات سے مذی یا منی کا اخراج ہو جاتا ہو، کثرت احتلام یا پیشاب کی نالی میں سوزش اور خراش ہونے سے ملاپ کا غلبہ بار بار ہو۔پیشاب سرخ اور جل کر آتا ہوتو ان حالتوں میں کچلے کا استعمال ہر گز نہ کیا جائے کیونکہ اس کے استعمال سے خواہش زیادہ ہوتی ہےاور رطوبات کا اخراج زیادہ ہونے لگتا ہےاس لئے احتلام و جریان میں کچلہ کا استعمال نقصان دہ ہے۔
یک طبی نکتہ:کچلہ کے بیان میں یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ کچلہ کا زہر اور مرض کزاز (Tetnus)میں بہت کچھ مشابہت پائی جاتی ہے۔اس لئے مندرجہ ذیل مختصر سی تشریح یہاں پر کر دینے میں اغلباً کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔بلکہ اطباء کے لئے ایک ضروری ہدایت اور تنبیہہ کے مترادف ہو گی۔
مندرجہ ذیل علامات دیکھنے کے بعد اطباء اس بات کو جان جائیں گے کہ یہ زہر کچلہ کی علامات ہیں یا مرض کزاز کی۔
زہر کچلہ | کزاز |
1۔کچلہ کے زہر کا اثر کچلہ یا اس کا جوہر کھانے پر ظاہر ہوتا ہے۔
2۔کچلہ کے زہر کی علامات جلدی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ 3۔جبڑے کے عضلات آخیر وقت میں مبتلا ہوتے اور تشنج کے باعث دانت نظر آنے لگتے ہیں ۔ 4۔کچلہ کے زہر میں عضلات آہستہ آہستہ ڈھیلے ہوتے ہیں اور تکان بدستور رہتی ہے۔ 5۔کسی کو بخار ہو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ہوتا ۔بخار نہایت معمولی ہوتا ہے اور تکان بدستور رہتی ہے۔ |
1۔کزاز عموماً کسی ضرب و زخم یا عمل جراحی کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔
2۔کزاز کی علامات بتدریج پیدا ہوتی ہیں ۔ 3۔کزاز میں پہلے نچلے جبڑے کے عضلات پر تشنج کا اثر شروع ہوتا ہے۔ 4۔کزاز میں بوقت وقفہ بھی پشت اور جبڑوں کے عضلات بدستور متشنج رہتے ہیں ۔ 5۔کزاز میں بخار کی نوبت خوب تیز ہوتی ہے ،مگر علامات خطر ناک نہیں ہوتیں۔ |
کچلہ شودھن یعنی مدبر کرنا:کچلہ چونکہ نہایت زہریلی چیز ہے اس لئے آیورویدک فنکاران اور قدیم اطباء نے اسے مدبر کرنے کے بعد استعمال کی ہدایت کی ہے۔مدبر کرانے سے مراد یہ ہے کہ اسے دودھ یا پانی میں تر کر کے یا ان میں جوش دینے سے یا گھی یا ریت میں بھن لینے سے اس کے زہریلے اثر کو کمزور کر لیا جائے تا کہ بوقت استعمال نقصان کا احتمال نہ رہے ۔ہم ذیل میں کچلہ شودھن کے چند طریقے درج کرتے ہیں ۔ان میں سے جو پسند آئے ،اسی کے مطابق کچلہ مدبر کر کے استعمال کریں۔
1۔250 گرام کچلہ کو بھیڑکے ایک کلو دودھ میں تر کریں ۔آٹھ پہر کے بعدکچلہ دودھ سے نکال کر صاف کریں اور سوا کلوتازہ دودھ میں پھر بھگو دیں، دوسرے دن اسی طرح صاف کر کے ڈیڑھ کلو دودھ لے کر بھگو دیں۔تیسرے دن اسی دودھ کے ہمراہ کچلہ کو آگ پر جوش دیں تا کہ دودھ گاڑھا ہو جائے ۔ پھر کچلہ کو نکال کر اس کا چھلکا اُتار لیں ۔جن کچلوں کا مغز سرخ ،سیاہ اور گلا سڑا ہو وہ پھینک دیں ۔باقی ماندہ کچلہ کی سفید ٹکیوں کو چیر کر ان کے درمیان کا سبز پتہ خارج کردیں اور ریتی کے ذریعہ ٹکیوں کو تراش کر باریک برادہ تیار کریں اور خشک کر لیں ۔بس کچلہ شدھ تیار ہے۔
3۔کچلوں کو ایک ہفتہ تک پانی میں تر رکھیں مگر پانی ہر روز بدلتے رہیں۔ان کو مقشر کر کے ایک ہفتہ متواتر خمیر شدہ آٹےمیں دبا رکھیں۔پھر دھو کر پتلے کپڑے کی پوٹلی میں باندھ کر کچلوں کو پانچ گنا دودھ میں جوش دیں۔جب دودھ گاڑھا ہو جائے تو کچلے نکال کر گرم پانی سے دھو ڈالیں۔
ادویات کی تیاری کے
متعلق مفید ھدایات 1۔جہاں ادویات کا سفوف بنانا ہو ، باریک پیس کر ململ کے کپڑے سے چھان لیں ، یا باریک جالی کی چھلنی سے چھان لیں۔ 2۔اگر ادویات کا سفوف بنا کر اس میں چینی ملانی ہو تو پہلے سفوف کر کے پھر چینی ملائی جائے۔اگر شکر ملانی ہو تواس کی جگہ چینی ملا لیں۔ 3۔اگر دوائیاں بطور گرم جوشاندہ پینی ہوں تو ٹھنڈے پانی یا برف لگی سوڈے کی بوتل استعمال نہ کریں۔ (حکیم ڈاکٹر پریم ناتھ ملتانی،پانی پت) |
4۔یہ ترکیب کچلہ مدبر کرنے کی بہترین ہے۔اس سے کچلہ کا کوئی جزومؤثرہ ضائع نہیں ہوتا بلکہ کچلہ کے زہر کی اصلاح ہو جاتی ہے۔یہ ترکیب اس طرح ہے کہ کچلہ تازہ 250 گرام لے کر چینی کے پیالہ میں ڈال دیں اور اوپر لعاب گھیکوراس قدر ڈالیں کے کچلے اچھی طرح ڈوب جائیں،یہ پیالہ ڈھانپ کر کسی محفوظ جگہ پر پندرہ دن کے لئے رکھ دیں۔جب آب گھیکوار کچلوں میں اچھی طرح جذب ہو جائےتو ان کو چھیل کر دو ٹکڑے جدا کر کے اندرونی سبز پتہ خارج کر دیں۔ان میں سے سفید ٹکیاں جمع کر لیں اور باقی پھینک دیں۔پھر چینی کے برتن میں یہ سفید مقشر ٹکیاں ڈال کر اس میں آب ادرک اس قدر ڈالیں کہ ٹکیاں اچھی طرح ڈوب جائیں۔جب آب ادرک کچھ دنوں کے بعد جذب ہو کر خشک ہو جائے تو ان کو پیس کرمثل سرمہ باریک کر لیں۔یہ ٹکیاں آسانی سے پِس جائیں گی،یہ ترکیب کچلہ شودھن میں نہایت ہی افضل ہے اور کچلہ کی تاثیر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔
5۔کچلہ شودھن کے سلسلہ میں وید حکیم جناب ہر دے نارائن شرما دلگیر نے ایک نہایت سستی اور آسان ترکیب لکھی ہے۔اس ترکیب سے کچلہ بہت جلد شدھ ہو کر قابلِ استعمال ہوتا ہے۔جناب دلگیر صاحب فرماتے ہیں:
آدھا کلو ملتانی مٹی کو پانی میں بھگو دیں ۔یہاں تک کہ مٹی گل کر پانی میں حل ہوجائے اور کوئی ذرہ باقی نہ رہے ۔اس پانی میں250گرام کچلہ کی ٹکیاں ڈال کر آگ پر جوش دیں۔زاں بعد ٹکیاں نکال کر گرم پانی سے دھو لیں اور چاقو سے اُوپر کا چھلکا اتار کر ٹکیوں کو درمیان سے چیر کر اندرونی سبز پتہ نکال دیں جو سفید ٹکیاں برآمد ہوں انہیں گھی خالص میں بھون کر پیس لیں اور محفوظ رکھیں۔کچلہ مکمل شدھ ہو جائے گا۔
کُچلہ کے مرکبات
کچلہ اچھی طرح شدھ ہو جانے کے بعد نسخوں میں استعمال ہونے کے قابل ہوتا ہے،اس کا چورن،گولیاں،معجون، جوہر،شربت،مفرح،روغن وغیرہ کی شکل میں استعمال ہوتا ہے۔
اب ذیل میں کچلہ کے قیمتی مرکبات ملاحظہ ہوں۔دیکھئے ایک زہریلی اور خطرناک دوا کس طرح امرت کا کام دیتی ہے۔
جوہر کچلہ:مدبر کچلوں کو قلعی دار برتن میں پانی کے ساتھ یہاں تک جوش دیں کہ کچلے گل جائیں۔ان کو باقی ماندہ پانی میں پیس کر چھان لیں اور اسے چینی کے برتن میں ڈال کر کسی ایسی جگہ پر ڈھانپ کر رکھ دیں جہاں گردوغبار پڑھنے کا اندیشہ نہ ہو۔صبح کو یہ پیالہ دھوپ میں رکھیں اور رات کو اندر رکھ دیں ۔جب پانی خشک ہو جائے گا تو کچلے کا جوہر برتن میں لگا ہوا ملے گا۔اسے برتن سے کھرچ کر اور باریک پیس کر رکھ لیں۔یہ نہایت اعلٰی دوائی تیار ہو گی۔یہ جوہر کمزوری ، قوت حافظہ اور دماغ کے لئے بے نظیر ہے۔اس کی خوراک کی مقدار 4/1 چاول ہمراہ زردی بیضہ مرغ ، شہد یا روغن زرد ،چالیس روز متواتر کھانے سے بے حد فوائد ظہور میں آتے ہیں۔
حب کُچلہ:مدبر 60گرام،افیون5گرام،ست لوہان،کشتہ فولاد،کیسر ہر ایک 2/1، 2 گرام،ورق چاندی 80عدد،ورق سونا40عدد،مشک خالص ایک گرام۔تمام اجزاءکوبرگ پان کے ہمراہ کھرل کر کے بقدردانہ ماش گولیاں تیار کریں۔یہ گولیاں مردانہ کمزوری ، لقوہ ،وجعالمفاصل کے دافع میں بے نظیر ہیں۔خوراک ایک سے دو گولی ہمراہ حسب برداشت جوش دیئے ہوئے دودھ کے دیں۔غذا مقوی اور حلوائے تر دیں،ترشی،بادی،تیل اور اچار سے پرہیز کریں۔گھی ،دودھ کا خوب استعمال کریں۔
دیگر:کچلہ مدبر 250گرام،زعفران 12گرام ،دارچینی ،جاوتری ہر ایک50گرام،دانہ الائچی کلاں 50گرام ،مورنجاں شیریں 72گرام،سونٹھ250گرام۔
تمام اجزاءہمراہ آب تازہ پیس کر نخودی گولیاں بنائیں ۔ایک گولی صبح اور ایک گولی شام ہمراہ دودھ نیم گرم کھلائیں۔یہ دھڑ مارے جانے ،لقوہ،دائمی قبض،فتور ہاضمہ،خرابی معدہ، ضعف جگرودماغ اور ضعف اعضائے رئیسہ کے لئے مفید ہے۔
روغن کُچلہ:کچلہ مدبر 50 گرام کو5کلودودھ بھینس میں پوٹلی باندھ کر جوش دیں۔جب دودھ ابلتے اُبلتے نصف رہ جائے تو پوٹلی نکال کر دودھ کو ضامن لگا دیں ،صبح دہی بلو کر مکھن نکال لیں اور گھی بنا لیں ۔یہ گھی نہایت مقوی اعصاب ہے۔ ایک بوند سے پانچ بوند تک مکھن میں ملا کر کھلائیں۔
دیگر:کچلہ مدبر 20ٹکیہ سفید کا برادہ کر لیں ۔اس برادہ کو دودھ گائے 250گرام اور تلوں کے تیل ایک کلو کے ہمراہ نرم آگ پر پکائیں۔جب دودھ وغیرہ جل جائےاور صرف تیل باقی رہ جائے تو اُتار کرصاف کر لیں۔یہ تیل امراض اعصاب میں مقام ماؤف پر ملیں اور اُوپر سے برگد کا پتہ باندھیں۔
سفوف کُچلہ:کچلہ مدبر ،پپلی،مرچ سیاہ، سونٹھ،جائفل ،جاوتری ،دار چینی،لونگ ہر ایک دس گرام ۔باریک پیس کر سفوف بنائیں ۔مقدار خوراک ایک رتی تک حسب قوت برداشت دیں ۔یہ سفوف مقوی معدہ، دافع درد معدہ اور ریاح ہے۔
حمیات بلغمی:حمیات بلغمی و سوداوی کے لئے کچلہ نہایت مفید الاثر ہے۔کچلہ مدبر لے کر بقدر2/1سے ایک چاول بھر صبح وشام ہمراہ عرق سونف،عرق گلاب، عرق الائچی،شربت عناب وغیرہ کے کھانا بلغمی و سوداوی بخاروں کے لئے مفید ہے۔
پتھری:سنگ گردہ و مثانہ نہایت ہی بد تر مرض ہے۔درد کے دورہ کی حالت میں انسان موت کو ترجیح دیتا ہے۔کچلہ مدبر بقدر ایک رتی صبح،دوپہر اور شام کو ہمراہ شربت کثوت وشربت قرطم کھلاناپتھری کو ریزہ ریزہ کر کے خارج کر دیتا ہے۔اور کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی ۔غذا میں مولی وغیرہ دیں۔بادی اور ریح افزا غذا سے پرہیز کریں۔
قولنج ریحی:کچلہ مدبر ایک رتی دودھ گائے250گرام اور گھی گائے60گرام باہم ملا کر چند بار کھانا قولنج کو نافع ہے۔بادی اور ریاحی غذاؤں سے پرہیز کریں۔
بَد بُوئے دہن:کچلہ مدبر 15 گرام ،طوطیا بریاں 2/1گرام،کتھا سفید 15گرام،مرچ سفید10گرام،الائچی خورد مع پوست10گرام،عقرقرحا10گرام کبابہ خنداں 10گرام کباب چینی 8گرام نمک کھاری15گرام،چولہے کی جلی ہوئی مٹی 50گرام۔سب کو کُوٹ چھان کر پیپر منٹ 2/1، 2 گرام ،کافور5گرام،ملا کر کھرل کریں۔اسے منجن کے طور پر استعمال کرتے رہنے سے ہر قسم کے امراض دانت رفع ہو جاتے ہیں۔بدبوئے دہن کو نافع ہے۔دانتوں سے پیپ آنے کو روکتا ہے۔
عرق النساء:کچلہ مدبر برادہ شدہ 12گرام لے کر روغن زیتون25گرام میں ملا کر خوب یک جان کر لیں۔اور مقام ماؤف پر اس کی مالش کریں،یہ طلاءعرق النساءاور جوڑوں کے درد کا حکمی علاج ہے۔اس کے لئے خوراک میں خالص گھی کی اغذیہ کھانے میں استعمال کرائیں۔
برائےرعشہ:کچلہ مدبر 20گرام،دار چینی،جائفل، جاوتری،عود صلیب،لونگ ہر ایک 10گرام۔تمام اجزاء کو عرق اجوائن سے کھرل کر کے نخودی گولیاں تیار کریں۔دو گولی صبح اور دو گولی شام ہمراہ عرق اجوائن دیں۔یہ گولیاں لقوہ،رعشہ اور دھڑ مارے جانے کے علاوہ دیگر تمام بلغمی امراض کو دور کرنے کے لئے بے نظیر ہیں۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
کچلہ (اذاراقی) (Poison Nut)
لاطینی نام : (Nux Vomica) (نکس وامیکا)
دیگر نام: عربی میں اذاراقی ٗ فارسی میں حب الغرب ٗگجراتی میں کجرا ٗبنگالی میں کچیلہ اور انگریزی میں “پائزن نٹ” یا ڈاگ پوائزن کہتے ہیں ۔
ماہیت :کچلہ کا درخت عموما ًچالیس سے پچاس فٹ اونچا ہوتا ہے ۔ یہ ہر موسم میں ہرابھرا رہتا ہے ۔ اس کی شاخیں پتلی لیکن کافی مضبوط ہوتی ہیں ۔ تنا اگر کاٹا جائے پہلے سفید بعد میں زردی مائل بھورا ہو جاتا ہے ۔ پتے آم کی یا جامن کی طرح ملائم ٗچمک دار چکنے دو سے تین انچ لمبے اور دو انچ چوڑے ہوتے ہیں۔ ان سے بدبو دار رس نکلتا ہے۔ جو زہریلا ہوتا ہے ۔ پھول سردی اور موسم بہار میں دو دفعہ لگتے ہیں ۔ جو چھوٹے چھوٹے سبزی مائل زرد اور ہلدی کی بو کی طرح ہوتے ہیں ۔ پھل لگ بھگ ڈیڑھ انچ قطر کے سیب کی طرح گول اور پکنے پر سرخی مائل زرد جبکہ گودا اور تخم ملائم ہوتے ہیں۔ تخم کو ہی کچلہ کہا جاتا ہے ہر ایک پھل میں دو سے پانچ تک بھورے رنگ کے تخم ہوتے ہیں۔ ہر کچلے کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ جن کے درمیان پتا (پان کی طرح لیکن بالکل چھوٹا سا ) ہوتا ہے ۔ اطباء نے اس کو زہریلا کہا ہے ۔ جو مدبر کرنے کے درمیان نکال دیا جاتا ہے ۔
مقام پیدائش :یہ عرب کے علاوہ اڑیسہ ٗمان بھوم (بہار) مدراس ٗکوچین ٗٹراونکور ٗ ساحل مالابار ٗ (جنوبی ہند) لنکا اور برما کے جنگلات میں خودرو ہوتا ہے ۔
مزاج :گرم خشک ۔۔۔۔درجہ دوم
افعال :دافع امراض بلغمیہ و عصبانیہ ٗمحرک و مقوی قلب ٗمصفٰی خون ٗمقوی باہ ٗمنفث بلغم ٗمحرک و مقوی قلب ٗمحلل اورام ۔
استعمال :معدہ کی غشا مخاطی کی طرف کچلہ دوران خون کو زیادہ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے معدیہ رس (گیسٹر جوس) زیادہ ہو کر بھوک بڑھ جاتی ہے اور ہاضمہ کو تیز کر دیتی ہے اور مسہل تاثیر پیدا کرتی ہے ۔ کم مقدار میں قلب و عضلات میں تحریک پیدا کرتی ہے اور قلب کے فعل کو تیز کر دیتی ہے ۔ دافع امراض عصبانیہ و بلغمیہ ہونے کی وجہ سے فالج ٗلقوہ ٗدرد کمر ٗ عرق النساء ٗ نقرس (گٹھیا) میں بکثرت اندرونی و بیرونی مستعمل ہے ۔ مقوی اعصاب و باہ ہونے کی وجہ سے ضعف باہ میں صدیوں سے مستعمل دوا ہے ۔ منفث بلغم ہونے کے باعث سرفہ ٗضیق النفس اور مرض سل میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے ۔ بڑھاپے میں استرخانے مثانہ کی وجہ سے بار بار پیشاب آنے کے لئے خاص دواء ہے ۔ مصفٰی خون ہونے کے باعث آتشک جیسے امراض فساد خون میں کھلایا جاتا ہے ۔
خاص استعمال :کچلہ مدبر کے استعمال سے منشیات مثلا شراب ٗبھنگ ٗافیون اور ہیروئن وغیرہ کی عادت ختم ہو جاتی ہے اور تمام طاقتیں بحال ہو جاتی ہیں ۔
بیرونی استعمال :محلل ہونے کی وجہ سے اورام پر خصوصا ًطاعون کی گلٹی پر اس کو گھس کر طلاء کرتے ہیں ۔ بواسیری مسوں میں خارش ہو تو اسے تنہا یا دیگر ادویہ کے ہمراہ (سکہ یا رسونت) گھس کر بواسیری مسوں پر لگاتے ہیں اور وجع المفاصل وغیرہ کے لئے روغن کنجد میں اس کو جلا کر (روغن صاف کر کے) اس کی مالش کرتے ہیں۔
کچلہ مدبر (اصلاح) کرنے کی ترکیب خاص : (1) کچلہ کو ہفتہ عشرہ تک پانی میں بھگوئیں جب پھول کر نرم ہو جائے تو ان کو چھیل کر درمیان میں سے پتا نکال ڈالیں اور گرم پانی سے دھو کر ایک صاف کپڑے میں پوٹلی باندھ کر شیر گاوؤمیں نرم آنچ پر پکائیں ۔ یہاں تک کہ دودھ کا کھویا بن جائے ۔ اس کے بعد نکال کر گرم پانی سے دھو کر فورا ًہی باریک پیس لیں یا خشک ہونے پر ریتی سے برادہ کر لیں ۔
(2) میں ذاتی طور پر اس طرح مدبر کرنے کے خلاف ہوں کیونکہ اس طرح کچلہ کے بعض مفید اجزاء پانی میں حل ہو کر پانی میں ضائع ہو جاتے ہیں لہذا بہترین ترکیب یہ ہے کہ کچلہ کو کچھ دیر ریت میں بھون کر اس کے بعد روغن گاؤ میں ہلکی آگ پر اتنا بھون لیں کہ براؤن ہو جائے اور گرم کو کوٹ کر باریک پیس لیں ۔ اس طرح اسکو یبوست بھی کم ہو جاتی ہے اور تمام اجزاء بھی محفوظ رہتے ہیں ۔(حکیم نصیر احمد طارق)
کچلہ کی سمی اثرات کی علامات :ازراقی کو اگر سمی مقدار (تین گرام) میں کھا لیا جائے تو چند لمحوں کے بعد اعضاء شکنی ٗکمر ٗ ہاتھ ٗ پاؤں میں درد ہونے لگتا ہے اور تمام عضلات میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ نبض تیز اور جسم کی حرارت بڑھ کر پسینہ آ جاتا ہے اور معمولی تکان محسوس ہوتی ہے ۔ تنگی نفس ٗچہرہ نیلگوں اور آنکھیں باہر کو نکل آتی ہیں ٗ خوف و دہشت ہوتی ہے ۔ جبڑے کے عضلات میں تشنج ہونے لگتا ہے جو کہ شدید ہو جاتا ہے بالآخر تشنج کی حالت میں سانس بند ہو کر موت واقع ہو جاتی ہے۔
تدبیر یا علاج سمیت: سٹامک ٹیوب (انبویہ معدہ) سے معدہ کو دھوئیں یا بار بار قے کرائیں اور تشنج سے قبل دودھ اور گھی بار بار پلائیں یا کوئی مقئی دوا دے کر قے کرائیں پھر پوٹاشیم برومائیڈ ایک گرام ایک گلاس پانی میں ملا کر پلائیں اگر سانس بند ہونے کا خطرہ ہو تو مصنوئی تنفس جاری کریں اس کے بعد مناسب ادویہ سے علاج کریں ۔
نفع خاص :مقوی اعصاب و باہ ۔ مضر :غیر مدبر اور تشنج پیدا کرتا ہے ۔
مصلح: شکر ٗلعابات ٗ روغنیات ۔ بدل: بھلانوں (بعض علامات میں)
کیمیاوی اجزاء :اسٹرکنین (جوہر کچلہ) بروسین ٗآئی گے سورک ایسڈ ٗ لونین (بے اثر گلوکوسائیڈ) فیٹ و شوگر کے اجزاء ۔
مقدار خوراک: آدھ رتی سے ایک رتی تک کچلہ مدبر ۔
مشہور مرکب: معجون اذاراتی ٗحب اذاراتی ٗروغن کچلہ
(گیسکونل ٗ سکون اوجاع ٗ طب نبوی دواخانہ )
جوہر کچلہ : (Strychine)اس کی وجہ سے خون میں آکسیجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور کاربانک ایسڈ گیس کی مقدار گھٹ جاتی ہے لیکن زیادہ مقدار میں بھی یہ زہر قاتل ہے .
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق