مختلف نام:ہندی مونگ پھلی ، چنیا بادام ، مراٹھی بھویی مونگ، بھویی موگا گاچی شینگ ، گجراتی ما نڈوتی ، بھوئی چنا ، چینی موگ ، بنگالی ولایتی موگ، چینی بادام ، لا طینی اراچس ہایی پو جیا اور انگریزی میں پی نٹ یا گراونڈ نٹ(Peanut or Ground Nut) کہتے ہیں ۔
شناخت:اس کی فصل کی کاشت کی جاتی ہے ۔ ،موسم سرما میں” بھنے”بادام کے نام سے آواز لگا کر ریڑھی والے بیچتے ہیں ۔ یہ تلی کے بعد تیل کی ضرورت پوری کرنے میں دو سرے نمبر کی چیز ہے۔ زیادہ تر کھانے میں اور ویجی ٹیبل گھی کی تیاری میں کام آتا ہے۔ مونگ پھلی یا بھنے بادام ہندوستان یا پاکستان میں کھانے کے کام آتی ہے۔
اس کے پتے میتھی کے پتوں کی طرح مگر اس سے کچھ بڑے ہوتے ہیں اس کے پودوں میں سے باریک باریک تنتو چھٹ کر زمین کے اندر گھستے ہیں اور زمین میں انہی تنتنووں کے اوپر مونگ پھلی تیار ہوتی ہے۔ جس کو پکنے کے بعد کھود کر نکالا جاتا ہے۔ مونگ پھلی کی بھی علاقے کے لحاظ سے کئی قسمیں ہیں ۔ جیسے مالوی ، براری، وویشی وغیرہ ۔ مونگ پھلی کے پروٹین جلدی ہضم ہو جانے والے ہیں ۔ سویا بین اور دودھ کی پروٹین کے مقابلے میں مونگ پھلی کی پروٹین اعلیٰ قسم کی ہوتی ہے۔ استعمال میں آنے والی چیزیں پھل ، تیل اور کھلی ہیں۔
فوائد: چنبل میں اس کے تیل کی مالش بہت مفید ہے بلکہ ہر ایک جلدی مرض میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ دس سے بیس گرام کی مقدار میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے زیادہ استعمال سے دست لگ جاتے ہیں۔ مونگ پھلی کا تیل کھا نسی بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کا فا ئدہ زیتون کے تیل کے برابر ہوتا ہے۔ اس کی کچی پھلیاں دودھ پیدا کرتی ہیں ۔ جن ماؤں کو اپنے بچوں کے لئے مناسب دودھ نہیں اترتا ہے ان کو اس کی کچی پھلیاں کھلانے سے مناسب مقدار میں دودھ اترنے لگتا ہے۔ مونگ پھلی صحت بنانے والی ہے ۔ اس میں بہت سے صحت بنانے والے اجزا ہیں۔ بچوں کو روزانہ پچیس گرام مونگ پھلی دی جائے تو ان میں خوراک کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ مونگ پھلی اور بھنے چنے بچوں کو بچپن سے دینا چاہئے۔ مونگ پھلی کا تیل آلیو آئل (Olive Oil)کے تیل کی جگہ کام میں لایا جا سکتا ہے۔ مارکیٹ میں اکثر زیتون کا تیل آ تا ہے۔ وہ مونگ پھلی کا ریفائینڈ تیل ہے۔ آلیو آئل کی قیمت خرچ کر کے مونگ پھلی کا ہی تیل استعمال میں لانے کی بجائےبہتر ہے کہ مونگ پھلی کا تیل کھانے میں تلی کے تیل کے برابر ہی فائدہ والا ہے۔
حال ہی میں غیر ممالک میں ہیموفیلیا کے علاج کے لئے مونگ پھلی کو سب سے بہتر قرار دیا گیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
ہیموفیلیا ایک خطرناک مرض ہے جس سے خون کے اندر جمنے کی صلاحیت نہیں رہتی اور ذرا سی خراش یا زخم لگ جائے تو اس قدر جریان خون ہوتا ہے کہ مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ ماڈرن سائنس اس کا کوئئ علاج دریافت نہیں کر سکی مگر قدرت کے پاس اس کا فقیرانہ علاج موجود ہے۔ اور وہ ہر جگہ آسانی سے کوڑیوں کے مول دستیاب ہے اور وہ ہے مونگ پھلی {گراونڈ نٹ }اور میں اس سلسلہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مونگ پھلی کے اندر بھاری مقدار میں وٹامن بی پائی جاتی ہے بلکہ یہ وٹامن بی سے بھر پور خزانہ ہے۔ اس کے علاوہ دل کو طاقت دینے کے لیے لاجواب ہے۔ اب اس کے متعلق حیرت انگیز انکشااف ہوا ہے اور تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ہیموفیلیا (Hemophilia)کے لئے لاجواب دوا ہےاور ہیموفیلیا کے مریضوں میں یہ خون کے جریان کو روکنے میں جادو کا اثر رکھتی ہے۔ امریکہ کی لیوسیا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرامپٹن حال ہی میں کونسل آف سائنٹیفک اینڈ اندسٹریل ریسرچ کی دعوت پر بھارت تشریف لائے تو انہوں ہے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ ہیموفیلیا کے مرض کے لئے جدید سائنس کے پاس کوئی دوائی نہیں ہے مگر زراعتی ریسرچ نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے اور مونگ پھلی اس مرض کی لاجواب دوا ثابت ہوئی ہے۔
اس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر بورڈیا کس جو خو د بھی اس بیماری میں مبتلا تھے نے اس مرض پر ریسرچ شروع کر دی جس کا آج تک صرف یہی علاج تھا کہ مریض کے اندر دوسرے آدمی کا خون داخل کر دو جس کے اندر انجماد کی قوت ہو اور یہ کچھ عرصے کے لیے مریض کے اندر انجماد کی صلاحیت پیدا کر دیتا تھا۔ اس پر پروفیسر بورڈیا کس نے تحقیقات شروع کی کہ کون سا ایسا جزو خون کے اندر موجود ہے جو انجماد کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور وہ لیکوئر خوراک سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پروفیسر نے کچا جگر ، کچے انڈے اور کچا دودھ پی کر تجربہ کیا۔ مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔ کسی چیز سے ان کے خون کے اندر انجماد کی قوت پیدا نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ پروفیسر نے کچا خون پی کر بھی تجربہ کیا۔ مگر کوئی تسلی بخش نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ایک دفعہ 1957میں پروفیسر گھر سے باہر تھا اور چوٹ لگنے سے پروفیسر کے گھٹنے سے خون جاری ہو گیا جو کسی طرح بند ہونے میں نہ آتا تھا اور اس دوران میں اس نے مٹھی بھر مونگ پھلی ایسے ہی انجانے میں کھا لی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جو چلتا خون بغیر دوسرے آدمی کا خون جسم میں داخل کیے بغیر بند نہ ہو رہا تھا محض حقیر مونگ پھلی کھانے سے بند ہوگیا۔ اور اس طرح پروفیسر کو یقین ہو گیا کہ یہ معجزہ مونگ پھلی نے دکھایا ہے۔ بعد میں کئی دفعہ جریان خون شروع ہوا اور ہر دفعہ مونگ پھلی کے استعمال سے کامیابی ہوئی اور اس دوران میں پروفیسر کو سوائے مونگ پھلی کے اور کسی دوا کے کھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
اس کامیابی سے متاثر ہو کر پروفیسر بورڈیاکس نے ڈاکٹر فرامپٹن کو اس نادر دوا کے متعلق لکھا کہ ہیموفیلیا میں جہاں بڑی سے بڑی ادویات فیل ہو کر رہ گیئں وہاں مونگ پھلی نے معجزہ دکھایا اور آپ نے یہ رائے ظاہر کی مونگ پھلی ہیموفیلیا کے لئے لا جواب دوا ہے۔ یہئ نہیں بلکہ ہر قسم کے جریان خون کے لئے مفید ہے اور اس کے استعمال کرنے پر دوسرے مریض کا خون انتقال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
(Ground Nut)مونگ پھلی
دیگرنام:بنگلہ میں چنبا بادام‘ گجراتی میں مانڈوی یا بھوئی چنے‘ سندھی میں بوہی مگ اور انگریزی میں گراؤنڈنٹ کہتے ہیں ۔
ماہیت:بیل دار پوداہے۔اس کو پھلیاں لگتی ہیں جن کے اندرسے مغز نکلتاہے۔یہ زیادہ تر ریتلی زمین میں ہوتی ہے۔اس کا ذائقہ روغن دار اور مونگ کے دانوں سا مزہ ہوتاہے۔یہی اس کی وجہ تسمیہ ہے. اس کو بھون کر کھاتے ہیں اس کے اوپر نرم چھلکا ہوتاہے ہاتھ سے توڑا جاسکتاہے۔بھون کر کھانے سے اس کا ذائقہ مزے دار ہوجاتاہے۔
نوٹ:بنگال میں یہ چین سے آئی تھی۔اسلئے اس کا بنگالی نام چینا بادام مشہور ہوگیاہے۔
مقام پیدائش:جنوبی ہند،مشرقی یوپی،بمبئی ، بنگال ، پاکستان میں سندھ پنجاب خصوصاًتھل میں زیادہ ہوتی ہے۔
مزاج:گرم دو خشک تیسرے درجہ میں ۔
افعال و استعمال:مونگ پھلی نہ صرف بطور خوراک استعمال ہوتی ہے۔اور اس کے مغز سے تیل نکلاجاتاہے۔اس تیل کو بناسپتی گھی کے طور پر یا مٹھائی بنانے کے کام آتاہے۔
مونگ پھلی مجفف اور مقوی اعصاب ہے عام طور پر اس کوجریان و سیلان اور سرعت کا سبب قرار دیاجاتاہے لیکن اس کا مناسب معتدل استعمال بالکل غیر مضر ہے۔بلکہ یہ فوائد میں کاجو اور اخروٹ وغیرہ سے کم نہیں ہے۔
مونگ پھلی کا تیل روغن زیتون کا عمدہ بدل ہے اور اس کو سیلڈ آئیل(Sahad Oil) کہتے ہیں ۔
خاص:اجزاء:پروٹین( 33فیصد) کاربوہائیڈریٹ(35فیصد)روغنی مادہ(12فیصد)نشاستہ(37.8فیصد) نائٹروجنی مادہ‘کیلسیم اور فاسفورس کے علاوہ حیاتین(B1)پائے جاتے ہیں۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق