مقام پیدائش:
اتراکھنڈ کی پوتر جگہ خاص طور پر گنگوتری اور کدار ناتھ کے کھلے گھاس کے میدانوں میں ملتی ہے۔ ہمالیہ میں پیدا ہونے والے اس کے پودے (cressa cretica) جو عام طور پر دس سے گیارہ ہزار فٹ کی اونچائی پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہ کیلاش پربت،مندراچل،وندھیا چل کےدریاؤں کے منبع پر برفیلی پہاڑیوں کی تلہٹیوں و ہمالیہ کی ترائیوں اور پہاڑی زمینوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مختلف نام:
ہندی رودرونتی۔سنسکرت رودنتی،سنجیونی۔بنگالی رورادنتی۔گجراتی پلیو۔مرہٹی رودنتی۔لاطینی آسڑا گیلس کنڈرولینس (Astragalus Candro Ileanus) اور انگریزی میں کریسا سری ٹیکا (cressa cretica) کے نام سے پکارتے ہیں۔
شناخت:
رودرونتی (cressa cretica uses) کے پودے کے پتے چنے کے پودے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔پتوں کی پشت آسمان کی طرف اور رخ زمین کی طرف رہتا ہے۔اس کے پتے گھنے ہوتے ہیں اور اس کی شاخیں اور پتے ریشم کی طرح ملائم روئیں سے ڈھکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا پودا چمکدار نظر آتا ہے۔اس بوٹی سے ہمیشہ چمکدار پانی ٹپکتا رہتا ہے۔نیچے کی زمین ایسی چکنی ہوتی ہے، گویا تیل ڈالا گیا ہو اور وہاں پر چیونٹیاں جمع رہتی ہیں۔اس لئے اس کو رودنتی کہتے ہیں.
بڑی روؤدنتی پھل جسے لتھی کائی (Luthikai) بھی کہتے ہیں۔ وہ علیحدہ بوٹی جو اسی کتاب کے صفحہ پر آچکی ہے اور ٹی بی (دق)کا کامیاب علاج ہے۔(ہری چند ملتانی)
مزاج:
گرم وخشک۔
مقدار خوراک:
2 گرام سے 3 گرام تک۔
فوائد: (cressa cretica uses)
اس کی کھیر بدن کو موٹا کرتی ہے اور مردانہ طاقت کے لئےمفید (cressa cretica uses) ہے، ہاضمہ کو تیز کرتی ہے۔ تقویت جسم کے لئے خشک پتوں کا سفوف 2گرام شہد میں ملاکر کھلاتے ہیں۔
زہریلے جانوروں کے کاٹنے پر رودرونتی اور بابڑنگ برا بر لے کر پیس کر سفوف بنا کر 3 گرام ہمراہ پانی کھلاتے اور کاٹے ہوئے مقام پر لگاتے ہیں۔
رودرونتی دیہاتیوں کی قیمتی دوا ہے۔ یہاں کے لوگ اسے کافی مفید بوٹی مانتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ رودرونتی کے جوشاندہ کو کھانسی ودق میں ہونے والے دردوں میں استعمال کرنے سے خاص فائدہ (cressa cretica uses) ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا استعمال یہاں کے لوگ خون کی خرابی اور جوڑوں کے درد میں استعمال کرتے ہیں اور اسے جوشاندہ کی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کا ضماد چوٹ میں بھی کیا جاتا ہے۔پارہ کو اگر اس کے عرق میں کھرل کیا جائے تو وہ بندھ جاتا ہے۔
روؤدنتی(بڑی)
مختلف نام:
روؤدنتی۔نئی روؤدنتی،روؤدنتی جدید،مہاردؤدنتی،بڑی روؤدنتی۔
شناخت:
یہ دوا روؤدنتی (cressa cretica) کے نام سے موسوم ہے۔ تحقیقات اور تجربات سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں اس کے مطابق یہ ایک درمیانہ قد کی خودرو اور بے قاعدہ پھیلنے والی جھاڑی ہے۔ اسے پھل لگتے ہیں جو انڈے کی طرح گول ہوتے ہیں اور پکنے پر ان کا رنگ ہرا ہو جاتا ہے۔روؤدنتی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر کئی دھوکے باز لوگ اس میں بیل گری ملا دیتے ہیں۔ اس لئے خریدتے وقت خاص دھیان رکھا جائے۔
یہ ایک جنگلی پھل ہے۔ اس کی جھاڑی 15 سے 18 فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کے نئے نئے پتے جب نکلتے ہیں تو ان کا رنگ تانبے کی طرح ہوتا ہے۔ پکنے پر چمکدار ہرے رنگ کے ہوجاتے ہیں۔ ان کی ڈنڈی آدھ سے ایک انچ لمبی ہوتی ہے۔اس کو جو پھل لگتے ہیں وہ انڈے کی طرح گول ہوتے ہیں۔ بڑے پھل چھوٹے نار کے برابر ہوتے ہیں۔ کچے پھلوں کا رنگ پتوں کی طرح ہرا ہوتا ہے۔ پکنے پر بھی ان کا رنگ ہرا ہی رہتا ہے۔
اس کے چھوٹے چھوٹے پھلوں کو توڑ کر سکھا لیا جاتا ہے تو رنگ کالا ہو جاتا ہے مگر بڑے بڑے موٹے پھل سکھانے پر نسواری رنگ کے ہوجاتے ہیں۔ ان کا چھلکاسخت ہوتا ہے اور اندر سے ٹھوس ہوتا ہے ۔ان پھلوں کو کاٹنے سے اندر سے میٹھی میٹھی خوشبو نکلتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پھلوں کو کاٹنے سے ان کا گوداہلکا لالی لئے ہوتا ہے مگر سالم پھلوں کو توڑ کر چار چھ دن سکھانے کے بعد ہلکا گیرو رنگ کا نکلتا ہے۔ پھلوں کے اندر کئی بیج ہوتے ہیں۔بڑی روؤدنتی (cressa cretica) کے پھلوں کے متعلق ڈاکٹر مہدی حسن کی ریسرچ درج ذیل ہے۔
ریسرچ:
پاکستان کے ڈاکٹر مہدی حسن پی ایچ ڈی کونسل آف ریسر چ آف بائیوکیمسٹری کراچی نے بڑی کوشش سےڈاکٹر کرشن مورتی سے اس دوا کے سلسلہ میں رابطہ قائم کیا۔دکھشن میں انہوں نے کیرل،کونکن،بچھمی گھاٹ میں ان درختوں کو خود دیکھا اور دیکھنے کے بعد پتے، پھول اور پھل وغیرہ کی تفصیلات انہوں نے دی ہیں جو کہ نہایت تسلی بخش ہیں۔ نام کا پتہ لگنے پر پہچان کے لئے لفسٹن کالج بمبئی کے جڑی بوٹیوں کے پروفیسر شری کپور سے مدد لی گئی اور اس کی تصدیق سینٹ جیمز کالج بمبئی کے بوٹنیکل پریڈیڈنٹ ڈاکڑ فادر سنتا کے پاس جاکر کی گئی۔ پھر اس کی مستند تصدیق کے سر ایڈرورڈ سلبری ڈائریکٹر نیو گارڈن لنڈن کو بھیج کر دریافت کیا گیا اور یہ ان کے نمونے (Cappa Rismoonii) سے ٹھیک ملا۔اتنی کوشش اس لئے کرنی پڑی کہ کسی بھی جڑی بوٹیوں کی ماڈرن کتاب میں اس کا نام نہیں تھا۔بڑی روؤدنتی کا نام کلپت ہے۔
اسے مختلف صورتوں میں بذریعہ تصاویر قدرتی حالت میں دکھانے کی کوشش ڈاکٹر مہدی حسن نے کی ہے۔ اس کی جھاڑی کی پوری تصویر بھی قدرتی حالت میں پہچان کے لئے دی گئی ہے۔ جس سے ناظرین فائدہ اٹھائیں گے۔ اس کے پھل ماہ اپریل میں اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ پھلوں کے سفوف کی خوراک چھ رتی سے اڑتالیس رتی تک پانی یا دودھ (cressa cretica uses) کے ساتھ دے سکتے ہیں۔
پیداوار ہونے کی جگہ:
اس کی جھاڑیاں (cressa cretica) پچھمی گھاٹ،کونکن اور دکھشنی کنارا،کیرل اور لنکا کے گھنے جنگلوں میں جو سمندری جگہ سے دو سے اڑھائی ہزار فٹ کی اونچائی تک ہوتے ہیں، خود بخود پیدا ہو تی ہے۔ یہ میسور میں شراوتی ندی کے کناروں میں گھنے جنگلوں میں ضلع کاروار اور منگلور کے گھاٹوں میں بہت زیادہ مل جاتی ہے۔یہ دکھشن بھارت میں سرسی،کھمبا،سلاسا اور کھنڈالا وغیرہ چاروں طرف کے جنگلوں میں بہت پائی جاتی ہے۔
مختلف نام:
ہندی بڑی روؤدنتی پھل،لتی کائے،کونکن چھوٹی کائی۔مرجا دھوگھٹ (Marjadu Ghaut) کاروالتی کائے۔کنٹرتلی کائے۔لتھی کائی(Luthikai)
فوائد:(cressa cretica uses)
پھوڑے پھنسیوں، زخموں،چوٹ،کیل،مہاسے اور گرنتھیوں میں سوجن دور کرنے کے لئے یہ کافی عرصہ سے استعمال ہوتی ہے۔
یہ دق کے جراثیم )بیسی لس ٹیوبر کیلوسس(کےلئے بہت ہی مفید ہے۔یہ ان کی حرکت کو کم کرتی ہے ان کی بڑھوتری میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ٹاکسیما(Toxaemia)کو کم کرتی ہے۔اس کے استعمال (cressa cretica uses) سے بخار کم ہوجاتا ہے۔ کھانسی ختم ہو جاتی ہے، بھوک بڑھ جاتی ہے، وزن بڑھ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ دق کے مریضوں کے علاوہ اس سے نہ تو دیگر مریضوں کے جسم یا وزن میں بڑھوتری ہوتی ہے اور نہ بھوک بڑھتی ہے، پھیپھڑوں کے زخم بھر جاتے ہیں اوران کا نشان تک باقی نہیں رہتا۔مریض کی عام جسمانی (cressa cretica uses) حالت بہت اچھی ہو جاتی ہے اور وہ اپنے میں ایک نئی زندگی محسوس کرتا ہے۔ اسے نیندبھی خوب آتی ہے۔
خاص استعمال:
شری ڈاکٹر جی، کرشن مورتی جو ڈاکٹر بالا بھائی نانا وتی ہسپتال میں بمبئی میں دیہی ادویات کے کلینکل ریسرچ سنٹر کے پریذیڈنٹ تھے اورجن کو چوتھائی صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے پھیپھڑوں کی ٹکٹ کے علاج کرنے میں خاص تجربہ تھا انہوں نے 28 دسمبر 1957کو نانا وتی ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک میٹنگ میں ٹریٹمنٹ آف پلومنری ٹیوبر کیلوسس ودرروودنتی اینڈ جینس انڈین ڈرگ (Treatment of Pulmonary Tuberculosis with Raudanti &Indigenous Indian Drug)یعنی پھیپھڑوں کی دق کا رووّدنتی ودیسی ہندوستانی ادویات کے ذریعے علاج نام کا ایک مقالہ پڑھا تھا جو کہ 1957 کے کرنٹ میڈیکل پریکٹس(Current Medical Practice)میں چھپ چکا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ جولائی 1953 میں ایک دو سال کا بچہ میرے پاس لایا گیا، وہ ٹاکسیما اور عام کمزوری میں تھا۔ اس کی جانچ کرانے پر ا سے پھیپھڑوں کی دق پائی گئی اور گردن کے دونوں طرف کے غدود سوجے ہوئے تھے۔ حدود کا کٹھور پن سخت تھا اور اس میں پیپ پڑ رہی تھی۔ بغل کا ٹمپریچر 101 درجہ فارن ہائیٹ تھا جب کہ بچہ صرف تین ماہ ہی کا تھا۔سٹرپٹو مائی سین،آئی،این ایس یعنی آئی جی نیکس اور پی اے ایس یعنی پاس کی ضرورت کے مطابق خوراک سے اس کا علاج پہلے کیا جاچکا تھامگر اس کی حالت میں پہلے سے بھی بگڑتی جا رہی تھی۔
یہ پہلا موقعہ تھا جب میں نے بڑی رودنتی (cressa cretica) کا پھل کا سفوف استعمال (cressa cretica uses) کیا جو مجھے ایک واقف نے دیا تھا اور پیپ پڑ رہی جلد کے لیے فائدہ مند تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس مریض کو سفوف صرف اس امید پر دیا گیا تھا کہ صرف مرض کی چھوت دور ہو جائے گی۔ ایک ہفتہ کے بعد پیپ پڑی ہوئی خراب جلد تندرست ہوگئی اور پیپ کا بننا ختم ہو گیا۔ مریض بہت اچھی حالت میں تھا اور اس کی بھوک بڑھ گئی تھی۔ میں نے اور چھ ہفتہ تک علاج جاری رکھا۔ اس کی غدود کی بڑھوتری بہت جلد ختم ہو گئی۔ لگ بھگ تین ماہ کے علاج میں کوئی غدود بھی بڑھا ہوا نہ تھا اور بچہ کا وزن پانچ پونڈ پڑ گیا تھا
ان تجربات نے مجھے غور کرنے پر مجبور کیا کہ بڑی رودنتی سٹرپٹو کوکائی اور سٹفلو کوکائی کی چھوت سے ہونے والے امراض کے لئے زود اثر ہے۔
میں نے ایک 32 سال کے مریض کے اے ڈی کو چھانٹا جو کہ دق کے مرض سے تندرست ہوا تھا۔ اس کے دائیں پھیپھڑے کے اوپر کے حصہ میں دو غاریں (Cavaties) تھیں۔ اس کا دایاں پھیپھڑا بالکل ٹھیک تھا۔مریض کو بڑی روؤدنتی کا سفو ف ہر روز بارہ گرین(چھ رتی) کی خوراک میں چار خوراکوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا چونکہ میں اس دوا کے استعمال اور مضر اثرات کے بارے میں زیادمعلومات نہ رکھتا تھا اس لئے میں نے مریض کی دیکھ بھال بہت احتیاط سے کی۔ ہر ہفتہ اس کی چھاتی کی سکرین کی جاتی تھی۔ تیسرے ہفتے مریض کی عام حالت میں سدھار دکھائی دیا اور پانچویں ہفتے ایکسرے سے معلوم ہوا کہ ان دوغاروں میں سے اب تک ایک بھر چکی تھی۔ اب مریض کے نتیجہ نے مجھے بڑی روؤدنتی کے متعلق اپنے تجربہ کو جاری رکھنے پر مجبور کر دیا اور میں نے پھیپھڑوں کی دِق کے کچھ اور زیادہ مریضوں کواس کے ذریعے علاج (cressa cretica) کرنے کے لئے چنا۔ موجودہ حالات میں بہت سے مریضوں پر بڑی رودنتی کے ذریعے کئےگئے کلینیکل تجربات کا ہی نتیجہ ہے۔
طریقہ علاج:
بڑی رودنتی (cressa cretica) کے ذریعے علاج کرنے کے لئے زیادہ تکلیف والے مریض ڈاکٹر والا بھائی ناناوتی ہسپتال سے چنے گئے تھے۔ مریضوں کو ہسپتال کے باہر رکھ کران کا علاج کیا گیا تھا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی اور بعد میں ان کوہلکا کام کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس کی تحقیقات شروع کی حالت میں تھوک کی جانچ ای ایس آر نہیں کئے گئے تھے۔ اوپر بتائے گئے مریض تین قسموں میں بانٹے گئے تھے۔
1۔ ایک وہ جن کا علاج پہلے اینٹی بائیوٹک اور کیموتھیراپیوٹک ادویات وسٹرپٹومائی سین۔آئی این ایچ اور پی اے ایس کے ذریعے کیا جا چکا تھا۔ میں نے خاص طور پر وہ مریض چنے جو 200 گرام سے زیادہ سٹرپٹومائی سین لے چکے تھے۔
2۔ وہ مریض جن میں ریشے دار پنیری حالت (Feibrocaseous) میں تھے۔
3۔ وہ مریض جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے بیمار تھے۔ چونکہ کچھ مریضوں میں بلغم کا نکلنا نہیں تھا اس لئے بلغم کی جانچ سب مریضوں میں عملی طور پر نہیں کی۔ اس کی صحت کے بارے میں رپورٹ، وزن بڑھنے،بھوک بڑھنے اور ایکسرے پر منحصر تھی۔
اس تحقیق میں شروع میں روؤدنتی (cressa cretica) کی دو ٹکیاں( ہر ایک چھ گرین سفوف کی بنی ہوئی)دن میں دوبار دی جاتی تھیں۔زیادہ تجربہ کرنے پر میں نے ہر روز چھ چھ گرین کی تین برابر خوراکیں بہت فائدہ مند پائیں تو بھی بعد میں میں نے ہر روز 48 گرین کی چار برابر خوراکیں(دودو گرین کی ٹکیوں کی چار خوراکیں) بہت ہی زود اثر پائی ہیں۔یہ بیان کردینا مناسب ہےکہ کچھ مریض جو ہر روز 96گرین روؤدنتی سفوف چار بار کرکے لیتے رہے ہیں انہوں نے کسی تکلیف کو ظاہر نہیں کیا ہے۔
چارپائی پر آرام کرنے کی منظوری تب دی جاتی تھی جب تیز بخار اور ٹاکسیمیا ہوتا تھا تو بھی یہ آرام مکمل نہیں ہوتا تھا کیونکہ مریضوں کو اپنے گھروں میں ہر روز تھوڑا چلنے کی اجازت تھی۔ زیادہ پروٹین والی خوراک تجویز کی جاتی تھی مگر بہت سے مریض نہایت غریب تھے جس سے وہ اس تجویز کی تعمیل سختی سے نہیں کرسکتے تھے۔
جہاں تک ممکن تھا بڑی رووّدنتی (cressa cretica) کے علاوہ اور کوئی دیگر دوا نہیں دیگر دوا نہیں گئی۔ کچھ مریضوں کو زیادہ خون کی کمی کی وجہ سے رودنتی کشتہ فولاد کے ساتھ دی گئی تھی۔ تب تک کل 97 مریضوں کا علاج بڑی رودنتی کے ذریعہ کیا جا چکا تھا۔ 55مرد اور 42 عورتیں۔ مریضوں کی عمر مندرجہ ذیل تھیں:
1۔ 20 سال سے کم عمر کے 11
2۔ 20 اور 30 سال کے درمیان میں 52
3۔ تیس اور چالیس کے درمیان میں 25
4۔ 40 سال سے زیادہ عمر کے 9
ان مریضوں میں سب سے کم عمر کا مریض 9سال کا تھا اور سب سے بڑی عمر کا مریض 65 سال کا تھا۔ مریض مختلف کاروباری برادری میں سے تھے مگر زیادہ تر بہت غریب تھے،(زیادہ مالی حالت کے 7 درمیانی حالت کے 23 اور غریب حالت کے 67)۔
97 مریضوں میں 81 مریضوں تھیرائپوٹک یا انٹی بائیوٹک ادویات وسٹرپٹومائی سین،آراین ایچ اور پی اے ایس کا استعمال کرایا جاچکا تھا اور وہ مریض پیٹ میں ہوا بھر آچکے تھے۔
میرے اس طریقہ علاج کا اوسط عرصہ 4 ماہ کا تھا۔ علاج (cressa cretica) کا کم سے کم عرصہ ایک ماہ کا تھا اور زیادہ سے زیادہ عرصہ ایک سال کا تھا۔
نتیجہ:
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے نتیجہ وزن کے بڑھنے، بھوک لگنے اور ایکسرے میں سدھار ہونے سے کیا جاتا تھا۔ سدھار کی قسمیں ٹھہرائی گئی تھیں۔ یعنی بہت اچھی، درمیانہ اچھی، کم اچھی اور بغیر فائدہ کے۔
بہت اچھی 37، اچھی درمیانہ 41، کم اچھی 13 بغیر فائدہ کے 17،(ان میں سے دو کی موت ہوگئی تھی)۔
معائنہ:
ان مریضوں کی حالت کے معائنہ کے بعد حاصل کئے گئے نتائج اس طرح تھے:
1۔ عام طور پر دو ہفتوں کے اندر ہی اندر بھوک میں بڑھوتری ہوگئی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مریض زیادہ خوراک کھانے والے ہو گئے تھے مگر تو بھی بد ہضمی سے بیمار نہیں ہو پائے تھے۔
2۔ بخار بڑھا ہوا ہوتا تھا تو دو ہفتہ کے اندر اندر نارمل ہوجاتا تھا۔
3۔ وزن میں حیران کن بڑھوتری ہوتی تھی۔ اوسط زیادہ سے زیادہ 14سے 15پونڈ۔
ڈاکٹر جی کرشنا مورتی نے اپنے 97 مریضوں میں سے جن مریضوں کے سلسلہ میں تصویر کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔ اس کے معائنہ سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کے استعمال(cressa cretica uses) سے خاص طور پر وزن بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ دوسرے مریض کا وزن چار ہفتہ میں 71 پونڈسے 94 پونڈ ہوگیا تھا۔ یعنی 23 پونڈ بڑھ گیا تھا۔ تیسرے مریض کا وزن چار ماہ میں 115 پونڈ سے 150 ہوگیا۔ یعنی 35 پونڈ بڑھ گیا۔
اس کے علاوہ صحت حاصل کرنے کے چار سال بعد جب ان کا ایکسرے لیا گیا، جبکہ انہوں نے بڑی روودنتی کا استعمال چھوڑ دیا تھا تو بھی ان کا پھیپھڑ ہ دق کےاثر سے بالکل محروم تھا۔
پانچواں مریض 24 سال کا ایک لڑکا تھا جس کا دو ہفتہ میں بخار جاتا رہا۔ کہ جیسے اس کی بھوک بڑھ گئی اور اس کی عام جسمانی حالت بہت اچھی ہوگئی۔ ساڑھے چار ماہ میں وہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اس کا وزن 110 پونڈ سے 123 پونڈ ہو گیا، یعنی 12 پونڈ وزن بڑھ گیا تھا۔
چھٹے مریض کا وزن 86 پونڈ سے 96 پونڈ ہو گیا۔ یعنی دس پونڈ بڑھ گیا تھا۔
ساتویں مریض کا وزن 82 پونڈ سے 110 پونڈ ہوگیا، یعنی 28 پونڈ بڑھ گیا تھا اور
دسویں کا وزن 98 پونڈ سے 118 پونڈ ہوگیا تھا یعنی 20 پونڈ کی بڑھوتری ہوگئی تھی۔
4۔ ٹاکسیمیا میں بھی سدھار ہوجاتا تھا۔ اس کی جانچ مریض کی عام حالت اور ایکسرے سے کی جاتی تھی۔
5۔ اکٹھا ہوا سیال دو یا تین ماہ میں سوکھ جاتا معلوم پڑتا تھا۔
6۔ یہ دوا (cressa cretica) کوٹروں کے تناوّ کو بند کرنے کے لئے مفید (cressa cretica uses) معلوم ہو چکی تھی، ان معائنوں سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ دوائی بیسی لائی(Basillai)کے چھوت پھیلانے کی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے۔(کرنٹ میڈیکل پریکٹس)
روؤدنتی پر دیگر تجربات
خان پور کے ایک سا ہوکار کی بیوی لگاتار دو سال سے ٹی،بی(دق)سے بیمار تھی۔ جس کا ایلوپیتھک طریقہ سے علاج کیا جاچکا تھا لیکن آرام نہ آیا اور مریضہ کمزور ہوتی گئی۔ خشک کھانسی، چھاتی میں درد، بخار، خون کی کمی، ایام بند اور کمزوری حد سے زیادہ تھی۔ جسم ہڈیوں کا پنجر تھا۔ میں نے مندرجہ ذیل ادویات استعمال (cressa cretica uses) کرائیں۔
سب سے پہلے بڑی روونتی (cressa cretica) پھل اور بانسہ کے پتے کا سفوف برابر میں ملا کر تین تین ماشہ کی تین خوراک ہر روز گائے کے گرم دودھ سے ایک ماہ تک دی جس سے مریضہ کے سانس اور کھانسی میں کافی فائدہ (cressa cretica uses) ہوا جس سے ان سب کا آیوروید یونانی پر یقین بڑھا۔ اس کے بعد دوائی میں مندرجہ ذیل تبدیلی کی گئی، یعنی مندرجہ بالا سفوف میں سورن بسنت مالتی رس ایک ایک خوراک ملا دی گئی۔ کچھ دنوں کے بعد مریضہ میں طاقت آنے لگی اور تندرست ہوگئی۔
دیگر:
ایک اور مریضہ کے پستانوں میں گانٹھیں پیدا ہوا کرتی تھیں اس وجہ سے مریضہ کے پستان پر بہت سوجن آتی تھی اور درد ہونا، بخار بڑھنا وغیرہ علامات تھیں۔ کچھ دوا لینے سے آرام لیکن پھر وہی پہلے والی حالت ہو جاتی تھی۔
میں نے بڑی رودنتی (cressa cretica) پھل کا چورن ڈیڑھ ماشہ اور ڈیڑھ ماشہ تازہ بانسہ کے خشک پتوں کا سفوف دودھ کے ساتھ دن میں تین بار کچھ دن تک استعمال (cressa cretica uses) کرایا۔ اس مریضہ کے پستانوں میں پھر کبھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔
میرے تجربہ میں بڑی رووّنتی پھل کے ساتھ بانسہ کے تازہ خشک پتے اور سورن بسنت مالتی کا دین زیادہ فائدہ مند (cressa cretica uses) ہے۔(ویداےڈے کرنپشن پورہ)
دیگر:
سفوف روؤدنتی دس تولہ، چھلکا جڑ چھوٹا چندرا پانچ تولہ، ہلدی خام(لمبی و پتلی گانٹھوں والی) پانچ تولہ، آک کا دودھ چھ ماشہ، سب کو ملالیں۔
خوراک:
تین سے آٹھ گرین دن میں دو سے تین بار حسب برداشت کھانا کھانے کے بعد استعمال (cressa cretica uses) کریں۔
نوٹ:
اکیلی سفوف رودنتی دس گرین یا پانچ گرین کی ہر خوراک کے ساتھ یا علیحدہ ایک رتی سورن بسنت مالتی رس شامل کردیں تو بہت جلد فائدہ حاصل ہوتا ہے۔( حکیم ہری چند ملتانی،پانی پت)
بڑی رو ؤدنتی (cressa cretica) بوٹی سے دِق وسل کا علاج:بڑی روؤدنتی سل ودق کے لئے نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔بڑی روؤدنتی کہ پھلوں کا سفوف تیار کرلیں ورد ورتی سےپانچ رتی تک دن میں تین چار بار ہمراہ دودھ یا پانی دیں یا اس بوٹی کے پھل کا سفوف لے کر 6 گرام کی مقدار میں 250 گرام پانی میں ڈال کر آگ پر رکھیں۔ جب 50 گرام رہ جائے تو جوشاندہ کو نتھار کر 5 گرام سے 10گرام استعمال (cressa cretica uses) کریں۔ فائدہ ہوگا۔
سفوف پھل بڑی روؤدنتی 100 گرام، سفوف چھلکا جڑ چھوٹا چندرا 50 گرام، ہلدی کچی(لمبی وپتلی گانٹھو ںوالی)،آک کا تازہ دودھ 6 گرام، سب کو بھی سفوف بناکر سب کو ملا لیں۔
خوراک تین سے آٹھ دن میں دو سے تین بار حسب برداشت کھانا کھانے کے بعد استعمال (cressa cretica uses) کریں۔
نوٹ:
سفوف بڑے رودنتی (cressa cretica) کی ہر خوراک کے ساتھ ایک سے دو گرین( آدھی سے ایک رتی)’’سورن بسنت مالتی ناز شامل کرکے دی جائے تو زیادہ موثر ہے اور فوراً فائدہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
رودنتی) رُورونتی)(cressa cretica)
دیگر نام:
فارسی میں سنجیونی‘ بنگالی میں روراونتی‘ گجراتی میں پلیو‘ مرہٹی میں رودنتی‘ بمبئی میں کنکی کہتے ہیں۔
ماہیت:
رودنتی کے لفظی معنی’’ رونے والی‘‘ ہیں۔ اس کے پودے سے ہر وقت پانی کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ اس دو اقسام ہیں:
(1) رودنتی خرد:
اس کے پتے (cressa cretica) چنے کے پودے سے مشابہ ہوتے ہیں۔ پتوں کی پشت آسمان کی طرف اور رخ زمین کی طرف رہتا ہے۔ اس کے پتے گھنے ہوتے ہیں جبکہ شاخیں اور پتے ریشم کی طرح ملائم روئیں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ جس کے وجہ سے اس کا پودا چمکدار نظر آتا ہے۔ اس بوٹی سے ہمیشہ پانی ٹپکتا رہتا ہے۔ نیچے کی زمین ایسی چکنی ہوتی ہے۔ گویا تیل ڈالا گیا ہے اور وہاں پر چیونٹیاں جمع رہتی ہیں اور اسی وجہ سے اسے روندنتی کہتے ہیں۔ اس کا پھول بیگنی‘ سفید یا زرد رنگ کا شاخ کے آخر میں بچوں میں ہوتا ہے‘ یہ نیاب بوٹی ہے۔
(2) روندتی کلاں:
اس کا نباتاتی نام کیپرس مونی(CaparisMooni) ہے۔اس کی اونچائی تقریباً دس فٹ ہوتی ہے۔ اس کا پھل بیضوی شکل کا خشک انار کی طرح‘ جس کا قطر اخروٹ کے برابر تقریبا دو انچ ہوتا ہے۔ یہ پھل (cressa cretica) باہر سے سیاہی مائل اور اندر سے گیرو رنگ کا ہوتا ہے جس کا رنگ سبز‘ ذائقہ قدر تلخ کسی قدرشور‘ پھل کا سفوف پھیکا آٹے کی طرح ہوتا ہے۔
مقام پیدائش:
میسور‘ کونکن اور سری لنکا کے گھنے جنگلات میں ہوتا ہے۔
مزاج:
گرم خشک درجہ دوم
استعمال:
ملطف اور کھانا ہضم کرتا ہے۔ دماغی اور شکمی اعضاء کے لئے مفرح (cressa cretica uses) ہے۔ اس کی کھیر بدن کو موٹا کرتی ہے اور مقوی باہ ہے۔ وئیدوں کے نزدیک تپ دق اور ہر قسم کے جراثیم کو ختم کرنے والی‘ منیکو بڑھانے‘ جسم کو فربہ کرنے والی اورپرمیہ کو دور کرنے والی رسائن بوٹی ہے۔
تقویت جسم کے لئے خشک پتوں کا سفوف 3 گرام +شہد 15 ملی لیٹر‘ روغن گاؤ 20گرام میں ملا کر ہر روز صبح کھلایا جاتا ہے۔ یہ قبل از وقت بالوں کو سفید ہونے سے روکتی ہے۔ زہریلے جانوروں کے کاٹنے پر رودنتی اور باؤبڑنگ کا ہم وزن سفوف کھلاتے ہیں اور اسی کو کاٹے ہوئے مقام پر لگاتے اور نسوار دیتے ہیں۔ سیماب( پارہ) کو اس کے عرق میں کھرل کیا جائے تو بندھ جاتا ہے۔
ریاست میسور کے غیر مہذب اور وحشی قبیلے رودنتی کلاں کا پھل کھانسی‘ دمہ اور زکام کے علاوہ اس کا ضماد چوٹ اور خراش کے علاج میں استعمال (cressa cretica uses) کرتے ہیں۔
رودنتی کے پھل کا سفوف ہم وزن چینی ملاکر بقدر ایک 2 گرام دن میں 3 بار تپ دق کے کم سن مریض کو استعمال کرایا تو اس دواءسے حیرت انگیز فائدہ ہوا۔( حکیم مظفر اعوان)
رودنتی (cressa cretica) کو سایہ میں خشک کر کے ہم وزن مصری ملاکر معین حمل‘ استقرار حمل کے لئے استعمال (cressa cretica uses) کرتے ہیں۔ یہ رحم کو طاقت دینے کے باعث استقرار حمل کے لئے معین ہے۔ نصف ترپھلہ‘ چوتھائی وزن ترکٹہ اور ہم وزن مصری کے ہمراہ سفوف بنا کر بقدر سات ماشہ شیر گاؤ کے ہمراہ جمیح اوجاع بدن اور تقویت جسم کے لیے کھلاتے ہیں۔
نفع خاص:
مقوی بدن۔
مضر:
کسی عضو کے لیے خاص طور پر مٖضر نہیں۔
مصلح:
روغن زرد‘ شیر تازہ۔
بدل:
بےبدل۔
مقدار خوراک:
3 سے 5 گرام تک
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق