مختلف نام: مشہور نام کنول۔ ہندی کنول ، سفید کنول۔ سنسکرت کمالا ، کملا ، پدم، شت پتر۔ بنگالی پدم۔ تامل امبل۔ عربی قاتل الخل ۔ مرہٹی کمل۔ گجراتی کمل ، دھولے کمل۔ انگریزی سیکریڈ لوٹس(Sacred Lotus) اور لا طینی میں نیل امبی ام سپیسی اوسم(Nelumbium Spesiosum)کہتے ہیں۔
کنول گٹہ: مشہور نام کنول گٹہ۔ ہندی کنول کے بیج ۔ سنسکرت پدم بیج، کندلی۔ بنگالی پدم بچپی۔ مرہٹی کملا کش۔ تامل تامر کاڑ۔ گجراتی کمل کاکڑی ۔ پنجابی کول ڈوڈہ ۔ انگریزی لوٹس سیڈ (Lotus Seed) اور لاطینی میں یوریل فیریکس (Euryale Ferox) کہتے ہیں۔
شناخت: کنول ایک خوبصورت آبی پودا ہے جو ہندوستان بھر کے چشموں، تالابوں اور جھیلوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے بیج “کنول گٹہ” کے نام سے ادویات میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کے پھول چکنے، گول لگ بھگ 60 سے 90 سینٹی میٹر سائز کے ہوتے ہیں۔ پھول بڑے بڑے سفید یا گلابی ہوتے ہیں۔ کنول کے پھول کی پنکھڑیاں جھڑ جانے کے بعد ایک کوزہ سا نظر آ تا ہے۔ اسی کے اندر کئی خانے ہوتے ہیں اور ہر خانہ میں بیج ہوتا ہے۔ اس کے اندر مغز پایا جاتا ہے جس کی دو پھانکیں بادام جیسی ہوتی ہیں ۔ مغز سفید و معمولی میٹھا ہوتا ہے۔ مغز کے درمیان بیج میں ایک ہرے رنگ کا پتہ ہوتا ہے۔ اس پتہ کو دور کر کے ہی کنول گٹہ کا مغز استعمال کیا جائے۔
کہتے ہیں کہ کنول پانی میں رہتے ہوئے بھی پانی سے بے لاگ رہتا ہے اس لئے مہاتما اور فقیر کہتے ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں اللہ تعالی کی یاد میں رہتے ہوئے ایسے رہنا چاہئے جیسا پانی میں کنول رہتا ہے۔
کنول کے پتے نیلو فر کے پتوں سے کچھ بڑے ، پھول نیلو فر کے پھول کی نسبت پھیلاؤمیں زیادہ۔ اس کے اندر پھول سورج مکھی کی طرح کا زرد رنگ کا زیرہ پایا جاتا ہے۔
آبی کنول عام طور پر بے بو ہوتا ہے مگر بعض ایسے بھی پائے جاتے ہیں جن میں ایک خاص قسم کی بو پائی جاتی ہے۔ کنول اکثر تین قسم کا ہوتا ہے۔ لال، سفید اور نیلگوں۔ تینوں قسم کے پھول دوا کے طور پر کئے جاتے ہیں۔ سفید کنول کو زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔
مقدار خوراک: مغز کنول گٹہ پتا دور کر کے 3 گرام سے 6 گرام تک۔
ماڈرن تحقیقات: کنول گٹہ میں اجزاء لحمیہ ، شحم، نشاستہ جات، کیلشیم، فاسفورس، فولاد اور اسکاربک ایسڈ پائے جاتے ہیں۔
مزاج: کچا سرد وتر اور پکا سرد وخشک۔
فوائد: مغز کنول گٹہ بچوں کے امراض، بچوں کے دستوں، سفید داغوں ، جریان اور سرعت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شہد کی مکھی کنول کے پھولوں کا رس چوس کر جو شہد بناتی ہے وہ امراضِ چشم کے لئے بہت ہی مفید بتایا گیا ہے۔ کنول گٹہ صفراء، جوشِ خون و تشنگی کا بھی علاج ہے۔
ہندوستان میں دیہاتی عورتیں کنول کے پھول توڑ کر اپنے بالوں میں آرائش حسن کے لئے ٹانکتی ہیں۔ اس کی ہری شاخوں کو پیس کر اگر تیل تلی میں جوش دے کر تیل تیار کیا جائے تو سر میں لگانے سے سر اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ مغز کنول گٹہ کو پانی میں پیس چھان کر بچوں کو پلانے سے پیاس اور اسہال میں مفید ہے ۔ جریان کے عارضہ کے لئے مغز کنول گٹہ کا سفوف چار گرام برابر چینی ملا کر دینے سے یہ عارضہ دور ہو جاتا ہے۔
کنول کے آسان طبی مجربات
سفید داغ: کنول سفیدکے پھول کا زیرہ سایہ میں خشک کر کے سفوف بنائیں ، 6 سے 10 گرام صبح و 6سے10گرام شام کو ہمراہ پانی دیں۔کچھ عرصہ استعمال کرنے سے سفید داغ (برص)کا عارضہ دور ہو جاتا ہے۔
دردِسر: کنول کے پانی کے ساتھ پیس کر ماتھے پر لیپ لگانے سے دردِسر دور ہو جاتا ہے۔
تیل مقوی: سالم پودے کا رس 125گرام ، تلی کا تیل 250 گرام میں جلا کر تیل چھان لیں۔سرپر لگا نے سے سر و آنکھوں کو فرحت بخشتا ہے۔
امراض جلد: اس کے بیج پھوڑے پھنسیاں وغیرہ امراضِ جلد میں مفید ہیں۔
اسہال اطفال: کنول کی گری کا شیرہ یا سفوف بچوں کو استعمال کرانا دست روک دیتا ہے۔
دوائے جریان: بداری قند 40گرام،موصلی سنبل40گرام ،گوکھرو20گرام،مغز کنول گٹہ 20گرام۔ سب کے برابر وزن چینی ملا لیں ۔ سفوف بنا کر 6گرام صبح اور 6گرام شام گائے کے نیم گرم دودھ سے دیں۔
کنول کے آسان آیورویدک مجربات
اْت پلادی(بھاو پرکاش): تینوں قسم کےکنول کے پھول 50گرام ، ملیٹھی چھلی ہوئی 50گرام سفوف بنائیں۔اس میں 12 گرام دوائی کا 50 گرام پانی میں جوشاندہ بنا کر چینی ملا کر چھان لیں اور استعمال کرائیں۔ہرقسم کا جریانِ خون روکتا ہے۔ آنتوں کے اور کثرت ِایام کے خون کو بھی روکتا ہے۔
دردِشقیقہ: سفید کنول کے شگوفےاور نرم شاخیں10 گرام ،صندل سرخ10 گرام ، دونوں کو پانی کے ساتھ گاڑھا لیپ تیار کریں اور پیشانی اور کنپٹی پر لگائیں ۔ دردِ شقیقہ کے لئے ازحد مفید ہے۔
اروند آسود)آیورویدسنگرہ(: کنول،خس،کمبھاری کے پھل ، نیلافر مجیٹھ، ہرڑ،بہیڑہ، آملہ، الائچی خورد، جٹا بانسی،بلا،موتھ، اننت مول، درچ،کچور،برگ نیل،پٹول پتر، شاہترہ ، ارجن چھال،گل مہوہ، ملیٹھی ہر ایک 40 گرام باریک کر کے منقٰی ایک کلو، گل دھاوا 650 گرام ، چینی 5 کلو ، شہد ڈھائی کلو ، پانی 25 کلو میں بطریق معروف آسو تیار کریں۔ بچوں کو دس بوند سے ایک چمچہ تک عرق سونف میں دیں۔بچوں کی تمام بیماریاں مثلا قے، اسہال ، دانت نکالنے کی تکا لیف، ہلکا بخار، سردرد ، جسما نی کمزوری میں مفید ہے۔ بچوں کے لئے بہترین ار شٹ (ٹانک)ہے۔
سفوف کنول گٹہ: گری کنول گٹہ ، خار خسک کلاں ، چھلکا درخت گولر ہر ایک 6 گرام ، تالمکھانہ ، بیج بند ، سر دالی، گوندڈھاک ہر ایک 3 گرام ،چینی سفید 400 گرام۔
کوٹ چھان کر سفوف بنائیں ، 10 گرام صبح اور 10 گرام شام ہمراہ دودھ نیم گرم استعمال کریں ، جریا ن و سرعت کے لیے مفید ہے۔
کنول گٹہ کشتہ جات میں استعمال
کشتہ عِقیق: دس گرام کی سالم ڈلی گرم کر کے عرق کیوڑہ میں 21 بار بجھائیں، پھر آدھا کلو کنول گٹہ کوٹ کر ایک ٹاٹ پر آدھا بچھائیں اور اُس پر عقیق کی ڈلی رکھ دیں،باقی نصف کنول گٹہ بطور لحاف اوپر ڈال دیں اور ٹاٹ کا غلولہ بنا کر دس کلو اپلوں کی آگ دیں ۔ پہلی بار کچا رہ جائے تو دوبارہ یہی عمل کریں ، سفید رنگ کا کشتہ تیا ر ہو جائے گا۔دو سے چار گرین تک شہد یا بالائی میں دیں ۔ کمزوریَ دل ، پرانے خفتان و خشک کھانسی میں مفیدہے۔حکیم ڈاکٹر ہری چند ملتانی،پانی پت
کنول یا گل بکاوَلی کے شہد سے آنکھو ں کا علاج
بہت سال پرانا واقعہ یاد آرہا ہےکہ میرا ایک وید دوست آنکھوں کے کئی امراض کا علاج کرتا تھا۔یہا ں تک کہ وہ آنکھوں میں پانی اُتر آنے کا علاج بھی بغیر آپریشن دوا سے ہی کرتا تھا اور اُس زمانے میں شہد کنول کی ایک شیشی آٹھ روپے میں دیتا تھا جو ایک تولہ وزن کی ہوتی تھی ۔ یہ شہد آنکھ میں ڈالنے سے دو تین ماہ کے اندر آنکھ میں اترا ہوا پانی زائل ہو جاتا اور بغیر آپریشن کے موتیا بنددرست ہو جاتا تھا۔میں اپنے دوست سے نسخہ پوچھتا رہا مگر وہ ٹالٹا رہا ۔ بالآخر اُس نے مجھے بتایا کہ یہ صرف شہد کی مکھی کا وہ شہد ہے جو کنول سے تیار کرتی ہےاور سفید ہوتا ہےاور اس میں بغیر کسی دوا کی آمیزش کے وہ شہد ہی بطور دوا کے سلائی سے آنکھ میں لگوایا کرتا تھا ۔بات آئی گئی ہو گئی اور میں اس پر مزید تجربات نہ کر سکا ۔برسوں کے بعد میرے دوست حکیم صاحب نے مجھے اپنے والد جو بڑے نامور طبیب تھے ، کے ایک نسخے کا ذکر کیا ۔ ان کے والد ہومیو پیتھک دوا”سن ریر یا مار ٹیما “تیار کرتے تھے۔ یہ دوا باہر سے آتی ہے۔ وہ اس بوٹی کے لئے کسی جھیل یا تالاب پرجا تے تھےاور وہا ں سے اس کا پھول لاتے تھے۔یہ پھول نیلے رنگ کا ہوتا تھا۔ اکثر تالاب والے مقامات پر یہ بوٹی بڑے بڑے پتوں والی سبز ہوتی ہےاور جو بڑے جوہڑوں یا تالابوں میں پھیل جاتی ہےاور تمام تالاب اس سے بھرجاتا ہے۔ اُس میں نیلے رنگ والا پھول بھی لگتا ہے۔ ان کے والد صاحب کہتے تھے کہ اس سے “سن ریریا مارٹیما” کا ٹنکچرتیا ر ہو جاتا ہے جو ابتدائی موتیا بند کو تین چار ماہ استعمال کرنے سے دور کر دیتا ہے۔ ہومیو میوپیتھی میں یہ دوا بڑی مشہور و مقبول ہے۔
جہاں تک میری معلومات ہیں “اس دوائی سے 50 فیصدی کو کچھ فائدہ ہو جاتا ہے ، تمام کو فائدہ نہیں ہوتا ۔ اس سلسلے میں مزید تجربات اور تحقیق کی ضرورت ہے مگر اس سلسلہ میں مزید کوئی قدم آگے نہیں بڑھایا گیا جو کچھ حا صل ہے ہم اس کو ہی لئے بیٹھے ہیں، اس سے کچھ بھی آگے نہیں بڑھے۔
حکیم صاحب کے والد صاحب اس بوٹی کا نام گل بکاؤلی بتاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہیں اس کا بخوبی ذکر ہے اور پرانے زمانے میں ایک اندھے راجہ کے لئےگل بکاؤلی کا پھول حاصل کر کے اس کی دوا استعمال کرانے سے اس راجہ کو بینائی مل گئی تھی ۔ ان کہاوتوں کوسامنے رکھئے اور کو شش کیجئے گاکہ گردونواح کے تالابوں میں وہ نیلا رنگ کا پھول گل بکاؤلی والا آپ کو مل جائے جسے ہم کنول کہتے ہیں اور اس کنول کے پھول سے کنول کا شہد چھوٹی مکھی تیار کرتی ہےاور اسی شہد کو وہ موتیا بند میں استعمال کراتا تھااور اسی نیلے پھول سے ہم جسے اپنی طب مخفی اور اسراری زبان میں گل بکاؤلی کا پھول کہتے ہیں ، ہم ہومیوپیتھی کا ٹنکچر تیار کر کے شاید اس سے آگے بڑھ جائیں یا بہت کچھ مزید تجربات سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہ بوٹی پھول “کنول”ہے۔
یہ بوٹی اکثر تالابوں میں پائی جاتی ہے اور اس پانی میں رہتے ہوئےبھی یہ بوٹی پانی کی ہر لاگ سے دور ہو جاتی ہے، یعنی اسے پانی سے نکلال کر دیکھئے تو بلکل خشک نظر آئے گی اور پانی کا کوئی قطرہ اس پر نہ ہو گا۔اس کا پھول لمبی شاخوں پر ہوتا ہےاور یہ شاخ اندر سے کھوکھلی ہوتی ہےجس میں پانی بھرا ہوتا ہے۔
سفید کنول: جڑوں ، پھول ، پتوں اور شاخوں سمیت دواءًاستعمال ہوتا ہے،اسکا پھول باریک شاخیں اور پھولوں کا رس تقویت قلب کیلئے موَثر علاج ہے اور دق کا بھی علاج ہے جو بخار کسی دوا سے نہ جائے وہ اس سے زائل ہو جاتا ہے۔
شہد کی مکھی اس کے پھول کا رس چو س کر شہد بناتی ہےجو آنکھوں کے علاج کے لئے بڑی موَثر دوا ہےاور یہی سفید کنول (گل بکاؤلی کا پھول ) کا شہد ہی امراضِ چشم کا مجرب علاج ہے۔
بواسیر میں بھی کنول کے پھول کو شہد ، مکھن اور شکر کے ہمراہ دینے سے فائدہ کرتا ہے۔
کنول کے شگوفے اور نرم شاخیں 20 گرام ، صندل سرخ20 گرام۔ دونوں کو پانی کے ساتھ پیس کر گاڑھا ضماد تیا ر کر کے لیپ کریں ۔ زہر باد کے لیے ازحد مفید ہے،یہی ضماد پیشانی پر لگانے سے دردِشقیقہ کو فائدہ ہوتا ہے۔
نوٹ: عام طور پر سفید کنول ہی پایا جاتا ہے ، سرخ اور نیلا کمیاب ہیں ۔ تالابوں میں ایک اور پھول بھی ہوتا ہے جو نیلوفر کا پھول ہوتا ہے ، یہ پھول کنول سے بڑے ہو تے ہیں ۔(حکیم یوسف صاحب،رجسٹرڈیونانی پریکٹیشنرز)
جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا
از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی
کنول’’ کنول گٹہ‘‘(Lotus)
دیگر نام: سندھی میں پیسن‘ بنگالی میں پدما اور انگریزی میں لوٹس کہتے ہیں۔
ماہیت:یہ آبی پودا ہے۔ پتے اروی کے پتوں سے مشابہ‘ اس کی جڑوں کو بھوس یا بھے اور اس کے بیجوں کو کنول گٹّہ اور پھول کو کنول کہتے ہیں۔ پھول گل نیلو فرسے مشابہ لیکن قدرےبڑے ہوتے ہیں۔ کنول کے پھول پتے وغیرہ گرنے کے بعد اس کا کوزہ فوارے کے سر کی طرح اوپر سے چوڑا اور نیچے سے پتلا ہوتا ہے۔ اس کے سر کے اندر الگ الگ خانے ہوتے ہیں اور ہر خانے میں ایک لمبوترا بیضوی شکل کا دانہ ہوتا ہے۔ جس پر دو غلاف ہوتے ہیں۔ ایک غلاف سبز اور قدرے موٹا ہوتا ہے جبکہ دوسرا غلاف پتلا اور سفید ہوتا ہے۔دانہ کے اندر کا مغز بادام کے دو ٹکڑوں کی طرح ہوتا ہے۔ اور ان ٹکڑوں کے درمیان ایک سبز رنگ کا پتا ہوتا ہے۔ یہ مغز کھانے میں لذیذ اور شیریں ہوتا ہے۔تخم خشک ہونے پر باہر کا چھلکا بہت سخت ہوجاتا ہے۔ اس کو توڑ کر اس سے مغز نکال کر پتاالگ کیا جاتا ہے اور پھر یہ بطور دواء مستعمل ہے۔
مقام پیدائش:پاکستان اور ہندوستان میں تقریبا ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ مگر کشمیر سے راس کمادی تک زیادہ ہوتاہے۔
مزاج:سردتر۔۔۔۔ درجہ اول
افعال:مسکن صفراء و جوش خون‘ مسکن پیاس ‘قابض‘ مغلظ منی۔
استعمال: مسکن صفراء ہونے کے باعث مغز کنول گٹے کو پانی میں پیس کر چھان کر بچوں کے مرض عطاس( شدید پیاس) میں پلاتے ہیں۔ موسم گرما میں بادسموم زہریلی ہوا سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی شیرہ نکال کر پلاتے ہیں اور قابض ہونے کے باعث اسہال اطفال میں بطور شیرہ یا سفوف پلاتے ہیں۔ مسکن ہونے کی وجہ سے جوش و حدت خون میں بہ طریق مذکور پلاتے ہیں۔ مغلظ منی ہونے کے باعث جریان اور رقت منی میں دیگر ادویہ کے ہمراہ بہ صورت سفوف کھلاتے ہیں۔
اس کے بڑے بڑے پتے تیز بخار میں مریض کے بستر پر ٹھنڈک پہنچانے کے لئے رکھ دیتے ہیں۔ جڑلعاب دار اور ملطف ہونے کی وجہ سے مرض بواسیر میں مفید ہے۔ اس کی جڑ بطور نانخورش پکا کر کھاتے ہیں ۔جب قے و دست شدت سے آرہے ہوں تو کنول گٹے کی سبزی عرق گلاب میں گھس کر دینے سے فورا ًنفع ہوتا ہے۔
کیمیاوی اجزا:اجزاء لحمیہ‘شحم‘نشاستہ‘ کیلشیم‘ فاسفورس‘ فولاد اور کاربالک ایسڈ وغیرہ۔
مقدار خوراک:تین سے پانچ گرام۔
تاج المفردات
(تحقیقاتِ)
خواص الادویہ
ڈاکٹروحکیم نصیر احمد طارق